چند یوم قبل گورنر ہاوس کراچی میں کراچی کو فراہمی آب کے عظیم تر منصوبے ،کے فور، کا چوتھی مرتبہ سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تو بہت کچھ یاد آگیا۔ وزیر اعظم، محمد شہباز شریف نےچھبّیس مئی کو منصوبے کے پہلے مرحلے کا سنگِ بنیاد رکھا جس کی تکمیل سے کراچی کو 260 ایم جی ڈی پانی ملنے لگے گا۔ واضح رہے کہ یہ منصوبہ مجموعی طورپر650ایم جی ڈی (65کروڑ گیلن یومیہ )کا ہے جس کے تین مرحلے ہیں۔
پہلی مرتبہ اس کا سنگ ِبنیاد 10جون2015کو اس وقت کے وزیراعلی سندھ، سید قائم علی شاہ، نے رکھا تھا اور لاگت کا تخمینہ 25 ارب 55 کروڑ روپے تھا۔آج آٹھ برس گزرنے کے باوجودبہ مشکل اس کا تیس تا پینتیس فی صد کام مکمل ہو سکا ہے۔ دوسری جانب اس کی لاگت بڑھ کر ایک کھرب 26 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔
منصوبے پر کام کے لیے دوسری مرتبہ وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کے دفتر، واقع کلفٹن میں 15 جون2016کو معاہدے کی تقریب منعقد کی گئ تھی جس میں اس وقت کے وزیر خزانہ سندھ، سید مراد علی شاہ اور دیگر وزرا نے شرکت کی تھی۔ مراد علی شاہ نے اس موقعے پر کہاتھا کہ پہلا مرحلہ دو سال میں مکمل ہو جائے گا ۔ تیسر ی مرتبہ 14اگست2016کو وزیراعلی سید مراد علی شاہ نے اس وقت کے گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العبادکے ساتھ کاٹھور میں سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی تھی۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ منصوبے کے آغاز میں وفا ق اور صوبے میں جن سیاسی جماعتوں کی حکومتیں تھیں آج بھی ان ہی کی ہیں۔ تاہم انہوں نے کبھی تاخیر کی وجوہات بتائیں اورنہ ذمّے داروں کے خلاف کارروائی کی۔ واضح رہےکہ اتنے برسوں میں اس منصوبے کا ابھی پہلامرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ یہ مکمل ہونے کے بعد اس کے باقی دو مراحل پر بھی کام ہونا ہے۔ فیز ٹو260 ایم جی ڈی اور فیزتھری 130ایم جی ڈی کا ہے۔
کراچی کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس وقت کراچی میں پانی کی مجمو عی طلب سے پچاس فی صد کم پانی فراہم کیا جا رہاہے اور بعض علاقے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ سے زاید شہری پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کو مہیا کیے جانے والے پانی کا چالیس فی صد چوری ہوجاتا ہے جو بعد میں منہگے داموں واپس شہریوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ شہر میں پانی کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ بعض علاقوں میں یہ امیروں کا ہے ،تو کہیں یہ غریبوں کا پانی ہے۔ جس کے پاس جتنا پیسہ اور اثرو رسوخ ہے اس کے پاس اسی قدر صاف پانی ہے۔
کراچی میں پینے کے پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے برسوں قبل عظیم تر منصوبہ آب رسانی،کے فور، بنایا گیا تھا،لیکن نہ سمجھ میں آنے والی وجوہ کی بنا پر یہ ٹلتا رہا۔ بعض دستاویزات کے مطابق یہ منصوبہ 2006 میں منظور ہوا تھا۔ پھر یہ فائلوں سے نکلا ،زمین پر آیا تو اس کی راہ میں کبھی مالی وسائل کی عدم دستیابی آڑے آئی تو کبھی سرخ فیتے کی روایتی سُستی اور لاپروائی۔ کبھی وفاق سے فنڈ نہ ملنے کا شکوہ سنا گیا تو کبھی صوبائی وازرتِ خزانہ سے فنڈ کی عدم فراہمی کی شکایات سامنے آئیں۔
