• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

اسلامی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام کو دنیا کے دیگر مذاہب میں اس لحاظ سے ایک امتیازی مقام حاصل ہے کہ اس کے سوا دنیا کے تمام مذاہب اور تہذیبیں ایسا ضابطۂ حیات پیش کرنے سے قاصر ہیں، جس میں فرد کی انفرادی زندگی سے پورے انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی تک، فرد اور معاشرے کی اصلاح کی ضمانت فراہم کی گئی ہو، اسلام جو فلسفۂ حیات اور مثالی شریعت عطا کرتا ہے، اُس کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر اور صورت گری یقینی امر ہے۔ اسلامی تہذیب و معاشرت اسلامی ضابطۂ حیات کی ترجمان اور انسانی فطرت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے،جب کہ مغربی تہذیب، اسلامی تعلیمات سے بغاوت کادوسرا نام ہے، اگر دونوں تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی۔ 

مغربی تہذیب مادر پدر آزادی کا دوسرا نام ہے،یہ دین فطرت ،اور دین انسانیت سے بغاوت کا نام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کا جدید معاشرہ والدین کے حقوق، بڑوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت ومحبت، رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تحسین سے عاری ہے۔اس کے برخلاف اسلامی تہذیب معاشرے کے ہر فرد سے بلا تمیز رنگ و نسل حسنِ سلوک اورحسن معاشرت سے عبارت ہے۔ مغربی تہذیب میں خاندانی نظام کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔وہاں کا خاندانی اور معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ سے عبارت ہے۔جب کہ اسلام حسن معاشرت اور حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے۔اسلام معاشرے کے ہرفرد خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ،ہر ایک کے حقوق کا محافظ ہے۔ہر ایک سے حسن معاشرت کی تعلیم دیتا ہے۔

ارشاد نبویؐ ہے: آپس میں سلام کو رواج دو۔ (صحیح مسلم) دوسری جگہ ارشاد ہے: گفتگو سے پہلے سلام ہے۔ (سنن ترمذی)لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی تحسین بیان کرتے ہوئے سرورِکائنات ﷺ کا ارشاد ہے، جو مسلمان عام لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی طرف سے ہونے والی تکلیف دہ باتوں پر صبر اختیار کرے تو یہ ایسے مسلمان سے بہتر اور افضل ہے جو الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرے اور لوگوں کی تکالیف پر صبر اختیار نہ کرے۔ (سنن ترمذی) پھر معاشرتی اور تمدنی زندگی گزارنے کے سنہرے اصول کے طور پر ارشاد فرمایا: لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔(المعجم الکبیر للطبرانی) دوسری جگہ ارشاد نبویؐ ہے: اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تمہارا خندہ روئی سے پیش آنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔( سنن ترمذی)

اسلامی معاشرت میں والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کی بڑی اہمیت ہے ،حتیٰ کہ باری تعالیٰ جو کائنات کا خالق و مالک ہے، اس کے حقوق کے بعد اگر کسی کا درجہ اور حق بنتا ہے تو والدین کا ہے اور کیوں نہ بنے جب کہ وہ اس کے دنیا میں آنے کے ظاہری اسباب ہیں، اسی لیے اسلامی تعلیمات اوراسلامی تہذیب میں والدین کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ایک طرف قرآن مقدس کہتا ہے: ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ تو دوسری جانب شارح قرآن ﷺفرماتے ہیں: باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے۔(المستدرک علیٰ الصحیحین، وسنن ترمذی)اور ارشاد ہے: باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور باپ کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ (سنن ترمذی)

والدین کی نافرمانی سے متعلق ارشاد ہے: کیا میں لوگوں کو سب سے بڑے گناہوں کی خبر دوں؟ حضراتِ صحابہ ؓ نے عرض کیا، کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! یعنی ضرور بتائیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ ربّ العزت کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔( صحیح البخاری، وسنن ترمذی)ایک جگہ ارشاد ہے: جو نوجوان بھی کسی بوڑھے شخص کا اس کی عمر کی وجہ سے ادب واحترام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسا شخص مقدّر فرمائے گا جو اُس کا ادب واحترام کرے گا۔ (سنن ترمذی) دوسری جگہ ارشادِ نبویؐ ہے: جو شخص ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(سنن ترمذی)

پڑوسیوں اور محلّے داروں کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا بھی قدیم معاشرے اور اسلامی تہذیب کی دین ہے۔ ارشادنبویؐ ہے: وہ مومن ہی نہیں ، جو خود پیٹ بھرکر کھائے اوراس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(المستدرک علیٰ الصحیحین، رقم الحدیث ۷۳۰۷)ایک اور جگہ ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے سب سے اچھا ہو۔(صحیح ابن حبان)عزیز واقارب،احباب ورشتے داروں سے تعلق بناکے رکھنا حسن ِمعاشرت ہے اور تعلق ختم کرلینا معاشرت کے خلاف ہے، اسی لیے قطع تعلق کرنے والے کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت وعید ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری )

معاشرت محبت سے قائم رہتی ہے، اگرمحبت کا عنصر مفقود ہوجائے تو معاشرت میں شگاف پڑجاتا ہے اور محبت کے اسباب میں قوی سبب ایثار وقربانی ہے، اسی لیے قرآن مقدس میں ایثار کو قابلِ تعریف وصف قرار دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وہ حضرات (ایثار کے معاملے میں دوسروں کو)اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، گو انہیں فاقہ ہی کیوں نہ ہو۔(سورۃ الحشر:۹)یہ قدیم اسلامی تہذیب اور مسلم سماج کی ان خوبیوں کی ادنیٰ سی جھلک تھی جو حسن معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔

اسلامی معاشرہ گناہوں اور جرائم کے سدباب کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لہٰذا سلف صالحین سے ورثے میں ملنے والا معاشرہ اور قرآن وسنت سے ماخوذ تہذیب میں بڑی اصولی راہیں ملتی ہیں، مثلاً معاشرہ شرم وحیا سے آراستہ ہو، حدیث نبویؐ ہے: حیاء ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے۔(سنن نسائی) دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے: حیا ءسے خیر ہی وجود میں آتی ہے۔ (صحیح البخاری)

نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے ارشاد ربّانی ہے: ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(سورۃ النّور:۳۰) زنا اور حرام کاری جیسے مکروہ اورقبیح عمل کی ممانعت کے لیے قرآن پاک کی تعلیم ہے: زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ، وہ بڑی بے حیائی ہے۔ ( سورۂ بنی اسرائیل:۳۲) نیز صالح معاشرے اور مہذب سماج کی تشکیل میں کلیدی حیثیت اور نہایت اہم رول تربیتِ اولاد کا ہے، اس پر توجہ دیتے ہوئے ہدایت دی گئی ہے: اچھے ادب (اچھی تربیت) سے بہتر عطیہ اور ہدیہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو نہیں دیا۔( سنن ترمذی)

افسوس صد افسوس، ان روشن خیال اور تہذیب جدید کے متوالوں پر کہ ہم دونوں تہذیبوں میں جب تقابل کرتے ہیں تو جدید تہذیب اور ماڈرن معاشرے کی تباہ کاریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی نام نہاد خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جب کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی بے شمار اچھائیوں اور خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، حالاں کہ ہر بابصیرت اور انصاف کی نگاہ رکھنے والا انسان جب دونوں تہذیبوں کا مطالعہ کرے گا تو مجبور ہوگا کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی عظمت کا اعتراف کرے۔اللہ تعالیٰ تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو عقل وسمجھ عطا فرمائے اور غیراسلامی اقدار سے بچ کر اپنے پروردگار اور آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ دوعالم ﷺکے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)