• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عافیہ صدیقی 1972ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرکے 1990ء میں اسٹو ڈنٹ ویزا پر مزید تعلیم حاصل کرنے امریکہ کی ریاست ٹیکساس گئیں جہاں پہلے ہی ان کا بڑا بھائی آر کیٹکچر کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی ریسرچ کی وجہ سے امریکہ میں پانچ ہزار ڈالر کا انعام بھی حاصل کیا۔ 1995ء میں انہوں نے ایک سائنسدان امجد محمد خان سے شادی کی، جس سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مہلک ہتھیار تیار کرنے کا فارمولا ایجاد کیا۔ جو آج تک ان سے کوئی بھی معلوم نہ کر سکا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی یہ پاکستان یا عالم اسلام کی بھلائی کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھیں جبکہ امریکہ چاہتا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی یہ فارمولا انہیں دیدے جس کیلئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے صاف انکار کر دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ امریکہ ان کا فارمولا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے گا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تعلیم اور تحقیق امریکہ میں مکمل ہوئی تھی اس لئے وہاں کے سائنسدان اس ریسرچ سے واقف تھے جس کی بنا پر انہوں نے ایف بی آئی کو رپورٹ کر دی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے پاس ایسی ریسرچ ہے جو اگر پاکستان کے ہاتھ لگ گئی تو وہ اسے امریکہ کے خلاف استعمال کرے گا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی2002ء میں پاکستان واپس آ گئیں مگر افسوس اس وقت پاکستان نے ان کا ساتھ نہ دیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں اُن کے گھر سے نامعلوم لوگوں نے اُٹھا لیا۔ یہ پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ جنہوں نے بعد ازاں اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے امریکہ کو مطلوب افراد پکڑ کر ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کئے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا تو ان کو کافی عرصہ بگرام کی خفیہ جیل میں رکھا گیا۔ وہاں سے جب کوئی قیدی رہا ہوتا تو وہ باہر آ کر کہتا کہ جیل میں ایک خاتون کی چیخوں کی آواز گو نجتی ہے۔ یکم اگست 2008کو لارڈ نذیر احمد، جو برطانیہ کے ہائوس آف لارڈ کے ممبر ہیں، کے لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری پر احتجاج سے عافیہ صدیقی کی بگرام کے خفیہ ترین قید خانے میں موجودگی منظر عام پر آئی۔ جس سے ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ 8اگست 2008ء کو ایشین ہیومن رائیٹس کمیشن نے بند آنکھوں، سوجے ہونٹوں اور ٹوٹی ناک کے ساتھ سکڑ سمٹ کر لیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تصویر جاری کر دی۔ تصویر سے برسوں کا جسمانی تشدد صاف عیاں تھا۔ اسکے بعد پینٹاگون نے ہتھیار ڈال دئیے اور قیدی نمبر 650کی موجودگی کا اعتراف کیا مگر کہا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہیں بلکہ کوئی اور خاتون تھی جس کو اس کے ملک واپس بھیج دیا گیا ہے۔

بگرام سے رہا ہونیوالے ایک قیدی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے یقین کے ساتھ اقرار کیا کہ یہی خاتون قیدی نمبر650ہیں۔ اس نے بتایا کہ سزا اور تشدد کے ساتھ ساتھ اس قیدی کی بے حرمتی بھی کی گئی۔