یوں کئی برس بیت گئے۔ پھر 2016 میں اس کے پہلے مرحلے پر کام کا آغاز ہوا، مگر کسی نہ کسی وجہ سے اس منصوبے پر کام کی رفتار معمول کے مطابق نہ رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پر آنے والی لاگت کا تخمینہ بھی بڑھتا چلا گیا۔عوامی اہمیت کا یہ بہت اہم منصوبہ کراچی کے عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، لیکن ہمارے حکم رانوں اور سرکاری عمّال کے لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ دوسری جانب اس ضمن میں عوام کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔اس بے چینی کی باز گشت سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے واٹر کمیشن میں بھی سنائی دی۔ واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کے فور منصوبے پر کیے جانے والے اخراجات کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی اور منصوبے میں کی گئیں تبد یلیوں کی تفصیلات بھی طلب کی کیں۔ مگر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو
یہ 10ستمبر 2014کی بات ہے۔اس روز اس وقت کےوزیر اطلاعات و بلدیات سندھ اور چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈشرجیل انعام میمن نے اپنے دفتر میں کے فور منصوبے کے بارے میں منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ کے فور پروجیکٹ کی فزیبلیٹی رپورٹ اورپروجیکٹ کو شروع کرنے کے ضمن میں تمام اقدامات ہنگامی بنیادوں پرکیے جائیں۔ پروجیکٹ کی مجموعی لاگت 25.5ارب روپے ہے اور اس کےپہلے فیز سے 260 ملین گیلن پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔پروجیکٹ124کلومیٹر طویل ہے اور یہ کینجھر جھیل سے جنگ شاہی تک کینال کے ذریعے پانی لانے کا ذریعہ بنے گا۔
سندھ حکومت کے فور منصوبے کو جلداز جلد مکمل کرکے کراچی میں پانی کے بحران کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ خود اس منصوبے کو جلداز جلد مکمل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس وقت کےوزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی ہدایت پر منعقدہ اس اہم اجلاس میں پروجیکٹ کنسلٹنٹ اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نے پروجیکٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اور بتایاتھا کہ منصوبےکی فزیبلٹی رپورٹ کئی سال قبل مکمل کرلی گئی تھی اورمنصوبے کے لیے درکار زمین سندھ حکومت نے فراہم کردی ہے۔ یہ منصوبہ آئندہ 30سے50 سال تک کی آبادی کو مدنظر رکھ کر ڈیزائین کیا گیا ہے۔
البتہ اب بھی اس منصوبے کے لیے بعض اسٹیڈیز درکار ہیں جنہیں ایک ہفتے میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس موقعے پر وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا تھاکہ کے فور منصوبے کے لیے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی انتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھارہی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ خود اس کی مانیٹرنگ کررہے ہیں۔ انہوں نے پروجیکٹ ڈائریکٹر مصباح الدین اور کنسلٹنٹ کو ہدایات دی تھیں کہ وہ پروجیکٹ کی مکمل فزیبلیٹی رپورٹ اور منصوبے کو درپیش مسائل کی مکمل رپورٹ ایک ہفتےمیں جمع کرائیں۔
