• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرعبدالولی احمد کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت

تحریر:وقار ملک۔۔۔۔۔کوونٹری
ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں مریض کیلئے ایک امید ہوتے ہیں جو انھیں زندگی دلوانے کے لیے کوششیں کرتے ہیں ایک مسیحا دکھی انسانیت غریبوں لاچار اور بے کس افراد کے خدمت کرنے والا انسان کہلاتا ہے، ایسا انسان اور ڈاکٹر جس کے چند پیار بھرے بول ہی بیماری کو کم کر دیتے ہیں۔ معالج حکیم ہو یا ڈاکٹر اس کی تسلی تشفی ہی آدھی مرض ختم کر دیتی ہے۔ مریضوں کو نئے سرے سے جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ڈاکٹر اپنے پیشے سے مخلص اور انسان دوست اور خدمت کا جذبہ ہو تو شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہوتا ہے۔ مستحق انسانیت عوام کی خدمت کرنا اس سے بڑی کوئی عبادت نہیں آج کل کے حالات میں غریب کی قوت خرید دوا جواب دے چکا ہے۔ ایسے بھی درد دل اور احساس رکھنے والے ڈاکٹر موجود ہیں اور دوسروں کے لیے جینا جانتے ہیں۔ جن کا ماٹو ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔ جو ہمہ وقت دکھی لوگوں کی خدمت کیلئے مصروف عمل رہتے ہیں۔ وہ صرف لوگوں کا علاج ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے دکھ بھی بانٹتے ہیں۔ وہ اپنے مریضوں کا علاج صرف ایک ڈاکٹر حکیم کے طور پر نہیں بلکہ ایک مسیحا بن کر خدمت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر مشکلات بھی ڈالتا ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ بھی بتاتا ہے ڈاکٹر ولی احمد ہی ایسے ڈاکٹروں میں شامل ہیں جنھوں نے برطانیہ اور یورپ میں رہ کر انسانیت کی خدمت کی انسانیت کے مسیحا بنے مریضوں کو پاؤ پر کھڑا کرتے ،انھیں ہاتھوں سے چلاتے انھیں زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھاتے ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے بلکہ انھیں دوست بناتے ہیں۔ راقم ایسے مریضوں کو مل چکے ہیں جو زندگی سے مایوس ہو کر خوشحال زندگی کی طرف پلٹ چکے ہیں اور کبھی ایلو پیتھک ( انگلش دوائی ) کو ہاتھ نہیں لگایا ڈاکٹر عبدالولی احمد خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے دونوں طبی نظاموں ، ایلوپیتھک، نیچروپیتھک اور انٹیگریٹیو میڈیسن کا تفصیل سے مطالعہ کیا جو قدرتی ادویات، ہومیوپیتھی اور غذائی ادویات پر مشتمل ہیں۔ اسے دواسازی کی دوائیوں اور زندہ خلیوں پر ان کے اثرات اور غذائی ادویات اور زندہ خلیوں پر ان کے اثرات کا وسیع علم ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد سے ویٹرنری میڈیسن کی ڈگری حاصل کی، 1991میں انہوں نے DVM کی ڈگری (ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن) مکمل کی۔ اس نے چند سال پاکستان میں ایک سرکاری ادارے میں ویٹرنری ڈاکٹر کے طور پر کام کیا پھر دبئی، متحدہ عرب امارات چلے گئے۔ دبئی میں اس کے خاندان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی۔ ایک دن انہیں پاکستان میں اپنے گھر والوں کا فون آیا جس میں بتایا گیا کہ ان کے والد ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں ہیں اور ڈاکٹر انہیں بتا رہے ہیں کہ ان کے والد کے پاس صرف تھوڑا وقت بچا ہے۔ یہ خبر سن کر وہ مکمل طور پر چونک گیا کیونکہ 2دن پہلے اس کی اپنے والد سے طویل گفتگو ہوئی تھی اور وہ بالکل ٹھیک تھے۔ اس کے والد نے اسے کہا تھا کہ وہ اپنی انسولین کی خوراک میں اضافہ کریں کیونکہ ان کے ڈاکٹر نے انہیں بتایا ہے کہ ان کی شوگر ٹھیک نہیں ہے جب وہ پاکستان واپس آئے تو یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گے کہ اس کے والد کے جسم پر تھرڈ ڈگری جلی ہوئی ہے۔ اس کا سارا جسم چھالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہیں ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے والد کو اسٹیون جانسن سنڈروم ہے، جب انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ کیا بیماری ہے تو ڈاکٹر نے اسے صرف یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ان کے پاس اس معاملے کی وضاحت کے لیے وقت نہیں ہے 5دن تک انھوں نے اپنے والد کو ہر روز اپنے ہاتھوں سے پھسلتے دیکھا۔ انھیں جو علاج دیا گیا تھا وہ تھا ہائیڈرو کورٹیسون کریم جو ان کی جلد پر لگائی گئی تھی۔ لیکن زیادہ سٹیرائیڈ کے استعمال کے مضر اثرات کی وجہ سے اس کے بلڈ شوگر میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر ڈاکٹر ان کی بلڈ شوگر کو نیچے لانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی جلد پر دوبارہ چھالے پڑنے لگتے ہیں اور بالآخر انھوں نے اپنے والد کو کھو دیا۔ ڈاکٹر ولی دل شکستہ اور غمگین پریشان ہو کر دبئی واپس چلے گئے اور چیک کیا کہ ان کے والد نے اس دن کیا لیا جب انھیں اسٹیون جانسن سنڈروم کا حملہ ہوا۔ڈاکٹر ولی نے اسٹیون جانسن سنڈروم کی تحقیقات اور پڑھنا شروع کیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ اسٹیون جانسن سنڈروم آئیبوپروفین کی گولیاں یا زیادہ عام طور پر بروفن گولیوں کے نام سے جانے والی دوائیوں کا ردعمل ہے جو ان کے والد نے گھٹنے کے درد کی وجہ سے اس دن کھائی تھی۔ اس انکشاف نے ان کی سوچ کو 180 درجے کا رخ دے دیا۔ یہ اس کے برعکس تھا جو انھیں طب کی تعلیم کے دوران بتایا گیا تھا۔ 2005سے ڈاکٹر ولی نے قدرتی صحت اور جسم کو ٹھیک کرنے کے قدرتی طریقوں کے میدان میں گہری دلچسپی پیدا کی۔ انھوں نے انسانی جسم پر مائیکرو نیوٹرینٹس کے اثرات میں دلچسپی لیتے ہوئے وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا۔ وہ ڈاکٹر جو خود ذیابیطس کے ابتدائی مراحل پر تھا، مائکرو نیوٹرینٹس کا استعمال کرکے اور خوراک اور طرز زندگی میں کچھ تبدیلیاں کرکے کامیابی سے اس کو ختم کرنے میں کامیاب رہا۔ وہ صرف قدرتی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے مثانے کی پتھری کو نکالنے میں کامیاب رہا۔ 2007میں ان کا رابطہ مشی گن میں انسانی صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر جیک گروگن سے ہوا اور آہستہ آہستہ ڈاکٹر گروگن کی رہنمائی میں ڈاکٹر ولی نے اپنے علم کو انسانی صحت تک پھیلانا شروع کیا۔ 2009میں، وہ قدرتی انسانی صحت کے بارے میں اپنے مطالعہ کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ چلے گئے اور 2011میں انھوں نے کیئر اینڈ کیور نیوٹراسیوٹیکل لمیٹڈ کا آغاز کیا اور انسانی صحت کے مختلف حالات کو سپورٹ کرنے کیلئے سپلیمنٹس تیار کرنا شروع کیا۔ انسانی جسم پر مائیکرو نیوٹرینٹس کے اثرات اس کے لئے حیران کن حد تک خوشگوار تھے اور انھوں نے مائیکرو نیوٹرینٹس کے درست استعمال سے لوگوں کی صحت میں تبدیلی دیکھی ہے۔ 2014میں، انھوں نے نیچرل میڈیسن میں ڈگری حاصل کرنے کیلئے ہوائی USA کی IQUIM یونیورسٹی میں داخلہ لیا2016میں انھوں نے نیچرل میڈیسن میں اپنا I-MD مکمل کیا اور اسی سال اس نے نیچرل میڈیسن کے شعبے میں ڈاکٹریٹ اور پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اپنے پی ایچ ڈی میں ان کی تحقیق کا موضوع تھا "Micronutrients کی تکمیل کے ساتھ Type2 Diabetes کا انتظام، تناؤ میں کمی اور جگر کا detox اور خوراک اور طرز زندگی میں تبدیلیاں‘‘۔ اپنے تحقیقی کام میں جو کہ برطانیہ کے تین باشندوں پر کیا گیا تھا، وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ٹائپ 2 ذیابیطس مذکورہ بالا قدرتی مداخلتوں کے ساتھ مکمل طور پر تبدیل نہیں ہو سکتی۔ کچھ لوگوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتیں پیدا کی ہیں کہ وہ اپنے ارد گرد خیر و بھلائی بانٹنے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح کچھ پیشے ایسے ہیں جو انسانیت کو بہت زیادہ تسکین اور فائدہ دینے والے ہیں۔ حکمت ڈاکٹری کا پیشہ بھی ان پیشوں میں سے ایک ہے جس کی معاشرے میں بہت اہمیت اور عزت ہے۔ جب ہم یا ہمارا کوئی پیارا بیمار پڑتا ہے تو حکیم ڈاکٹر ایک ایسے مسیحا کے روپ میں نظر آتا ہے جو بیمار سے تمام درد‘ دکھ اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو اس بیمار کے دل میں اس مسیحا کی عزت ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پیشے کو معاشرے میں عزت اور اہمیت حاصل رہی ہے۔ ڈاکٹر اور انسانیت کا ہمیشہ آپس میں بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن میں جب کسی بچے سے پوچھا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر کیا بنے گا تو اکثر بچوں کا جواب ہوتا ہے کہ میں "بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا۔ ڈاکٹر ولی جیسے مسیحا مریضوں کا باعزت مفت طریقے سے مفت علاج کرتے ہیں اور کچھ کے ساتھ یہ سلسلہ کہیں ماہ سے چل رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر ولی نے عوام جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے طریقے سکھائے انھیں کرونا وائرس سے بچایا اپنی اسپیشل دوائیوں کی تیاری کے لیے پھولوں کے پلانٹس لگائے، اسپین میں فارم ہاؤس بنایا جہاں اسپسشل پھولوں سے بنی دوائیاں لوگوں کو دیں تو گورے بھی صحت یاب ہونے شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مریضوں کی لائنیں لگ گئیں جسے اسپین کی گورنمنٹ برداشت نہ کر سکی کیونکہ ایلو پیتھی دوائی کی بندش اور کرونا وائرس کے حوالے سے ڈاکٹر ولی حقائق منظر عام پر لانے کی جرآت کر رہے تھے جس کی پاداشت میں ڈاکٹر ولی جو پاکستان کا ایک سپاہی تھا جس نے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر دیا جس نے اپنی تعلیم اور دماغ کے استعمال سے ایسی پھولوں پر مبنی دوائیاں بنانی شروع کر دیں جس سے بستر مرگ پر لیٹا مریض چلنے لگتا جس نے انسانیت کی خدمت کا عزم کیا اسے اسپین میں گرفتار کر کے فارم ہاؤس بند کر دیا گیا اور کسی کا کانوں کان خبر نہ ہوئی اور انسانیت کے مسیحا کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔پاکستانی سفارت خانہ اسپین اور کمیونٹی خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی، ڈاکٹر عبدالولی احمد کو انتہائی تفتیشی ادوار سے گزارا گیا ،ذہنی تکلیف پہنچائی گئی اور بالآخر انھیں اسپین چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر ولی اب بھی باعزم ہے اور اسی دیانت داری سے انسانیت کی خدمت میں قدم بڑھا رہا ہے ۔ڈاکٹر ولی کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریض کے لیے انسولین انسانیت کی دشمن ہے اسی طرح ان کا کنہا ہے کہ کرونا وائرس بنایا گیا ہے جو ایک ڈرامے سے کم نہیں۔ڈاکٹر عبدالولی احمد کرونا وائرس کا توڑ جیسی دیگر موضی اور بڑی بڑی بیماریوں کا علاج کا طریقہ متعارف بھی کروا چکے ہیں اور مریض کو صحت مند زندگی کی طرف موڑ بھی چکے پیں لیکن افسوس انسانیت کے دشمن اب بھی اس مسیحا کا پیچھا کر رہے ہیں، حکیموں ڈاکٹروں کو اللہ نے جو عزت دی ہے وہ شاید صرف ان غریب لوگوں کی دعائیں ہیں جس سے دنیا والےبے بہرہ ہیں بس اللہ جانتا ہے۔ لوگ اچھا کہیں یا برا بس اپنے ضمیر اور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دنیا اور اس کے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں مقیم ور پسے ہوئے لوگوں کو ڈاکٹر ولی جیسے حقیقی مسیحا ڈاکٹرز کی ضرورت ہے ۔ اڈاکٹر روتھ فاو ایک ایسی مسیحا ، جس نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں ، جذام، کوڑھ کے مرض کو روکنے اور ختم کرنے میں گزار دی ، ایسے لوگ ہمارے معاشرے اور دنیا کا حسن ہیں۔ جرمنی کی آسائشوں بھری زندگی چھوڑ کر پاکستان آنا آسان نہیں تھا، مگر زندگی کے پچاس سال اس ملک کے عوام کو دینا انکا ہم پر ایک احسان ہے .ہمیں اور ہماری حکومت کو چائیے کہ وہ ڈاکٹر عبدالولی احمد کا دفاع کرے ان کا ساتھ دے ان کی حوصلہ افزائی کرے کیونکہ ڈاکٹر ولی نے انسانیت کی تعمیر انسانیت کو بچایا دفاع کیا، انسانیت سے پیار کیا اور صحت کے لیے جو طریقہ علاج متعارف کروایا وہ بالکل مختلف ہے، اس مقصد اور ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ڈاکٹر ولی احمد کو وزارت صحت کا مشیر بنا دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا بلکہ ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے انسانیت کو سکون ملے گا۔
یورپ سے سے مزید