• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کے فیصلے کے بعد بندگانِ شکم میں سے کون ہے جو کوئی اپنا بھی فیصلہ دے سکے...؟ مالکِ ارض و سما کا فیصلہ بہت واضح ہے ’’کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ کیا روشنی اور اندھیرا ایک جیسے ہیں؟ علم والوں کی فضیلت اپنی جگہ لیکن وہ جو ہم سب کو علم کا عین اُس طرح سے سکھاتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بزرگ فرشتے کے ذریعے دنیا کے سب سے بڑے انسان اور آخری رسول حضرت محمدﷺ کو’’ اقراء‘‘سکھایا تھا۔ کیا ایسی عظیم ہستیاں بے کار لکڑی ہیں...؟
جمہوریہ پاکستان میں غریب کے بچوں کی تعلیم کبھی بھی ریاست کے منیجروں کی ترجیح نہیں رہی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ وہ یہ کہ سرکاری خرچ پر پلنے والے بے مہار سانڈ اپنی نسل کو سرکاری وسائل سے امریکہ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی یا دبئی اور ملائیشیا کے فائیو اسٹار اسکولوں کے سیون اسٹار ہوسٹلوں میں ڈال کر پڑھاتے ہیں۔ کچھ اس سے بھی اگلے ہیں۔ یہ علم دوست اور منصوبہ ساز حکومتی نمک پر اپنے سرکاری دورے کا منصوبہ اس طرح گھڑتے ہیں کہ دورہ اُن کے گھر سے شروع ہو کر سیدھا اُس کالج کے محلے میں ختم ہوتا ہے جہاں اُن کی دولت کے دریا کا وارث علم حاصل کرتا ہے۔ اس قدر کار آمد لوگوں کے لئے بھائی پھیرُو کےاسکول کا بے چارہ ماسٹر صاحب بے کار لکڑی (Dead Wood) نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا استاد جو درِ اقتدار کے دربانوں سے بھی کم تنخواہ لیتا ہے۔ جس کے لئے نہ طبی سہولت ہے نہ ہی ٹرانسپورٹ۔ جسے نیند کے دوران بھی ٹی اے اور ڈی اے کے خواب دیکھنا عشقِ ممنوع جیسا ہے۔ جس کی پنشن سے کسی قبرستان میں ایک عدد قبر بھی نہیں خریدی جا سکتی۔ جس کے مقابلے میں انصاف کے مندر کا بڑا پروہت سیندور مَلے بغیر چند سالہ نوکری کے بدلے میں صرف پندرہ لاکھ روپے پنشن۔ ریٹائرمنٹ کے وقت گاڑی اور تاحیات کئی ملازم۔ وی وی آئی پی پروٹوکول اور ہوشربا بلکہ دلربا سہولتیں لے کر جاتا ہے۔ذرا خود سوچئے...! جو استاد ساری عمر بغیر سرکاری کوارٹر کے گزار دے اور نہ پاکستان کو گالی دے نہ ہی بانیِ پاکستان کی جگہ آل انڈیا کانگریس کے شو بوائے کو اپنا نجات دہندہ قرار دے۔ نہ ہی استادوں کی ٹیچر یونین کے مرکزی صدر اللہ بخش قیصر بھارت کے لئے دریائے چناب پر ایسا پُل تعمیر کر سکتے ہوں جس کے راستے انگور کی خالہ کے ساتھ ساتھ چونڈہ والے ٹینکوں کا راستہ بھی کھل جائے۔ جن کی تنظیمِ کے سیکریٹری چوہدری تاج حیدر مختلف پارٹنروں اور بے نامی اداروں کے ساتھ مل کر پانچ عدد یونیورسٹیاں اپنے اور اہلِ خانہ کے نام کرانے کی پلاننگ تک نہ کر سکیں۔ جو استاد بسوں، تانگوں یا سوزوکی کھٹارے پر چڑھ کر میلوں لمبے دھکے کھاتے اسکول پہنچیں۔ اُن کو اتنا بھی معلوم نہ ہو کہ کس طرح قومی خزانے سے ذاتی کاموں کے لئے سات سمندر پار کے ہوائی ٹکٹ بنوائے جاتے ہیں۔ کرسی کے بجائے سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھیں اور کمرے کے بجائے تُوت کے درخت کے نیچے اپنے شاگردوں کی کلاس لگائیں۔ کولر کے بجائے مٹکے کا مٹی سے بھرپور پانی پی کر بھی ہر سال لاکھوں بچوں کو اقراء سکھا دیں وہ نظامِ سرمایہ داری کے نمک خوار کے نزدیک بے کار لکڑی نہیں تو اور کیا ہیں...؟
