اس میں کوئی شک نہیں کہ باپ سے محبت کا جذبہ بھی اتنا ہی مضبوط و طاقتور ہوتا ہے جتنا ماں سے کہنے والے نے بھی کیا خوب کہا ہے :’’عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے۔ یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے‘‘۔اپنے بچّوں کے لیے ان کی محبت کی شدت ،چاہت اور احساس کی گہرائی کا کوئی ثانی نہیں۔ بچوں کے خاطر اپنی خواہشات کی قربانی دینے والی ،ان کی مرضی میں راضی ہونے والی ،ان کی ہاں میں ہاں ملانے والی ،ان کی پسند کو ترجیح دینے والی ہستی کانام ہے ’’باپ ‘‘۔ شاید ہی کسی زبان میں کوئی ایسا لفظ ہو جو باپ کی محبت کو بیان کرسکے۔
بچوں کو بہترین مستقبل دینے کے لیے تپتی دھوپ میں جلتا اور زمانے بھر کی خاک چھانتا رہتا ہے ،مگر نہ کبھی چہرے پر تھکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی ماتھے پر شکن۔ یہ ایک باپ ہی تو ہوتا ہے جو اپنی صحت اور جان کی پروا کیے بغیر اپنے بچّوں کی بہترین تعلیم وتربیت کے لیے دن ،رات تگ ودو کرتا ہے۔ اس کی شخصیت ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتی ہے ،جس کا ایک ایک لفظ زندگی کے ہر موڑ پر بچّو ں کی رہنمائی کررہاہوتا ہے ۔ وہ خود کتنی ہی مشکلات یا پریشانی کا سامنا کررہا ہو لیکن بچوں کو ہمیشہ خوش وخرم دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ باپ کا تعاون اور اعتماد ہی ہوتا ہے جو اولاد کو اعلٰی مقام حاصل کرنے میں بطور ایندھن کام آتا ہے۔ باپ وہ زینہ ہے جو اونچائی تک لے جاتا ہے ۔ہر سال جون کے تیسرے اتوار کو فادرزڈے منایا جاتا ہے۔ اس سال 18 جون کو یہ دن منایا جائے گا۔ اس موقع پر ہم نے آرٹس کونسل کے صدر ،محمد احمد شاہ سے گفتگو کی۔ ان کے باپ نے ان کی تربیت کیسی کی ،انہوں نے اپنے بچّوں کی تر بیت کیسی کی ؟ بچّوں کے ساتھ کیسا رشتہ ہے، پہلے اور آج کی تربیت میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب میں انہوں نے کیا کہا ،یہ جاننے کے لئے آپ بھی ہمارے ساتھ گفتگو میں شامل ہو جائیں۔ اس کے علاوہ این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، کرکٹر سکندربخت اور اداکار قیصر نظامانی کے خیالات بھی بحیثیت باپ ملاحظہ کریں۔
محمداحمد شاہ اپنے باپ کی تربیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کچھ یوں گو یا ہوئے ’’ان کا انداز ِ تربیت دوستانہ اور سخت دونوں ہی تھا۔ وہ مجھے سے اپنی بہت ساری باتیں شیئر کرتے تھے۔ انتہائی دیانت دار، مذہبی اور ایمان دار تھے۔مجھے آج بھی یاد ہے جب میں پانچ سال کا تھا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کرنماز کے لیے مسجد لے جاتے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد کن مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا اور کسی طر ح جدوجہد کی۔ اپنی تمام تر تکلیفوں اور جدوجہد کے قصے مجھے سناتے تھے وہ بتاتے تھے کہ کتنی جدوجہد کے بعد ایک ملک حاصل کیا۔ وہ زیادہ پڑھے لکھنے نہیں تھے۔ لیکن اپنے ساتوں بچّوں کو اچھا مستقبل دینے کے لیے انتھک محنت کی۔