افغانستان کی جیل میں فوجی اہلکاروں نے عافیہ پر دو گولیاں چلائیں اور علاج کے بہانے انہیں امریکہ بھیج دیا۔ جہاں ان پر من گھڑت الزامات لگا دئیے گئے اور ستمبر 2010ء میں جج برمن نے عافیہ کو چھیاسی سال کی سزا سنا دی۔ جس وکیل نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (ڈاکٹرعافیہ کی بہن) اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات اور اس کی رہائی کے طریق کار کی طرف رہنمائی کی۔ وہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کلائیو سٹیفورڈ سمتھ ہیں جو امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں گوانتانا موبے جیسے عقو بت خانوں سے بے قصور قیدیوں کی رہائی کیلئے کسی مالی منفعت کے بغیر اُن کے مقدمات لڑتے ہیں۔ وہ بنیادی حقوق کی محافظ کئی تنظیموں کے رکن رہے ہیں۔ عافیہ کے وکیل کی حیثیت سے ڈاکٹر فوزیہ اور سینیٹر مشتا ق احمد کے ہمراہ وہ فورٹ ورتھ کی جیل گئے اور انہوں نے عافیہ سے اسکی رہائی کیلئے صلاح مشورہ کیا۔ پہلے ڈاکٹر فوزیہ (بہن) کی ملاقات ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کروائی گئی ۔ 20برس کے دوران عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی ۔ کازویل جیل میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں بہنوں کے درمیان موٹا شیشہ حائل تھا ، وہ ایک دوسرے سے گلے بھی نہ مل سکیں ، جیل کے مٹیا لے لباس میں ملبوس عافیہ کا اوپر کا ایک دانت نہیں تھا، ٹھیک طر ح سے سن بھی نہیں پا رہی تھیں، انہیں انکے بچوں کی تصاویر دکھانے کی اجازت بھی نہ دی گئی، برسوں کی قید تنہائی اور تشدد کے صدمہ کے باعث ڈاکٹر عافیہ صدیقی بات بھی مشکل سے کر پا رہی تھیں، پھر پہاڑ جیسی استقامت رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بولیں "...میں اپنے والد، والدہ، آپ (بہن ڈاکٹر فوزیہ) اور بچوں کو روزانہ کئی بار یادکرتی ہوںــ" ملاقات کا وقت ختم ہو گیاتو ڈاکٹر فوزیہ بہتے آنسوئوں کے ساتھ واپس آگئیں۔

31مئی 2023ء کے روز سینیٹر مشتاق احمد نے ڈاکٹر کی موجودگی میں ڈاکٹر عافیہ سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ مشتاق خان کی آبزرویشن کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی بچپن کی یادداشت بڑی حد تک برقرار ہے۔ سینیٹر مشتاق نے قرآن پاک کی چند آیات تلاوت کیں تو عافیہ نے انہیں مکمل کیا مگروہ کہیں کہیں بھول جاتی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ شاہنا مہ اسلام اور سیرت مصطفی ﷺ پر بھی بڑے ذوق سے بات کرتی رہی مگر بار بار اُ نکا حافظہ ساتھ چھوڑ جاتا تھا۔ وہ اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ اور سینیٹر مشتاق احمد کے ساتھ جیل کا ذکر جہنم کہہ کر کرتی رہیں۔ وہ بار بار بلک بلک کر کہتی رہیں کہ خداراـ! مجھے اس جہنم سے نجات دلائیں۔ ملاقاتوں کی تفصیل اور وکیل کلائیو کے ماہرانہ مشوروں کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کی فورٹ ورتھ کی میڈیکل جیل سے رہائی کیلئے حکومت پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔ رہائی کی تین صورتیں ممکن ہیں ۔پہلی تو یہ کہ مقدمے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی درخواست امریکی عدالتوں میں دائر کی جائے، مگر یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہو گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حکومت پاکستان قیدیوں کے تبادلے کیلئے کوشش کرے۔تیسری صورت یہ ہو سکتی کہ امریکی ایوانِ صدر میں انسانی ہمدردی اور عافیہ کی گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے درخواست دائر کی جائے اور رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ چوتھا طریقہ جو زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ہر نئے انتخاب کے انعقاد سے دو تین دن قبل امریکی صدر بہت سے قیدیوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کا حکم صادر کرتا ہے ۔رہائی کے اس ذریعے کیلئے حکومت پاکستان کو بار سوخ امر یکیوںکے ساتھ مل کر بھر پور مہم چلانی ہو گی۔ یہاں ہم سب کو سینیٹر مشتاق احمد (جماعت اسلامی) کی کوششوں کو سراہنا چاہئے جن کی وجہ سے اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین