• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

300 گھر اجڑ گئے ہیں۔ بنگلوں کی تعمیر کے خواب بکھر گئے ہیں۔ اچھے دنوں کی آس 75برسوں سے ہمیں بھی ہے۔ یہی امید لیے یہ 300 بھی یورپ آ رہے تھے۔ مائیں بین کر رہی ہیں۔ بہنیں سر پیٹ رہی ہیں۔ دریاں بچھی ہوئی ہیں۔ پارے پڑھے جا رہے ہیں۔ فاتحہ کیلئے بوڑھے ہاتھ اٹھ رہے ہیں۔

رات ہنیری ندی ٹھاٹھاں مار دی۔ یونان اور اٹلی کے ساحلی محافظ سب کچھ دیکھتے رہے۔ انسانیت ڈوب رہی تھی۔ کتنے ملکوں کا مستقبل غرق ہورہا تھا۔ مگر ان وردی والوں کو کوئی فکر نہیں تھی۔ یہ وہی یونان ہے جو سقراط کو زہر پلادیتا ہے۔1967میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ کچھ کچھ ترقی پسند، جمہوریت پسند جارج پاپاندریو کے انتخابات جیتنے کا خطرہ ہے۔ الیکشن سے ایک مہینہ پہلے کرنلوں کا ایک گروپ ملک میں مارشل لاء لگادیتا ہے۔ 21اپریل 1967 سے 1974تک یونانی جنتا کی حکومت رہتی ہے۔ اٹلی بھی دائیں بازو کی اس جنتا کی مدد کرتا ہے۔ یونان اٹلی انسانیت دشمنی کی تاریخ رکھتے ہیں۔ یونان میں اس واقعے کے بعد عوام احتجاج کررہے ہیں۔ پاکستان نے یوم سوگ تو منالیا۔ یونان اور اٹلی سے سرکاری سطح پر احتجاج کیوں نہیں کیا۔ لیبیا کی انتظامیہ کی مذمت کیوں نہیں کی۔

کسی حکومت۔ کسی این جی اونے کوئی وائٹ پیپر شائع کیا کہ گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ آزاد کشمیر سے ہمارے کتنے نوجوان 1970کی دہائی سے حسین مستقبل کے خواب لئے سمندر کی نذر ہورہے ہیں۔ سلسلہ تو منگلا ڈیم کی تعمیر سے شروع ہوا۔ قانونی طور پر کتنے خاندان برطانیہ گئے۔ پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاسپورٹ عام کیا۔ کتنے نوجوان جائز طریقوں سے دبئی، سعوی عرب، کویت، مسقط، لیبیا جاتے رہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جوان ملک بنایا ہے۔ 100میں سے 15-60 سے 30سال کی عمر کے ہیں۔ 1985 سے اب تک آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ نوجوانوںکو ہُنر سکھاتے۔ گجرات کے چوہدری تو ہمیشہ ہی حکمران رہے ہیں۔ کیا ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ان نوجوانوں کے خواب حقیقت میں بدلنے کیلئے ان کی تربیت کا اہتمام کرتے۔انہیں ایسے ڈپلومے دیتے جن کی یورپ میں ضرورت ہے۔ انسانی اسمگلروں کی طاقت وری ختم کرتے۔ ایف آئی اے والے۔ رینجرز۔ فوج سب ہی دیکھ رہے تھے۔ کب سے ہماری جوانیاں ترکی، اٹلی، یونان کے سمندروں میں گم ہورہی تھیں۔ گجرات کی نند نے تو کچا گھڑا دے کر سوہنی اور اس کے خواب دریا برد کردیے تھے۔ اب نند کا کردار انسانی اسمگلروں نے سنبھال لیا۔ اب کچے گھڑے لاکھوں روپے میں خریدے جارہے ہیں۔ سونا اگلتی زمینیں فروخت ہو رہی ہیں۔ اس علاقے کے سب لوگ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر، وزیر، یونیورسٹیاں، وائس چانسلر، پروفیسر، ٹیچرز، ایوان صنعت و تجارت، میڈیا والے سب ذمہ دار ہیں سب جانتے ہیں کہ ان نوجوانوں کو کچے گھڑے دیے جارہے ہیں۔ یارنوں ملے گی اج لاش یار دی۔ گھڑیا۔ گھڑیا۔ ہاں وے گھڑیا۔

نیلی بار۔ گوندل بارمیں یہ مصرع تو گونجتا ہے ’’کچیاں دا ہوندا کچا انجام نی‘۔ لیکن کسی نے یہ زحمت نہیں کی کہ پکے گھڑے کا انتظام کرے۔ اب بھی سوگ منایا جا رہا ہے۔ تقریریں کی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر رہی ہے۔ پھر ضمانتیں ہو جائیں گی۔ 1985سے یہی ہو رہا ہے۔ کوئی تحقیقی ادارہ۔ انسانی حقوق کا کمیشن تحقیق کرے کہ انسانی اسمگلر کتنی بار گرفتار ہوئے۔ کیا ان کو سزا ہوئی۔ وہ اپنے اس انسان دشمن کاروبار سے باز آئے۔

