• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اطلاع صرف اس قدر تھی کہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار ملک کی اقتصادی صورتحال پر بریفنگ دیں گے ۔سوا گیارہ بجے کے لگ بھگ اخبار نویس وزیر اعظم ہائوس کے کیبنٹ روم میں داخل ہوئے تو وزیر اعظم نواز شریف نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملایا۔ صحافیوں کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ پوری وفاقی کابینہ ہال میں موجود تھی۔ وزیر اعظم نے ہلکے پھلکے انداز میں صحافیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ’’کابینہ بڑی بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہی تھی‘‘۔
اسحاق ڈار جب بھی بولتے ہیں، پورے اعتماد اور زبردست تیاری کے ساتھ بولتے ہیں، ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل طویل بریفنگ کے دوران انہوں نے ملکی معیشت کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ ان تمام افواہوں اور مفروضوں کا شافی جواب دیا جو میڈیا میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ بریفنگ کے بعد انہوں نے صحافیوں کو سوالات کی بوچھاڑ کا بھرپور موقع دیا۔ معاشیات پر لکھنے والے صحافیوں کو خاص طور پر اس بریفنگ میں دعوت دی گئی تھی۔ سو انہوں نے اپنا نقطہ نظر بھی پیش کیا اور تاک تاک کر نشانے بھی لگائے لیکن ڈار صاحب کا قلعہ خاصا مضبوط نکلا۔
ڈار صاحب کی تفصیلی بریفنگ کا خلاصہ یہ تھا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’…ہم نے جون کے پہلے ہفتے میں حکومت سنبھالی تو ملک کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران معیشت کی شرح نمو، اوسطاً صرف تین فی صد کے آس پاس رہی۔ مہنگائی کی اوسط شرح 12فیصد تھی۔ پانچ برس کے دوران 8ارب ڈالر آئی ایم ایف کی مدد کے باوجود جون2013ء میں زرمبادلہ کے ذخائر گیارہ ارب ڈالر تھے۔بجلی کمپنیوں کا واجب الادا گردشی قرضہ 503ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا شدید توانائی بحران کے باعث معیشت ہچکیاں لے رہی تھی اور ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جی ڈی پی اور سرمایہ کاری کا تناسب مسلسل زوال پذیر تھا اور 8.5فیصد کی پست ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ جی ڈی پی اور سرمایہ کاری کا تناسب مسلسل زوال پذیر تھا اور 8.5فیصد کی پست ترین سطح کو چھو رہا تھا۔ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 8.5فی صد تک گر گیا جو چودہ برس قبل1999ء میں 13.9فی صد پہنچ چکا تھا ۔ بجٹ کا خسارا 8.8فی صد کے لگ بھگ پہنچ گیا تھا جو دنیا کی کسی بھی اکانومی کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ جی ڈی پی اور قرضوں کا تناسب 63فیصد کی خوفناک حد کو چھو رہا تھا۔ 1999ء میں پاکستان2946ارب روپے کا مقروض تھا جون2013ء میں یہ قرضے 14400ارب روپے تک پہنچ گئے تھے۔
ماضی کی اس تصویر کے بعد اسحاق ڈار نے اعدادو شمار کی مدد سے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ان کی حکومت نے کیا اہم اقدامات کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ 5جون کو وزیراعظم نے حلف اٹھایا۔ 7جون کو حکومت قائم ہوئی۔ صرف پانچ دن بعد12جون کو ہم نے بجٹ پیش کر دیا۔ اس بجٹ کے تحت آئی ایس آئی اور آئی بی کے سوا بتیس وزارتوں اور ملحقہ محکموں کے تمام خفیہ فنڈز ختم کر دیئے گئے۔ ہم سے قبل وزیر اعظم کی صوابدیدی گرانٹ 22ارب روپے تھے لیکن عملاً 42ارب روپے کی اس صوابدید کی نذر ہو گئے۔ ہماری حکومت نے وزیراعظم کی تمام تر صوابدیدی ختم کر دی اور اس مد میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔ تمام وزراء کے صوابدیدی فنڈز بھی ختم کر دیئے گئے۔ وزیراعظم کے دفتر کے اخراجات میں40فی صد اور دیگر تمام وزارتوں اور محکموں کے اخراجات میں30فیصد کمی کر دی گئی۔ ان غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کے باعث قومی خزانے میں 40ارب روپے کی بچت ہوئی۔ بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں سیاسی بنیادوں پر کی گئی بلا ضرورت اور بے ثمر تقرریاں ختم کر کے دو ارب روپے سالانہ کی بچت کی جا رہی ہے۔ ہم نے 1997-99ء میں ٹیکس فری وی وی آئی پی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔ 2005ءمیں یہ پابندی ہٹا لی گئی اور وی وی آئی پی گاڑیوں کی بلا ٹیکس درآمد کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا ۔ اب ہم نے ایک بار پھر یہ پابندی نافذ کر دی ہے سو کسی گاڑی پر کوئی چھوٹ نہیں ملے گی۔ 503ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں1700میگا واٹ کمی کا سامنا تھا۔ پاکستانی حکومت نے تمام کمپنیوں کو ریاستی ضمانت دے رکھی تھی کہ اگر واپڈا واجبات ادا نہ کر سکا تو حکومت کرے گی۔ اس ضمانت کے تحت نو کمپنیاں حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی تھیں۔ بیرونی حکومتیں دبائو ڈال رہی تھیں کہ ہماری کمپنیوں کو ادائیگیاں کی جائیں۔ سود اور اصل زر کی مد میں14فیصد کے حساب سے سالانہ 67ارب روپے کا بوجھ بڑھ رہا تھا۔ حکومت نے صرف45دنوں کے اندر یہ قرض ادا کر دیا جس سے بجلی کی پیداوار میں1700میگا واٹ کا اضافہ ہوا ،صنعتیں بحال ہوئیں۔ بے روزگار محنت کش روزگار پر واپس آئے۔ لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آئی‘‘۔ وزیر خزانہ نے اعدادو شمار کی روشنی میں ان تمام افواہوں کو رد کر دیا کہ گردشی قرضے کے لئے نوٹ چھاپے گئے۔ انہوں نے پوری تفصیل سے بتایا کہ یہ رقم کن مدات سے حاصل کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جن کمپنیوں کو جو رقم ادا کی گئی اس کی پوری تفصیل ویب سائٹ پر دے دی گئی ہے۔ انہوں نے چھ ماہ کے دوران چھاپے گئے نوٹوں کی پوری تفصیل بھی بیان کی۔
وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف پروگرام کی جزئیات بھی بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تباہ حال معیشت اور بدحکومتی کی وجہ سے ڈھائی برس تک کوئی حکومت سے بات کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ موجودہ حکومت عملاً قرض کا بوجھ کم کر رہی ہے۔ ہم نے جتنا قرض لیا اس سے زیادہ ادا کر رہے ہیں ہم نے31دسمبر تک تمام اہداف حاصل کر لئے اور اب عالمی اداروں میں ہماری ریٹنگ اچھی ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج زرمبادلہ کے ذخائر 8.4ارب ڈالر ہیں لیکن حکومتی اقدامات کے باعث اس سال کے آخر تک یہ ذخائر 16ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ وزیر خزانہ نے بجلی کے دس منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان سے بجلی کی پیداوار 36ہزار میگا واٹ سے بڑھ جائے گی۔ اقتصادی بدحالی کے سبب نئی کمپنیاں کھلنے کا سلسلہ رک گیا تھا۔ ہمارے آنے کے بعد 2597ایسی کمپنیاں کھل گئی ہیں جو بند پڑی تھیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں%27ترقی ہو چکی ہے۔ 5270روپے کی ٹوٹل مارکیٹ اب6160روپے تک آ گئی ہے ٹیکسوں کی وصولی گزشتہ چھ ماہ کے دوران 792ارب روپے رہی جو گزشتہ برس اس عرصے میں679ارب روپے تھی۔ بجٹ کا خسارا 690ارب سے کم ہو کر 570ارب روپے تک آگیا ہے۔ ٹیکس گزاروں میں اب تک دس فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اب ہمارا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں معاشی کارکردگی کو بہترین خیال کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ایکسچینج میں ہماری ریٹنگ -34(منفی چونتیس) تھی جو اب بہتر ہو کر 2 + (پلس دو) ہو گئی ہے ۔ڈار صاحب نے نوجوانوں کے لئے وزیراعظم کے خصوصی پیکیج کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ پسماندہ قرار دیئے گئے علاقوں میں ایم اے یا اس کی سطح سے اوپر تمام طلبا و طالبات کی فیس حکومت ادا کر رہی ہے۔غریب طبقات کو مالی امداد کے لئے رقم 40ارب روپے سے بڑھا کر 75ارب روپے کر دی گئی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کے لئے فنڈز کا اہتمام ہو رہا ہے اور بہت جلد اس پر کام شروع ہو جائے گا۔ مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے گزشتہ حکومت اور نگرانوں کے کرتبوں کا حوالہ دیا ۔یہ کہانی ایک پورا کالم مانگتی ہے۔
چودہ برس پر محیط اقتصادی بدحالی کے بعد صرف چھ ماہ میں صورتحال کو سنبھالا دینا اور اس کا رخ بہتری کی طرف موڑ دینا یقیناً قابل ستائش ہے اس بریفنگ کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ تمام حقائق میڈیا کے سامنے رکھ دیئے گئے اور ’’شفافیت‘‘ کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ دیگر اہم وزارتوں کے لئے بھی اس طرح کی بریفنگز کا اہتمام کریں تاکہ سست گام وزراء کو بھی اندازہ ہو کہ انہیں اپنی کارکردگی کا اعمال نامہ سب کے سامنے رکھنا ہے۔
تازہ ترین