مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کوئی تیئیس (۲۳)سال پہلے لکھا تھا : ’’افسوس، ہمیں احساس نہیں ہے۔ ہمارے ہاں رنگوں کے قدیم اور خوب صورت نام تیزی سے متروک ہورہے ہیں۔ کل انھیں کون پہچانے گا‘‘۔ یہ بات آج پہلے سے زیادہ سچ اور پہلے سے زیادہ افسوس ناک معلوم ہوتی ہے۔
اردو زبان میں رنگوں کے ناموں کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ آئیے ان ناموں ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اردو کے ذخیرۂ الفاظ کی وسعت اورتنّوع کو دیکھیے ۔ کچھ رنگ تو معروف ہیں ، جیسے: لال( یا سرخ)،ہرا(یا سبز )، پیلا (یا زرد)، نیلا، اُودا وغیرہ۔ اقبال نے کہا:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
لیکن رنگوں کے کچھ نام اشیا سے بھی وابستہ ہیں ،مثلاً چمپا، پیاز، دھان، فالسہ، بینگن، زعفران،پستہ، زمرد، خاک وغیرہ۔ پنڈت دتاتریہ کیفی نے اپنی کتاب ’’کیفیہ‘‘ میں اردو میں رنگوں کے نام لکھے ہیں جو یہ ہیں :چمپئی، جامنی، گہیواں، گندمی، دھانی، شنگرفی، فالسائی، نارنجی، گلابی، لاجو ردی، زنگاری، قرمزی، عنابی، بینگنی، پیازی، کاکریزی، قہوی، زعفرانی، ارغوانی، نسواری، زمردیں ، پستئی،مٹیالا،خاکی۔
مشتاق احمدیوسفی نے اپنی کتاب ’’آب ِ گم ‘‘ میں رنگوں کے یہ نام لکھے ہیں : شنگرفی، ملاگیری، اگرئی، عنابی، کپاسی، کبودی، شتری، زمردی، پیازی، قرمزی، کاہی، کاکریزی، کاسنی، نقرئی، قناویزی، موتیا، نیلوفری، دھانی، شربتی، فالسئی، جامنی، نسواری، چمپئی، تربوزی، مٹیالا، گیروا، مونگیا، شہتوتی، ترنجی، انگوری، فاختئی، ارغوانی، پستئی، شفتالو، طائوسی، آبنوسی، عودی، عنبری، حنائی، بنفشی، کسمبری، طوسی اور صوفیانہ، سوقیانہ۔
ظاہر ہے کہ آخر کے دو لفظ رنگوں کے نام نہیں ہیں بلکہ رنگوں کی کیفیت یا تاثرکے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ صوفیانہ رنگوں سے مراد ہے ایسے رنگ جو شوخ یا بھڑکیلے نہ ہوں بلکہ ہلکے ہوں، خاص طور پر لباس اگر ہلکے رنگ کا ہو تو اس کے لیے صوفیانہ رنگ کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ سُوق عربی میں بازار کو کہتے ہیں اورسُوقیانہ کا مطلب ہے بازاری، عامیانہ۔ اگر رنگ کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہو تواس سے شوخ، چمکیلے اور بھڑکیلے رنگ مراد ہوتے ہیں، جو نفیس اور لطیف طبائع کو ناگوار ہوتے ہیں۔
ایک نام کاکریزی آیا ہے۔ لغت بورڈ کی لغت کے مطابق کاکریزی سیاہی مائل اُودا رنگ ہوتا ہے جسے کشمشی رنگ بھی کہتے ہیں۔ پلیٹس نے اپنی لغت میں اسے گہرا بنفشی رنگ کہا ہے۔ کسمبری اور طوسی رہ گئے۔توعرض ہے کہ کُسُم، جس کا ایک املا اور تلفظ کسمبھ بھی ہے، ایک پھول ہوتا ہے جس سے گہرا سرخ رنگ نکلتا ہے۔ گویا کسمبی یا کسمبھی یا کسمبر ی اس سے مراد گہرا سرخ رنگ ہے۔ علمی اردو لغت کے مطابق طوسی ایک رنگ کا نام ہے جو مازو، کسیس اور پھٹکری سے تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن علمی اردو لغت کی اس تشریح سے رنگ کا اندازہ نہیں ہوتا۔ بورڈ نے بھی طوسی کی کم و بیش یہی تشریح دی ہے لیکن وضاحت کردی ہے کہ یہ کرنجوی یا بینگنی رنگ ہوتا ہے ۔بورڈ کی لغت کے مطابق ایک کبوتر بھی طوسی رنگ کا ہوتا ہے ۔ کرنجی یا کرنجوی رنگ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
ان دو فہرستوں میں کچھ نام شامل ہونے سے رہ گئے ہیں ، مثلاً: سفید، کالا،کتھئی ،بھورا، آسمانی، آبی ،سُرمئی(جس کو بعض لوگ سلیٹی بھی کہتے ہیں)۔ ایک رنگ’’ نِیل‘‘ ہے جو نیلے رنگ سے ذرا الگ ہوتا ہے اور اسے انگریزی میں indigo کہتے ہیں۔ پھر’’ سنہرا ‘‘یا ’’سنہر ی‘‘ یعنی گولڈن بھی ان دونوں فہرستوں میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ اردو میں طِلا کے معنی ہیں سونا اور سونے جیسے رنگ یا گولڈن رنگ کو طِلائی رنگ بھی کہتے ہیں ۔ البتہ عربی لغات میں طلا کے معنی سونے کے نہیں ہیں ۔ اسٹین گاس نے اپنی فارسی بہ انگریزی لغت میں طِلا کے معنی سرخ سونا لکھے ہیں ۔اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق طِلا کے معنی فارسی میں ہیں، سرخ سونا اور عربی میں ایسی دوا یا تیل کو طِلا کہتے ہیں جس سے مالش کی جائے۔ اردو والوں نے فارسی سے طِلا کو سونے کے معنی میں لے لیا ہے۔
رُوپہلا یاسِلوَر (silver) کا بھی اس فہرست میں اضافہ ہونا چاہیے ۔ یہ نُقرئی بھی کہلاتا ہے کیونکہ نُقرہ(نون پر پیش) کا مطلب ہے چاندی۔ رُوپہلا کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ رُوپا چاندی کو کہتے ہیں۔ گویا نقرئی رنگ یا روپہلا یعنی چاندی جیسا رنگ۔
ایک نام ’’کالابُھورا‘‘ بھی ہے جو گہرے کتھئی رنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک کہرُبائی (رے پر پیش) رنگ بھی ہوتا ہے۔ یہ پیلے رنگ اور نارنجی رنگ کا درمیانی رنگ ہوتا ہے ۔یا یوں کہہ لیجیے کہ ان دونوں کے ملنے سے بنتا ہے البتہ یہ پیلے رنگ کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ۔ کہربائی رنگ کو انگریزی میں amber کہتے ہیں ۔اسی رنگ کا نام عربی میں عنبر ی ہے۔ اسی طرح گلناری رنگ، مہندی رنگ ، شربتی رنگ، کیسری(کیسر یعنی زعفران) ،بسنتی رنگ بھی بعض رنگوں کی شدت یا دھیمے پن کو ظاہر کرنے کے لیے بولے جا تے ہیں۔ بعض رنگوں کو ملا کر بھی بتانا پڑتا ہے جیسے سُرخی لیے پیلا، سبزی مائل زرد، وغیرہ۔ (جاری ہے)
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی