• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ڈاکٹر نعمان بشیر ۔۔ نیوکاسل
واٹس ایپ گروپ میں یکدم سراسیمگی کی کیفیت پھیل گئی۔ ایک دوست نے پیغام بھیجا کہ امریکہ کے شہر ڈیلاس میں کسی نفسیاتی مریض نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 9 معصوم لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سب ایک دوسرے کے اہل و عیال کی خیریت دریافت کر رہے تھے جس شاپنگ مال میں یہ واقعہ پیش آیا اس سے تقریبا سبھی واقف تھے اور کچھ تو وہاں جا بھی چکے تھے اگرچہ راقم کا بہت سے دوستوں سے مسلسل ذاتی نوعیت کا رابطہ تو ہمیشہ سے تھا مگر اسے میڈیکل کالج کے کلاس فیلوز کے اس گروپ کو جوائن کئے ابھی چندہی روز ہوئے تھے۔ اس گروپ میں متعدد لوگ امریکہ میں رہائش پذیر تھے اور سالہا سال سے طبی خدمات سر انجام دے رہے تھے، یہ فکر مندی تو قابل فہم تھی مگر پھر گروپ میں اپنی حفاظت کی غرض سے ہتھیاروں سے متعلق معلومات کا تبادلہ شروع ہو گیا جو اس کیلئے کافی حیران کن تھا کیونکہ سبھی کا تعلق طب کے شعبے سے تھا۔ڈاکٹر اور پستول کاناتا اس کی عقل سے ماورا تھا مگر اس ملک یعنی امریکہ کی یہ ایک ایسی حقیقت تھی جسے نظر انداز کرنا ان لوگوں کیلئے ممکن نہ تھا،راقم کو امریکہ میں اس طرح کی فائرنگ کے واقعات کا علم تو تھا مگر اس مسئلے کی اصل سنگینی کا اندازہ اس بحث و تمحیص سے اب ہو رہا تھا، حفاظت کیلئے کون سا پستول موزوں ہے کون سا ہتھیار بآسانی جیب میں رکھا جا سکتا ہے گھر میں اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے وغیرہ وغیرہ، ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنے تجربات اور ماہرانہ رائے کا اظہار کر رہا تھا ،اس کے ساتھ ساتھ کچھ حساس دوست اس صورت حال میں اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت سے متعلق فکر مندی اور حسب معمول سیاستدانوں کی اس مسئلے کے حل کی بابت سست روی ،لاتعلقی اور اپنی بے بسی کا اظہار بھی کر رہے تھے، اسے وہ دن یاد آنے لگا جب اسے سعودی عرب کے ایک مشہور یونیورسٹی ہسپتال سے جاب کی آفر موصول ہوئی، اسے یقین تھا کہ وہاں پہنچ کر اس کے لئے برطانیہ کے رائل کالج کی ڈگری کا حصول ممکن ہو جائے گا، سب سے پہلے تو ماں ہی بولی کہ بیٹا ضرورجا، اس ملک میں رہ کر تو اپنا گھر بھی نا بنا سکے گا، والدین کیلئے اپنے بچوں سے دوری ایک تکلیف دہ امر ہے مگر اپنی اولاد کی بہتری کیلئے وہ اس جدائی کو بھی ہنسی خوشی قبول کر لیتے ہیں،سعودی عرب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں پاکستان سے کئی گنا بہتر ہیں بلکہ ان کا مقابلہ یورپ اور امریکہ سے کیا جائے تو غلط نہ ہو گا،ایک تو نظام زبردست دوسرےروپےپیسے کی فراوانی کے سبب جدید ترین مشینری اور پوری دنیا سے انتہائی ٹرینڈ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سٹاف، چند ہی ماہ میں ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ برسہا برس سے وہاں مقیم بہت سے پاکستانیوں سے اچھی علیک سلیک ہو گئی، اس طرح ان کی محفلوں میں بیٹھنے کا موقع بھی ملا، ہم لوگ اپنے ملک میں چاہے جتنا بھی ایک دوسرے کا کا بازو بنتے ہیں سعودی عرب میں تو یہ روایت بہت ہی مضبوط ہے، کچھ عرصہ کے بعد اسے اندازہ ہواکہ سعودیہ میں رہنے والے زیادہ تر لوگ اگرچہ وہاں کے اسلامی ماحول سے خوشی اور طمانیت محسوس کرتے ہیں مگر بہت سی باتوں سے نالاں بھی ہیں، سب سے بڑی شکایت یہ کہ چاہے آپ اس ملک میں ایک سال رہیں یا ایک صدی آپ ہمیشہ اجنبی ہی رہیں گے، مسلمان ہونے کے باوجود نہ تو آپ کو شہریت ملے گی اور نہ ہی کبھی کوئی آپ کو اپنے برابر سمجھے گا،پروفیشنل تعلیم کے سلسلہ میں بھی بیرون ملک سے آئے بچوں کیلئے سعودی یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہیں، ان کی باتوں سےاس نے اندازہ لگایا کہ یہاں رہنےوالے پاکستانی ان لوگوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کچھ ہی سال سعودی عرب میں رہنے کے بعد یورپین ممالک کی طرف ہجرت کر گئے، عرب ملکوں میں زیادہ عرصہ گزارنے والے اگر بالآخر پاکستان واپس آ بھی جائیں تو اپنے آپ اور اپنے بچوں کو یہاں کےماحول کے مطابق ڈھالنے میں انھیں خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی پس منظر میں زیادہ تر لوگ معاشی خوشحالی کےسبب اپنے بچوں کو یورپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیج دیتے ہیں جو بعد ازاں وہیں رہائش اختیار کر لیتے ہیں، غیر مسلم ہونےکے باوجود یورپی ان لوگوں کو معاشرے کا حصہ بنانے اور اپنانے کی کم از کم کوشش ضرور کرتے ہیں، برطانیہ پہنچنے پر معلوم ہوا معاشرے کی روش کو دیکھتے ہوئے یہاں لوگوں کو ہر وقت اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کی فکرلاحق رہتی ہے کیونکہ برطانوی معاشرہ شخصی آزادی کا عَلَم بردار ہے، یہاں ماں باپ بھی اگر بچے کو سختی سے کسی غلطی پرسرزنش کریں تو اسے بچانےکیلئے حکومت فوری طور پر آڑے آ جاتی ہے، یہاں رہنے والے ڈاکٹر یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر وہ امریکہ کا رخ کرتے تو برطانیہ کے مقابلے میں کئی گنا کمائی کر رہے ہوتے جب کہ برطانیہ میں ٹیکس زیادہ اور آمدنی کم تاہم صورت حال سامنے ہے پاکستانی کم از کم سعودیہ یا عرب امارات جانا چاہتے ہیں۔وہاں والے یورپ اور یورپ والے امریکہ جب کہ امریکہ والے وہاں رہ کر کچھ اور ہی طرح کے مسائل کا شکار ہیں، اللہ رب العزت نےانسان کو یہ صفت عطا کی ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں لگا رہتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کی یہ تلاش اورخواہش اچھے اعمال کی بنیاد پر اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت سےجنت میں پہنچ کر ہی ختم ہو گی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے موجودہ حالات اور ماحول کو بہتر نہ کرے اس کی یہ کوشش ہر لحظہ جاری و ساری رہنی چاہئے، اس کی یہی سعی اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت بھی ہے. یہاں یہ بات بھی موزوں لگتی ہے کہ ہر شخص کیلئے اس کا وطن اس دنیا کی حد تک اس کیلئے جنت کی سی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اپنے وطن کی بہتری اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے، ان الذين امنو وعملو الصلحت کانت لھم جنت الفردوس نزلا ، خلدین فيھا لا یبغون عنھا حولا(سورہ کہف18آیت 107/108) یقینا” جو لوگ ایمان لائے اور کئے انھوں نے نیک اعمال تو ہوں گے ان کے لئے باغ بہشت بطور مہمانی۔ ہمیشہ رہیں گے ان میں اور نہ چاہیں گے وہاں سے جگہ بدلنا۔
یورپ سے سے مزید