اس موقعے پر مشیر خزانہ نے کہاتھا کہ پروجیکٹ کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے درکار فنڈز کی فراہمی کے لیے تمام اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور پروجیکٹ کی مکمل فزیبلیٹی رپورٹ تیار کرکے اس کی حتمی لاگت کا اندازہ لگا کر اسے فوری طور پر شروع کردیا جائے گا۔ انہوں نے پروجیکٹ کنسلٹنٹ سے کے فور کے تمام روٹس کے حوالےسے مکمل آگاہی حاصل کی اور کہاتھاکہ پرو جیکٹ کی لاگت کو کم سے کم کرکے ایسا روٹ فائنل کیا جائے جس سے کراچی کے شروع سے آخر تک کے تمام علاقوں کو باآسانی پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
یہ 5مئی 2015کی بات ہے۔مقام ہے سینیٹ آف پاکستان کی عمارت اور موقع ہے ایوانِ بالا کے اجلاس کا ۔اس روز کراچی میں پانی کی فراہمی کے منصوبے، کے فور سے متعلق سینیٹ میں ایم کیو ایم کی تحریک التواء پر بحث ہورہی تھی۔ اس موقعے پراس وقت کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی، احسن اقبال نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے اپنے حصے کے 20 کروڑ میں سے 8کروڑ روپے جاری کر دیے ہیں، سندھ حکومت نے باقی 12 کروڑ روپے لینے کےلیے ابھی تک ڈیمانڈ ہی نہیں بھجوائی۔ وزیر اعظم نےکے فور منصوبے کےلیے50فی صدکے علاوہ مزید 3 ارب روپے بھی دینے کی منظوری دی ہے۔
تاہم سندھ حکومت یہ پیسے لینے کے لیے اپنے حصے کے 3ارب روپے بھی دے۔ منصوبے میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے ایوان کو بتایا تھا کہ کے فور منصوبے کی لاگت 2007ء میں 12ارب روپے تھی جو سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت کے باعث بڑھ کر ساڑھے25ارب روپے ہو گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے تو 8 کر وڑ روپے دیے، مگر سندھ حکومت نے ایک روپیہ نہیں دیا اور عوام کو ٹینکر مافیا کے حوالے کر دیا۔ بحث میں حصّہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ 50فی صد بجٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن وفاقی حکومت نے صرف8 کروڑ روپے دیے جو مذاق ہے۔ انہوں نے اعتراف کیاتھا کہ پانی کی لائنز کو توڑ کر غیر قانونی ہائیڈرنٹس بنائے گئے ہیں جنہیں ختم نہ کرنا سند ھ حکومت کی کم زوری ہے۔
پھر 8مئی 2015 کو سندھ اسمبلی میں بھی کراچی میں پانی کے بحران کے بارے میں گرما گرم بحث ہوئی تھی،لیکن ہوا کیا؟ یہ سب کے سامنے ہے۔یاد رہے کہ اُس برس کراچی میں موسمِ گرما میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بارہ سو سے زاید افراد ہلاک ہوگئے تھے اور تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان اموات کے اسباب میں موسم کی شِدّت سب سے اہم تھی، تاہم پانی اور بجلی کی قلت نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں نو ستمبر 2020 کو منعقدہ اجلاس میںاس وقت کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،اسد عمر نے کہا تھاکہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عمل درآمد شروع کرنا پہلی ترجیح ہے۔ کے فور منصوبہ اب وفاقی بجٹ سے تعمیر ہوگا، آج وزیر اعلیٰ سندھ کو خط بھیجا جائے گا۔پھر دس دسمبر 2021کواس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے پہلے اور آزمایشی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ میں خود کے فور منصوبے پر واپڈا کے چیئرمین سے فالو اپ لے رہا ہوں، آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ اگلے مہینے منظوری کے بعداس پر کام شروع ہوجائے گا اورچودہ مہینے میں یعنی2023میں کراچی کو پانی پہنچنا شروع ہوجائے گا۔ لیکن پھر بھی کراچی والوں کی قسمت نہ کھلی۔
