• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقابلِ ادیان کی تربیتی نشستوں میں شمولیت اختیار کرنا

تفہیم المسائل

سوال: اگر تقابلِ ادیان کے کسی تعلیمی سیشن میں کوئی طالب علم بطور تربیت ہنود ونصاریٰ کے عقائد، نظریات اور طرزفکر کو صرف تعلیم وتعلم اور تبلیغ دین کے مقصد کے پیشِ نظر سوال، جواب کی صورت میں کرے، تاکہ اغیار کے اعتراضات وافکار ونظریات کو سمجھ کر ان کے مدلل جوابات دیے جاسکیں، تو کیا ایسے شخص پر تجدیدِ ایمان واجب ہوگی؟ (علّامہ سرفراز ، اسلامک سینٹر ، کراچی)

جواب: اسلام ایک کامل دین ہے، دوسرے تمام اَدیان اورالہامی کُتب کا ناسخ بھی ہے، اس کے اپنے متنوع دلائل وبراہین ہیں۔ اس نے فکر وعمل اور استنباط واستدلال کا ایک منہاج دیا ہے، حق وباطل کے درمیان خطِ امتیاز کھینچ دیا ہے۔ 

موجودہ دور میں تقابلِ اَدیان کے کورس اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری اور مفید ہیں، اِن میں اَدیان و مذاہب کے درمیان اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے۔

قرآن مجید میں بھی مختلف مذاہب کے تقابلی مطالعے کے عنوان سے عقائد کا ذکر آیا ہے، خواہ یہ ذکر ان کی تردید کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن مجید پڑھنے والے کا فریضہ یہ بھی ہے کہ تفسیر، تاریخ یا دوسرے ذرائع سے مختلف اَدیان کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرے، ایسی معلومات اس کے لیے تبلیغ دین کے سلسلے میں بھی کارآمد ہوسکتی ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مناظرے کے وقت بھی، مثلاً : دوسرے مذاہب کے لوگ سوال یا اعتراض کریں تو ان کے مذاہب سے واقفیت بعض اوقات بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔قرآن کریم بین المذاہب مکالمہ میں تہذیب وشائستگی کو غیرمعمولی اہمیت دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’ اور(اے مسلمانو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑو، مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو، (سورۃ العنکبوت: 46)‘‘۔

سورۂ انعام کی آیات 74 تا 81 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے (عرفی ) باپ آزر اور اپنے قوم کے ساتھ اُن کے خود ساختہ خداؤں کی بابت مکالمہ موجود ہے ، جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام بتوں، چاند، سورج اور ستاروں کے معبود مانے جانے کا بُطلان پیش کرتے ہیں، ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے پوچھا جانے والا ایک جملہ:’’ ھٰذَا رَبِّی ‘‘(یہ میرارب ہے ) بارہا دہرایا گیا ہے، یہ بھی بطور استفہامِ انکاری کے ہے کہ کیا تمہارے عقیدے کے مطابق یہ میرا رب ہے اور پھر ستارے، چاند اور سورج کے ماند پڑجانے یا زوال سے اُن کے عقیدے کے باطل ہونے پر استدلال کیاہے کہ جو اپنے آپ کو زوال سے نہ بچاسکے ،وہ کسی اور کے کیا کام آئے گا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو اپنی طرف سے حُجّت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ترجمہ: ’’ یہ تھی ہماری وہ قوی دلیل جوہم نے ابراہیم کو اُن کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی ،(سورۃانعام:83)‘‘۔

ان آیات میں اُلُوہیّت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات کے لیے مناظرہ کاثبوت ہے اور یہ کہ دینِ حق کے اثبات اور اس کی نُصرت کے لیے مناظرہ کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ علّامہ عمادالدین ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ سچ تویہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم سے یہ مکالمہ مناظرہ کے طور پر ہی ہے کہ تم جن باطل معبودوں کو پوجتے ہو ،یہ سب ہیچ ہیں، (تفسیر ابن کثیر ،جلد3)‘‘۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کے ساتھ البقرۃ: 258 میں مناظرے کا ذکر موجود ہے، اس میں وہ اُس باطل مُدّعیِ اُلوہیت کو لاجواب کردیتے ہیں۔کسی علم کا سیکھنا اظہارِ حق کے لیے ہو،تو اس کی شریعت میں اجازت موجود ہے، علّامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ ایک دوسرا وہ علم ہے، جس کے جاننے والے کو کوئی اُخروی نفع حاصل نہیں ہوتا اور وہ علم جِدال ومُناظَرہ ہے، اس علم میں مشغول ہونا ایک ایسی چیز میں عمر ضائع کرنا ہے، جس کا آخرت میں کچھ نفع نہیں ہے، (یہ اس صورت میں ہے:) جب اس نیت سے اس علم میں مشغول ہوکہ اپنے مخالفین کو مغلوب کرے گا، اظہارِ حق اورمسائل میں پائے جانے والے فرق کے بارے میں واقفیت اوراَحکام سے تناقض دور کرنا مقصود نہ ہو۔ پس اگر کسی ایسے دوسرے علم میں مشغول ہو، جو دنیاوآخرت میں نفع کا سبب ہے اور محض عمر ضائع کرنا نہیں ہے، تو وہ اَولیٰ ہے، ’’جواہر الفتاویٰ ‘‘ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد5،)‘‘۔

امام غزالی ؒ نے فلاسفہ کا رَدّ اُنہی کی کُتب سے فلاسفہ کے اصولوں کے مطابق ہی کیا، اسی طرح دیگر علماء مُتکلمین نے بھی مختلف فرقوں کا رَدّ اُنہی کے اصولوں کے مطابق انہی کی کتابوں سے کیا، متاخرین میں علّامہ رحمت اللہ کیرانوی کی اظہارِ حق انتہائی جامع، مُدلل اور مستند کتاب ہے، اسی طرح محدّث اعظم علّامہ غلام رسول سعیدی ؒ نے تبیان القرآن میں متعدد مقامات پر اہلِ کتاب کا اُنہی کی کُتب سے رَدّ فرمایا ہے۔

قاضی محمد سلیمان منصورپوری اورمولانا امرتسری نے مناظراتی دورمیں اسلام دشمن عناصر کا ردّ اُنہی کی کتابوں سے کیا ، علامہ ابن تیمیہؒ نے چار جلدوں میں نصاریٰ کے رَد میں کتاب ’’اَلْجَوَابُ الصَّحِیْح لِمَن بَدَّلَ دَیْنَ الْمَسِیْح ‘‘لکھی ،اس کتاب میں انہوں نے مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ بائبل کا مطالعہ پیش کیا ہے اور اسی طرح ان کے شاگردرشید علامہ ابن قیم کی بائبل پربڑی گہری نظر تھی، یہودونصاری سے متعلق ان کی تحریروں کو دیکھا جاسکتا ہے، ان تمام علماء کا اُسلوب رَدّ باطل تھا، محض ذہنی ورزش کے طور پر تقابلی مطالعہ مقصود نہیں تھا، علّامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ علم کلام سیکھنا، مناظرہ کرنا سوائے ضرورت وحاجت کے مکروہ ہے، بعض حضرات نے اس مسئلے میں جواب یوں دیاکہ کثرت سے مناظرہ کرنا اور مجادلہ میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے، کیونکہ ایسا کرنا بدعت اور فتنے کے فروغ اور عقائد میں تشویش واضطراب کا سبب بنے گا اور یہ ضرور ممنوع ہے، جیسا کہ ’’جواہرالاخلاطی ‘‘ میں ہے۔ 

مسئلہ کلامیہ کو اگر درست طور پر نہ جانتا ہو، تو اس میں مناظرہ نہ کرے، امام محمدؒ مسئلہ کلامیہ میں مناظرہ اس لیے کیا کرتے تھے (کہ انہیں عقائد میں تَصَلُّب ورسوخ حاصل تھا اور مخالفین کو مسکت جواب دینے کا ملکہ تامّہ رکھتے تھے) جیساکہ ’’ملتقط‘‘ میں ہے۔

شیخ امام صدرالاسلام ابوالیُسرؒ فرماتے ہیں: میں نے علمِ توحید پر مُتقدمین کی کتابوں کو دیکھا، تو میں نے بعض فلاسفہ جیسے اسحاق کندی اور استقراری اور ان کی مثل اصحاب کی تصانیف دیکھیں، سب (کتابیں) دینِ مستقیم سے خارج ہیں اور اُن میں راہ اعتدال سے کجی ہے، پس ان کتابوں کو پڑھنا اور ان کا رکھناجائز نہیں ہے کہ یہ کتابیں شرک وگمراہی سے بھری ہوئی ہیں۔

مزید فرمایا: میں نے اس فن میں بہت سے معتزلہ مثلاً : عبدالجبار رازی، جُبّائی، کَعبِی اور نظام کی تصانیف پائی ہیں، ان کتابوں کو پڑھنا اوررکھنا جائز نہیں ہے تاکہ عقائد میں شکوک و شبہات پیدانہ ہوں اور عقائد میں ضُعف اورکمزوری نہ آجائے، اِسی طرح فرقۂ مجسمہ، مثلاً : محمد بن ہیصم وغیرہ نے بھی اس فن میں کتابیں تصنیف کی ہیں، ان کتابوں کا پڑھنا اور رکھنا بھی جائز نہیں ہے کہ یہ لوگ بدعتیوں سے بھی زیادہ بدترہیں۔ 

ابوالحسن اشعری نے مذہبِ معتزلہ کے حق میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ہدایت دی، تو پھر انہوں نے معتزلہ کے رَد میں کتاب لکھی، مگر ہمارے اصحاب اہل السنّۃ والجماعۃ نے ابوالحسن اشعری کے بعض مسائل میں غلطی ثابت کی ہے، جن میں انہوں نے خطا کی تھی، جو شخص ان مسائل پر واقف ہو اور ان کی خطا کو پہچانتا ہو، تواس کے لیے ان کتابوں کے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ‘‘۔

پس خلاصۂ کلام یہ ہے کہ: ترجمہ: ’’ ان کتابوں کو پڑھنا اور انہیں پاس رکھنا اسی شرط کے ساتھ جائز ہے کہ جس مسئلے میں مصنف نے خطاکی ہے ،ان سے خوب واقف ہو، جیسا کہ ’’ظہیریہ‘‘ میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد5)‘‘۔ پس اگر کوئی سلیم الفطرت عالمِ دین /طالبِ علم یہود ونصاریٰ کے اعتراضات وافکار ونظریات کو سمجھ کر ان کے مدلل جوابات دینے کے لیے جدید یا ممنوع علوم حاصل کرتاہے، اُن میں پائی جانے والی خطاؤں کو خطا جانتا ہے، اس مطالعہ سے (تَصَلُّب فی الدِّین کے سبب) اس کے عقائد میں خلل پیدا نہیں ہوتا، اُس پر کسی قسم کا مؤاخذہ نہیں ہے، نہ ہی اُس پر تجدید ایمان کا حکم لگایا جائے گا۔   (… جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com

اقراء سے مزید