ہمیں پُرسکون ماحول اور آسائشوں سے بھر پور زندگی دی۔ اپنے باپ کی زندگی کو دیکھ کر اس بات پرمیرا یقین پختہ ہوگیا تھا کہ محنت رنگ لاتی ہے۔ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ جب تک والد زندہ رہے تو مجھے اپنے باپ ہونے کا اتنا زیادہ احساس نہیں ہوا، کیوں کہ زیادہ تر وہی میرے دونوں بچوں کا خیال رکھتے تھے، ہوا یوں کہا کہ ان کی زندگی میں میرے دو بچے تھے، ان کی وفات کے بعد مجھےاحساس ہوا کہ باپ کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ والد مجھ سے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ جب تمہارے اپنے بچے ہوں گے تو تمہیں میرے پریشانی کا احسا س ہوگا۔
مجھےکسی کام کی وجہ سے رات گھر آنے میں دیر ہوجاتی تو میرے انتظار میں ساری رات جاگتے رہتے تھے ،اُس زمانے میں تو موبائل فون بھی نہیں تھا۔ ان کے انتقال کے بعد مجھے پہلی مرتبہ شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ، میرے سر سے آسمان چھین گیا۔ ان کی وہ تمام باتیں اور نصیحتوں کا صحیح معنوں میں اندازہ اُس وقت ہوا جب میرے بچے بڑے ہوئے ،ان کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونا شروع ہوئے ،ان کی فکر رہنے لگی ، ان کے لیے بے چین رہنے لگا ،پھر مجھے سمجھ آیاکہ ،ایک باپ کی فکر کیا ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماں ،باپ کا رشتہ، دنیا کاوہ واحد رشتہ ہے جو ہمیشہ اپنی اولاد کو اپنے سے آگے دیکھا چاہتا ہے۔ میں کتنی بھی ترقی کرلوں ،مگر پھر بھی میں یہی چاہوں گا کہ میرے بچے مجھ سے آگے بڑھیں ،مجھے سے زیادہ دنیا میں نام کمائیں۔ مجھ سے بہترین پہچان بنائیں۔
بچّوں کی تر بیت میں آپ کا کتنا عمل دخل ہے ؟اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ، بچوں کی تربیت میں میرا عمل دخل اتنا نہیں ہے جتنا کہ ا ن کی ماں کا ،اسی لیے سختی بھی وہی زیادہ کرتی ہیں۔ میرے بچے مجھ سے نہیں اپنی ماں سے ڈرتے ہیں، اسی لیے وہ مجھے سے اپنی ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ کوئی بات نہیں چھپاتے ، دونوں بیٹیاں بھی اپنی ہر بات ماں سے شیئر کرنے سے ڈرتی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ میرے اور بچّوں کے درمیان باپ سے زیادہ دوستی کا رشتہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ویسے تو میں بہت سخت مزاج ہوں ،بہت لوگ مجھ سے بات کرنےسے گھبراتے ہیں لیکن باپ کے روپ میں انتہائی شفیق اورنرم مزاج ہوں۔
میں نے چاروں بچّوں کو ان کی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی، تعلیم کے معاملے میں کبھی کسی چیز پر روک ٹوک نہیں کی ،جس کو جو سبجیکٹ پسند تھا، اس میں تعلیم حاصل کی۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم ڈاکٹر ، انجینئر یا وکیل بنو، وہ جو بننا چاہتے تھے وہ بنے۔ میرا یک بیٹا بیرونِ ملک سے وکالت کرکے آیا ہے لیکن پاکستان آکر کچھ اور کام کرنے لگا ،میں نے اُس کو نہیں روکا ، غرض یہ کہ ہمیشہ ا ن کی پسند کو ترجیح دی لیکن جہاں منع کرنے کی ضرورت محسوس کی تو منع بھی کیا۔
آپ کے والد کا جو انداز ِتربیت تھا آپ نےاپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت اسی کو اپنایا یا زمانے کے مطابق تربیت کی ؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ والد کے انداز کے مطابق تو میں تربیت نہیں کرسکا ،کیوں کہ وقت کا فی بدل گیا، اُس وقت کی ترجیحات کچھ اور تھیں آج کی کچھ اور ہیں ،مگر جو باتیں وہ مجھے سمجھایا کرتے تھے ، وہ اپنے بچوں کو بھی سمجھاتا ہوں۔
بچّوں کی خواہشات پوری کرتے ہیں ؟اس حوالے سے احمد شاہ نےکہا ،اگر یہ کہوں کہ بچوں کو تھوڑ ا بہت بگاڑنے میں میرا ہاتھ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ میں نے ان کی ہر جائز اورناجائز،جس کو عام طور پر فضول خواہشات کہتے ہیں، پوری کیں۔ ہر ضرورت کو پورا کیا ،ایسا شاہد اس لئے کیا کہ میں انہیں زیادہ وقت نہیں دےسکا ،کیوں کہ میں اپنے کام میں بہت زیاد ہ مصروف رہتاتھا۔
میرے حصے کا وقت بھی میری بیوی دیا کرتی تھی۔ اسکول کے تمام تر معاملات وہی دیکھا کرتی تھی۔ اسکول سے لانا،لے جانا لینا، میٹنگز میں جانا، سب اُس کے سر تھا۔ لیکن دیکھیں اس سب کے باوجود بچے مجھے سے زیادہ قریب ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی کسی بات پر ان پر سختی کی ہو یا ڈانٹا ہو،البتہ کبھی کبھار ایک دو دفعہ کسی کام کو کرنے سے منع بھی کردیتا ہوں، مگر تھوڑی دیر بعد ان ہی کی بات مان لیتا ہوں ،حالاں کہ بیوی کہتی ہے کہ، آپ یہ غلط کرتے ہیں، اس طر ح بچے بگڑ جاتے ہیں لیکن میں اپنی فطرت سے مجبور ہوں۔
مجھے اس بات کا ڈر رہتا ہےکہ بچوں کی کوئی خواہش پوری نہ کرنے پر وہ احسا سِ کمتری کا شکار نہ ہو جائیں ، کبھی کبھی پچھتاوا بھی ہوتا ہے کہ اتنا زیادہ نہیں کرنا چاہیے، مگر اگلے ہی لمحے سوچتا ہوں باپ کا توکام ہوتا ہے بچوں کی خواہشات پوری کرنا ۔آرٹس کونسل کی تقریبات اور دیگرکاموں میں مصروف رہتا ہوں ،پھر بھی بچوں کو ٹائم دیتا ہوں، سنڈے کو ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا ہوں ۔ اس بات کا اطمینان ہے کہ، بہ حیثیت باپ اپنی ذمہ داریا ں خوش اسلوبی سے نبھا رہا ہوں اور آگے بھی نبھائوں گا،کیوں کہ ابھی بہت ساری ذمہ داریاں نبھا نا باقی ہیں۔
یہ بتا دوں کہ میں نےبچوں کو ہمیشہ اچھا انسان بننے ،حقو ق العباد اور ایمان داری کا درس دیا ،ان کو چھوٹی عمرمیں ہی یہ بات سمجھا دی تھی کہ ،ان چیزوں کا خیال زندگی کے ہر موڑ پر رکھنا،چاہے کچھ بھی ہو جائے، بے ایمانی کبھی نہیں کرنا اور اگر کبھی کسی کو تکلیف میں دیکھو تو اس کی مدد کے لیے ضرور آگے بڑھو۔ کام وہ کرو، جس سے معاشرے کو فائدہ ہو۔ میرے والد نے بھی مجھے یہی سکھایا تھا کہ، زندگی میں ایک روپے کی بھی بےایمانی نہیں کرنا۔میرے بچّوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہمارا باپ کسی بھی معاملے میں بےایمانی نہیں کرے گا ۔آج کل کے باپ پہلے اپنے بچّوں کی نفسیات کو سمجھیں ،پھر اسی کے مطابق ان کی تر بیت کریں ،کیوں کہ آج کے بچوں میں برداشت کی بہت کمی ہے۔
ماں باپ خصوصاً باپ ان کو اپنا دوست بنا لیں، تا کہ وہ آپ سےاپنی ہر بات شیئر کر سکیں۔ یاد رکھیں، سختی یا مار سے بچے کچھ نہیں سیکھتے، ان کو ہر بات انہیں کہ انداز میں سمجھائیں ۔ دن بھر کی مصروفیات میں سے ان کے لیے وقت لازمی نکالیں، تا کہ آپ کے اور بچّوں کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو سکے۔ لیکن یہا ں ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے کے مقابلے میں آج کے بچوں کی تربیت کرنا زیادہ مشکل ہے، اس کی اہم وجہ جدید دور ہے۔موبائل اور سوشل میڈیا نے جہاں ایک طر ف علوم دیا ، وہیں دوسری طرف کئی نسلوں کو بر باد کردیا۔ اس کے جال سے بچوں کو نکالنا والدین کے لیے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