اب بھی ضرورت یہ ہے کہ ریاست ان نوجوانوںکو تعلیم وتربیت دےاور ہُنر سکھانے کا اہتمام کرے۔ یورپ کے ممالک میں جہاں جہاں نوجوانوں کی کھپت ہے وہاں دیکھا جائے کیسے ہُنر مندوں کی مانگ ہے۔ پاکستان میں شرح آبادی بڑھ رہی ہے۔ یورپ میں بوڑھے مردوں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہاں کام کیلئے نوجوانوں کی کمی ہے۔ ہمارے سفارت خانے وہاں معلوم کریں کہ کس ہُنر کے نوجوان چاہئیں۔ یورپ ہی نہیں۔ کینیڈا میں تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ انسانوں کی طلب ہے۔ جاپان میں بھی مانگ ہے۔

ہمارے حکمرانوں اور اداروں کو اپنے نوجوانوں کی فکر نہیں ہے۔ صرف اپنی اولادوں پر نظر ہے۔ ان کیلئے کروڑوں ڈالر جمع کررہے ہیں۔ پاکستان میں بھی املاک بن رہی ہیں۔ برطانیہ۔ بیلجیم۔ ڈنمارک۔ ناروے۔ اور نہ جانے کہاں کہاں۔ لیکن اپنے ووٹروں کی اولادوں کا کوئی غم نہیں ہے۔ چاہے وہ اپنے ملک میں دہشت گرد، لسانی، فرقہ پرست، تنظیموں کے ہاتھ چڑھ جائیں یا ترکی اٹلی کے سمندروں میں گم ہوتے رہیں۔ ایک دو ہفتے میڈیا بھی شورمچاتا ہے۔ پھر ان نوجوانوں کا غم ان کے گھروں تک محدود ہوجاتا ہے۔ وہاں نوجوانوں کی اگلی نسل بھی یہی کوشش کرتی ہے۔ اسے ’ڈنکی مارنا‘ بتایا جارہا ہے۔ گجرات کے ہر محلّے گائوں گلی میں ایسے گھرانے عام مل جاتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی نوجوان انسانی اسمگلروں کے ذریعے گیا اور لاپتہ ہوگیا۔ گجرات کے ارشد علی رحمت آباد سرگودھا روڈ پر رہتے ہیں۔ یہاں تین گھرانے ایسے ہیں جن کے جوان عرصہ 15سال سے لاپتہ ہیں۔ یہ بھی کسی کے بلاول ہیں، کسی کے مونس الٰہی ہیں، کسی کے سلمان قاسم ہیں، کسی کے حمزہ ہیں۔ یہ اپنے گھروں کی کایا پلٹنا چاہتے ہیں۔ یہ ذمہ داری تو ریاست کی ہے۔ 75سال میں کایاپلٹنی چاہئے تھی۔ چین کو دیکھ لیں۔ دنیا بھر میں چینی تارکین وطن ہوتے تھے۔ جب چین خوشحال ہوگیا۔ وہ واپس چین آگئے۔ ایرانی ہوٹل کتنے ہوتے تھے۔ انقلاب ایران کے بعد اکثر واپس چلے گئے۔ بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں۔ کتنے بنگالی بھائی بہنیں ہمارے ہاں لذیذ کھانے پکاتے تھے۔ ایک بنگالی کتنے بنگالیوں کو بلالیتا تھا۔ اب سب واپس جاچکے ہیں۔

کیا1985سے حکومت کرنے والے زرداریوں، شریفوں اور فوجی حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ پاکستان کو ایسا خوشحال ملک بناتے کہ بحیرہ روم میں ان ڈوبنے والوں کے خواب اپنی ساندل بار، گوندل بار، نیلی بار میں ہی حقیقت بن جاتے۔ کیا تاریخ ان حکمرانوں کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کرے گی۔ کیا اللّٰہ تعالیٰ ان سے محاسبہ نہیں کریں گے۔ حمید رازی صاحب کا کہنا ہے کہ کھاریاں کے چوہدری نیک عالم نے کوشش کی تھی۔ نوجوانوں کو قانونی طریقے سے باہر بھیجنے کی۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی ’’ آل پاکستان بھکھ کڈھ پارٹی‘‘ یعنی بھوک نکال جماعت۔ الیکشن میں بھی حصّہ لیا۔ لیکن لوگوں نے ووٹ نہیں دیے۔ دیانتدار لوگ ہمارے ووٹ کے حقدار نہیں ہوتے۔

کیا ہم سب آج یہ عزم کریں گے کہ اب ہم اپنے کسی نوجوان کو یورپی سمندر کی خوراک نہیں بننے دیں گے۔ گجرات کے علاقے میں ہُنر مندی کی ورکشاپیں قائم کریں گے۔ نوجوانوں کو تربیت دے کر یعنی پکے گھڑے دے کر بھیجیں گے۔ ہر مہینوال کا حق ہے کہ وہ اپنی سوہنی کو حاصل کرے۔

تازہ ترین