سرمایہ داروں، سرمایہ کاروں، سرمایہ خواروں اور سرمایہ ماروں کے نظامِ جمہوریت کی اصل روح عام آدمی کی پھٹی ہوئی جیب میں رہتی ہے۔ یہ جیب اس قدر چیتھڑا بن چکی ہے کہ اب اس میں سے غریب اور غربت کی دھجیوں کے علاوہ کچھ نہیں نکالا جا سکتا۔ اس کے باوجود سلام ٹیچر کے بجائے سلام سرمایہ داری کا نعرہ لگانے والوں نے گیس کی قیمت میں 124 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ گیس ہے کہاں...؟ غریبوں کی بستیوں میں چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔ یقین نہ آئے تو گیس ہیٹر فروخت کرنے والے کسی دکاندار سے مِل لیں، جو آج کل آیا آیا گیس آیا اور آیا آیا گاہک آیا کے نعروں سے دل بہلا رہا ہے کیونکہ جن کے بھاگ سو جائیں وہ جب تک خود نہیں جاگیں گے نہ گیس آئے گی نہ گاہک نہ ہی کوئی اور اُن کے بھاگ جگانے کی تکلیف کرے گا۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے لفظ شرمناک پر سارے ملک میں بھرپور بحث ہوئی۔ پھر نظریہ ضرورت کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ڈگری جاری ہوئی کہ شرم اور نہ کہے کیا...؟ اسلام آباد کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے چائنا سینٹر میں محترم استادوں کے احترام میں جو تقریب منعقد کی اس کا اختتام شیم شیم کے نعروں پر ہوا۔ ایسا کیوں ہوا اسے جانے دیں۔ اصل بات وہ ہے جو میرے اور شہباز شریف صاحب کے پسندیدہ عوامی شاعر حبیب جالب نے محترمہ فاطمہ جناح کی جدوجہد کے حوالے سے خاص ذہنیت رکھنے والے کالے انگریزوں کے لئے یوں کہی۔
اس مُلک کو تم اپنے، صاحب کی عطا کردہجاگیر تو مت جا.......
میں محترم مگر غضب ناک اساتذہ کو یقین دلاتا ہوں کہ اُن کے ساتھ شرمناک سلوک کرنے کا شاید کوئی نوٹس تک نہیں لے گا۔ کون نہیں جانتا جو بڑے بڑے لوگ اور بڑے بڑے ادارے نوٹس لیتے ہیں اُن کا مقصد بڑی خبر بنانا اور اُسے مفت چھپوانا یا چلوانا ہوتا ہے۔ آپ نے سنا نہیں کراچی سمیت ٹارگٹ کلنگ کی ہر واردات کے بعد خبر آتی ہے فلاں فلاں نے قتل کی وارداتوں کا نوٹس لے لیا۔ ایسے ہر نوٹس کے بعد شہریوں کے قاتل شہریوں کے درمیان گھل مل جاتے ہیں۔ نہ کوئی ایف آئی آر، نہ کوئی تفتیش نہ ہی کوئی گرفتاری، نہ ہی ٹرائل کا کٹہرا لگتا ہے۔ یادش بخیر... جب چینی کی قیمت 22 روپے کلو ہوا کرتی تھی تب نوٹس لیا گیا پھر نوٹس غائب ہو گیا مگر جاتے وقت چینی کو بھی لے گیا۔ جو چینی بچ گئی وہ 122روپے فی کلو کے حساب سے تبرک کے طور پر بکتی رہی۔ ڈالر کی قیمت 110روپے سے بھی اوپر گئی۔ اعلان ہوا نوٹس لے لیا ہے مگر ڈالر بھی امریکیوں کی طرح ریمنڈ ڈیوس نکلا۔ جس کے خدمت گزار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔پارلیمنٹ ہاوس آ جائیں جہاں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔
یہ کہنا بجا ہے ، اگر آگے بڑھنا ہے تو پھر پڑھنا ہے لیکن اگر آگے بڑھنا ہے تو پھر سرمایہ داری، جاگیر داری اور چور بازاری کی علامتوں اور تینوں کے گماشتوں سے لڑنا بھی ہے۔ مُلک میں بندہ اور آقا کی تقسیم کے نظام کے خلاف لڑنا ہے۔ دولت اور غربت کے جزیروں کے درمیان اُونچی دیواروں کو دیوارِ برلن کی طرح پامال کرنا ہے۔
جب بھی کوئی انتہا پسندی کا ذکر کرتا ہے تو مجھے جنگلوں اور پہاڑوں سے پہلے میٹرو پولیٹن شہر اور اقتدار کے ایوان یاد آتے ہیں۔ آپ کسی صاحبِ اقتدار دوست سے اختلاف کر کے دیکھ لیں یا کسی بظاہر پڑھے لکھے، موٹی عینک والے دانشور سے بحث کر لیں۔ جنگل اور پہاڑ والے بہت دیر بعد انتہا تک پہنچتے ہیں۔ شہر اور اختیار والوں کی شرم اور ناک تلوار کی دھار سے بھی زیادہ کاٹ دار ہے۔ غریب شہر کا شاعر غلط نہیں کہتا
عجیب سوکھی ہوئی لکڑیاں ہیں یہ دل دار
جو دور ہوں تو دھواں دیں، ملیں تو جل جائیں
تازہ ترین