گزشتہ دنوں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ یہ منصوبہ 2002ء میں اس وقت کے ناظمِ کراچی مصطفیٰ کمال کے وژن 2020ء میں شامل تھا، آج پہلا موقع ہے کہ وفاق اور صوبہ اور شہری علاقوں کی نمائندگی کی دعوےدار ایم کیو ایم ایک پیج پرہے، اب توقع ہے کہ یہ منصوبہ دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق مکمل ہو گا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کےاس منصوبے کو بیس برس بیت چکے ہیں، یہ منصوبہ غلط پلاننگ کی مثال تھا، 2004-05 میں اس کی پہلی فزیبلٹی اسٹڈی ہوئی اور 2006ء میں جب اسے ایکنک میں لے کر گئے تو اس کی لاگت 46 ارب روپے تھی، تاہم اس میں کمی کا کہا گیا، 2011ء میں 25ارب روپے کی لاگت سے اس کی منظوری ہوئی اور 5ارب روپے اراضی کی خریداری کے لیے تھے جو صوبائی حکومت نے دینے تھے۔
تاہم 25 ارب روپے میں اس کی تکمیل مشکل تھی۔ 2015ء میں منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔25ارب روپے میں سے 50 فی صد وفاق اور50فی صد صوبے نے دینے تھے۔ سندھ حکومت نے بہ راہ راست ٹھیکوں کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایف ڈبلیو او سے کہاکہ وہ25ارب روپے میں یہ منصوبہ بنا کر دے، تاہم اس نے 42 ارب روپے لاگت بتائی۔ پھر ساڑھے 28 ارب روپے پر ایف ڈبلیو او کے ساتھ کام شروع کیا۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل ہم اسے مکمل کرنا چاہتے تھے، کینجھر جھیل سے پائپوں اور چینلز کے ذریعے پانی کراچی لانا تھا۔
بعد میں ستمبر 2018ء میں اس وقت کے وزیراعظم سے دورہ کراچی کے موقعے پر اس پراجیکٹ کی لاگت بڑھانے کامطالبہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر کام بند کرا کر اس میں کرپشن کے الزامات عاید کرکے اس کی تحقیقات کرانے کا اعلان کر دیا اور پی ٹی آئی کے دور میں اس پر کام بند رہا۔ موجودہ حکومت آنے پر دوبارہ کام کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے کے لیے کوئی قرض نہیں لیا گیا۔ اس وقت ایک کمیشن بنا کر بار بار اسلام آباد بلا کر اس کی تحقیقات کرائیں۔ پھر یہ کام واپڈا کو دیا گیا جس نے اس کی لاگت 126 ارب روپے بتائی۔
اب وزیراعظم شہباز شریف نے کہاہے کہ کےفور منصوبے کو بجٹ میں اولین ترجیح دوں گا اور یہ منصوبہ جلد مکمل کیا جائے گا۔ دیکھیے ،یہ وعدہ کب اور کیسے پورا ہوتا ہے۔ لیکن پورا ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔
کنسلٹنٹ کا تقرّر
اس منصوبے کے لیے ادارہ فراہمی و نکاسی آب کر ا چی نے 2فروری2015کو کنسلٹنٹ کا تقرر کیا تھا اور مشاورتی فرم عثمانی اینڈ کمپنی کو یہ کام سونپاگیا۔ اس موقعے پر ایک تقریب منعد ہوئی جس میں ایم ڈی واٹر بورڈ سید ہاشم رضا زیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ گریٹرکراچی منصوبہ ،کے فور، کراچی کےلیے اہمیت اور افادیت کے باعث شہر کی تجارتی، صنعتی، سماجی اور معاشی زندگی میں انقلاب لائے گا۔ 2006سے التوا کے شکار اس منصوبے کا آغاز ہوگیا ہے، کوشش ہے کہ یہ تین سال سے قبل مکمل ہو اور اس کی ڈیزائننگ بھی 9 ماہ قبل کرلی جائے۔
منصوبہ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کاکراچی کے لیے تحفہ ہے جس کی منظوری وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں دی۔ان کا کہنا تھا کہ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 25ارب روپے سے زیادہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومت کے فنڈسے مکمل ہوگا۔ابتدائی فنڈحاصل ہو چکا ہے اور مزید فنڈز کی دست یابی میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ سابق صدر آصف علی زرداری کا ترجیحی پروجیکٹ رہا ہے۔
منصوبے کی پہلی اینٹ
اگرچہ یہ منصوبہ 2006 میں منظور ہوا تھا، لیکن 2007کے بعد سے اب تک کراچی کو پانی کی فراہمی کے ضمن میں ایک ملین گیلن یومیہ کا بھی اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ دوسری جانب اُس وقت سے اب تک شہر کی آ با د ی میں ہوش رُبا اضافہ ہوچکا ہے۔کے فور منصوبے کی پہلی اینٹ 23جنوری 2015کو رکھی گئی جب اس کے لیے 8255 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی۔ اس روز متعلقہ حکام نے صحافیوں کو بہت فخریہ اندازمیں بتایا تھا کہ دوماہ سے کم مدت میں سیکشن 6کے تحت ڈکلیریشن کا حصول بہت بڑی کام یابی ہے جس کی مثال بورڈ آف ریونیو سے زمین کے حصول کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بتایا گیا کہ کمشنر کراچی، شعیب احمد صدیقی نے زمین کی الاٹمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کردیاہے۔ پانی کی فراہمی کے حوالے سے کراچی کےعوام لیے سال نو کی یہ سب سے بڑی خوش خبری ہے۔ یہ عمل کے فور منصوبے کی کام یابی کا اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ اس موقعے پر کے فور پروجیکٹ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سلیم صدیقی، ایڈیشنل کمشنر کراچی ون، محمد اسلم کھوسو، ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ روبینہ آصف، ڈائریکٹر میڈیا کمشنر کراچی، محمد شبیہ صدیقی، اسسٹنٹ کمشنر ریونیو، ذوالفقار عباسی اور اسسٹنٹ کمشنر جنرل شاہ زیب شیخ بھی موجود تھے۔
کے فور پروجیکٹ کےاُس وقت کے ڈائر یکٹر سلیم صدیقی نے اس موقعے پرتفصیلا ت سے آگاہ کرتے ہو ئے بتایاتھاکہ اس منصوبے کی ابتدا کینجھر جھیل سے جھمپیر ریلوے اسٹیشن کے قریب سے ہوگی اور اس کی راہ داری ضلع ٹھٹھہ کے دیہہ کوہستان سے ہوتی ہوئی کراچی ڈویژن میں گو ٹھ رن پٹھا نی کے مقام سے دیہہ دھا بیجی میں داخل ہوگی۔ اس کے بعد یہ دیہہ گھگر، دیہہ ڈھانڈو، دیہہ جھو ریجی، دیہہ کوٹریو، چوہڑ، دیہہ علیمانو، دیہہ کاٹھور، دیہہ لانکھجی، دیہہ کوٹکر، دیہہ ناراتھر، دیہہ شاہ مرید سے گزرتا ہوا دیہہ اللہ فئی پر اختتام پذیز ہو گا۔منصوبے کے تینوں مراحل اور کراچی کے مستقبل کے لیے آب رسانی کی لائنوں کے لیے ایک ہزار فیٹ چوڑی گزرگاہ رکھی گئی ہے۔
پھر غفلت کی نیند
