• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: ایک آدمی کے علم میں نہیں ہے کہ ’’کلّما‘‘ کی طلاق کیا ہوتی ہے، اس نے دوسرے کی ضد میں آکر ’’کلّما‘‘ کی طلاق اٹھالی، تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

جواب: عربی زبان میں ’’شرط‘‘ کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’’كُلَّمَا‘‘ ہے جس کا اردو میں ترجمہ ”جب جب بھی“ یا ’’جب کبھی بھی‘‘ وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔ ’’كُلَّمَا‘‘کے لفظ کے ساتھ جو شرط لگائی جائے، اس کی جزا کے ایک مرتبہ پائے جانے سے آئندہ کے لیے وہ ختم نہیں ہوتی، بلکہ جب جب وہ شرط پائی جائے، محل ہونے کی صورت میں جزا بھی اس پر مرتب ہوتی ہے۔ 

لیکن ’’كلّما‘‘ کا لفظ اس وقت عمل کرتا ہے، جب اس کے ساتھ شرط وجزا دونوں ذکر کی جائیں، جیسے کوئی شخص کہے ’’كُلَّمَا تَزَوَّجْتُ بِفُلَانَةٍ فَهِيَ طَالِقٌ‘‘ یعنی جب جب بھی میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، اس صورت میں یہ شخص جب بھی اس عورت سے نکاح کرے گا، اس عورت پر طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی۔

اگر ’’كُلَّمَا‘‘ کے ساتھ شرط و جزا کا ذکر نہ ہو تو محض ’’كُلَّمَا‘‘سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا عوام میں جو ’’كُلَّمَا کی قسم‘‘ یا ’’كُلَّمَا کی طلاق‘‘ رائج ہے، یعنی قسم یا طلاق کے مکمل الفاظ کی ادائیگی کے بغیر صرف ’’كُلَّمَا‘‘ کا عنوان ذکر کیا جاتا ہے، اس پر قسم یا طلاق کے شرعی احکام مرتب نہیں ہوتے، لہٰذا اگر مذکورہ شخص نے بھی پورے الفاظِ قسم یا الفاظِ طلاق کی ادائیگی کے بغیر صرف ’’كُلَّمَا‘‘کی قسم اٹھائی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔(فتاویٰ شامی، کتاب الطلاق،باب الصريح،ج:3، ص:352، و ص:427، ط:سعید )

بہتر تھا کہ آپ سوال میں مذکورہ شخص کے ادا کردہ کلمات مِن و عَن نقل کردیتے، تاکہ حکم مزید وضاحت کے ساتھ بتا دیا جاتا۔ تاہم اُصولی جواب لکھ دیا گیا ہے، امید ہے کہ اس سے کفایت ہوجائے گی۔

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

iqra@banuri.edu.pk

اقراء سے مزید