زمین ملنے کے بعد متعلقہ حکام پھر غفلت کی نیند سو گئے اور مئی 2015 میں ایسی خبریں آنے لگیں کہ غفلت اور فنڈز میں کمی کے باعث منصوبہ سست روی کا شکار ہوگیا ہے۔ منصوبے کا پہلا مرحلہ وفاق اورصوبے کی غفلت کی بھینٹ چڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ منصوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ دس سال کی تاخیرکے بعد منصوبہ رواں مالی سال شروع ہوا ،لیکن صرف ڈیزائننگ کا کام جاری ہے جو37فی صدمکمل ہوا ہے اور فنڈز کی کمی کے باعث کسی قسم کا تعمیراتی کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں 20کروڑ روپے مختص کیے ہیں، لیکن صرف8کروڑ ادا کیے۔ سندھ حکومت نے منصوبے کے لیے 84کروڑ 90لاکھ مختص کیے ۔تاہم اب تک ایک پائی ادا نہیں کی ہے حالاں کہ مالی سال ختم ہونے میں صرف ڈیڑھ ماہ باقی ہیں۔
اُس وقت آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ اسمبلیز سے سینیٹ تک اس مسئلے کے حل کے لیے زور دیا جارہا ہے، تاہم ارباب اختیار کراچی میں پانی کا بحران ختم کر نےکے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر کو اس وقت چودہ، پندرہ سوملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ کی انتظامیہ کے دعوے کے مطا بق 550ملین گیلن پانی یومیہ دریائے سندھ سے شہر کو فراہم کیا جارہا ہے۔
تاہم واٹر بورڈ کے فراہمی آب کے ناقص نظام کے باعث شہر کو صرف 400ملین گیلن پانی کی سپلائی ہورہی ہے۔ سندھ حکومت نے کے فور کےپہلے مرحلے کے لیے دریائے سندھ سے 260 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کی منظوی دی ہے۔ باقی 390ملین گیلن پانی کا کوٹا ابھی منظور نہیں کیا گیا ہے۔ مئی 2015 میں وفاقی حکومت نے8کروڑ روپے دیے، لیکن سندھ حکومت نے بلاجواز رو ڑ ے اٹکاتے ہوئے واٹر بورڈ کو ایک ماہ تاخیر سے ادائیگی کی جس میں سے مشاورتی فرم کو 6 کروڑ اور 40لاکھ روپے سندھ بورڈ آف ریونیو کواراضی کی سروے فیس کی مد میں ادا کیے جانے تھے۔
پہلا معاہدہ
زمین کے حصول کے تقریبا ڈیڑھ برس بعد منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے کراچی واٹر بورڈ اور ایف ڈبلیو او کے درمیان معاہدہ14جون2016کوہوا۔اس معاہدے پر دست خط کرنے کے لیے باقاعدہ تقریب منعد کی گئی تھی۔اس موقعے پر وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کا کہنا تھا کہ منصوبہ ہر حال میں وقت پر مکمل کیا جائے گا۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر سلیم صدیقی کا کہنا تھا کہ منصوبے کے پہلے فیز کے تحت 260 ملین گیلن یومیہ پانی شہر کو پہنچایا جائے گا اور یہ منصوبہ جون 2018 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ تقریب میں اس وقت کے صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ،ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید اور حکومت سندھ کے دیگر حکام نے بھی شرکت کی تھی۔
کفر ٹُوٹا خدا خدا کرکے
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 14اگست 2016 کو ’’ کے فور‘‘ کے ترقیاتی کاموں کا افتتاح کیا۔ اس موقعے پرکاٹھور میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں پانی کے جھگڑے ختم ہوجائیں گے اور آنے والا موسم گرما کراچی میں پانی کے بحران کا آخری سیزن ہوگا۔کے فور منصوبہ کراچی کے شہریوں کے لئے نئی امنگ لائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں وزیر خزانہ تھا تو کے فور منصوبے کا معاہدہ ہوا تھا۔
اس منصوبہ کا معاہدہ اپریل کے مہینے میں ہوا، پہلا فیز دو سال سے کم عرصے میں مکمل ہوگا، صرف ایک گرمی کا موسم مزید عوام کو برداشت کرنا ہوگا۔ منصوبے کا 50 فیصد وفاق ادا کررہا ہے۔ منصوبے کی دوسال میں تکمیل ہمارا امتحان ہے۔ اس منصوبے کے لیے مکمل تعاون فراہم کریں گے۔ اگلے 14اگست کو منصوبے کے دوسرے مرحلے کا بھی افتتاح کریں گے۔
مگر مراد علی شاہ کا خواب پورا نہیں ہوسکا۔ جولائی 2017 میں ایسی اطلاعات آنے لگیں کہ ٹھیکہ لینے والی کمپنی کی منہگی بولی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے اور بروقت تکمیل مشکل نظر آرہی ہے۔ منصوبےکے لیے وفاقی حکومت اور حکومت سندھ کی جانب سے اب تک 4 ارب 62 کروڑ10 لاکھ رو پے جاری کیےجاچکے ہیں۔
منصوبے پر26فی صد کا م ہوا ہے ۔کے فور کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق منصو بے کے بی پیکیج کے لیے، جن میں260 ایم جی ڈی کے پمپ اسٹیشنز، فلٹرپلانٹس، رائزنگ مینز، کنڈیوٹ، سائفن وغیرہ شامل ہیں ،ٹھیکہ لینے والی کمپنی کی جانب سےاپریل 2017 میں 18 ارب 60 کروڑ روپے کی بولی دی جاچکی ہے۔ تاہم اب تک پیکیج بی کے معاہدے پر دست خط نہیں کیے گئے۔مذکورہ کمپنی سے قیمت کم کر نے کی درخواست کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جون2016 میں کے فور منصوبے کا افتتاح کرتے وقت اعلان کیا گیا تھا کہ منصوبے کی مجموعی لاگت 24 ارب 50 لاکھ روپے ہے جس میں پیکیج اے میں ان ٹیک اسٹرکچر، کینال، کنڈیوٹ، سائفن اور کل ورٹس شامل ہیں۔ اس کا ٹھیکہ15ارب 25 کروڑ40 لاکھ روپے میں دیا گیا تھا ۔ پیکیج بی کے لیے 9 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
اس وقت سوال اٹھا تھاکہ اگر18 ارب 60 کروڑ روپے میں پیکیج بی کے لیے معاہدہ ہوتا ہے تو منصوبے کی لاگت 25 ارب سے بڑھ کر 35 ارب تک پہنچ جائے گی۔ منصوبے کی کنسلٹنسی کے لیے ایک ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2017-2018 میں وفاقی حکومت نے 9 ارب اور حکومت سندھ نے6 ارب40 کروڑ روپے اس منصوبے کے لیے رکھے تھے۔ منصوبے کی راہ میں11ہزار9سو36ایکڑ سر کاری اراضی اور ایک ہزار 53 ایکٹر نجی زمین آر ہی ہے جس کے لیے حکومت سندھ نے 5 ارب روپے الگ سے مختص کیے تھے۔
منصوبہ بندی پر اعتراض
وقت گزرتا گیا تو منصوبے کی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ماہرین کے مطابق منصوبے کی منصوبہ بندی درست اور بروقت نہیں کی گئی اس لیے اب اضافی لاگت کے مسائل کا سامنا ہے۔بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن نظام کی تنصیب،کے فور فیز ون کو واٹر بورڈ کے ڈسٹری بیوشن کے نظام سے منسلک کرنے اور اضافی کاموں کے لیے چالیس تا پچاس ارب روپےمزید درکار ہوں گے۔
دس ،بارہ ارب روپے کراچی کے اندرونی علاقوں میں ڈسٹری بیوشن نظام کی تشکیل پر خر چ ہوں گے۔ اس منصوبے کے ضمن میں غفلت اور لاپروائی کا یہ عالم ہے کہ واٹر کمیشن نے کچھ عرصہ قبل اس کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹرکی کارکردگی پر سوالات اٹھادیےتھے۔ چناں چہ کمیشن کی ہدایت پر اس کےپروجیکٹ ڈائریکٹرسلیم صدیقی کا تبادلہ کردیا گیا تھا ۔
کراچی کو آخری مرتبہ کے تھری منصوبے سے مارچ2006 میں اضافی پانی فراہم کرنے کا بندو بست کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے شہر کو مزید پانی کی فراہمی کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ کراچی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظراضافی پانی کی فوری فراہمی بہت ضروری ہے۔