• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد مشتاق کلوٹا

(سابق رکن، اسلامی نظریاتی کونسل)

ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس عبادت کو اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے، مثلاً نماز میں خشوع و خضوع اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے ۔ تمام عبادات کو حقوق کی رعایت اور اس کے مطالبے کے شعور کے ساتھ پابندی سے ادا کریں تو عبادات اس سے اپنے مطالبات پورا کرالیتی ہیں۔ اس طرح بندے کی زندگی میں ایک عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔حج سے اللہ کی راہ میں نکلنے، نما ز سے انسانی مساوات ‘ روزے سے صبر و تقویٰ ، قربانی سے ایثار اور زکوٰۃ سے انفاق و اخلاص کا درس ملتا ہے ۔حج اسلام کا پانچواں اہم رکن ہے ،یہ وہ ستون ہے جو تمام ستونوں کی خصوصیات کو یکجا کرتا ہے۔ یہ روحانی(دنیا کی نجاستوں سے پاک کرنا)، جسمانی(محنت و مشقت) اور مالی(مال کا خرچ کرنا) عبادات کا مجموعہ ہے ۔ 

یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس و اجتماع ہے، جو صحیح معنوں میں مسلمانوں کے درمیان سے ہر قسم کی طبقاتی تفریق مٹاکر ، انہیں یگانگت کی ایک لڑی میں پروتا ہے۔ ان سلے کپڑے کا ایک سادہ لباس زیب تن کرلیتے ہیں اور اس طرح انسانوں کے درمیان تفریق و امتیاز کی تمام خود ساختہ دیواریں گرادیتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کی لڑی میں منسلک ہوجاتے ہیں ۔ اس کی نظیر دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے ساتھ کام کاج ، گھر باراور دیگر زندگی کے معاملات نہ ہوں، ان سب کو پیچھے چھوڑ کر مسلمان اللہ کے حضور صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے حاضر ہوتا ہے۔

حج سے اللہ کی راہ میں نکلنے، نماز سے انسانی مساوات ‘ روزے سے صبر و تقویٰ ، قربانی سے ایثار اور زکوٰۃ سے انفاق و اخلاص کا درس ملتا ہے

آج ہمیں جو حج کی صورت نظر آتی ہے، وہ اس حج کی شکل ہے، جو فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت و سربراہی میں ادا کیا گیا اور جو دس ہجری میں ہمارے پیارے نبیﷺ نے ادا کیا، جسے حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

حج کے معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ۔ تاہم شرعی اصطلاح میں حج کے معنی عبادت کی نیت سے ایام حج میں بیت ﷲ کی زیارت کو جانے اور مناسک حج ادا کرنے کا نام حج ہے۔ حج ایک جامع اور عظیم درجے کی عبادت ہے۔یہ نماز اور روزے کے مقابلے میں مشکل عبادت ہے ‘ ﷲ تعالیٰ نے صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کو فرض کیا ہے ۔ اسی سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ لوگوں پر ﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ ﷲ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (سورۂ آل عمران ، آیت نمبر۹۷)

ادائیگی حج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے بندے کے گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’جس نے ﷲ تعالیٰ کے لیے حج کیا اور دوران حج فسق و فجور سے باز رہا، وہ اس طرح واپس لوٹتا ہے (گناہوں سے پاک ہوکر) گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہواہو۔ (صحیح بخاری)

حج کے اعمال کو دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک ایک عمل عاشقانہ اداؤں کا مجموعہ ہے ۔ کفن جیسا خاص لباس(احرام) ‘ لبیک لبیک کی بلند صدائیں (تلبیہ)‘ کعبے کے اردگرد سات چکر (طواف)‘ حجر اسود کو بڑھ چڑھ کر چومنا (استلام)اور موقع نہ ملے تو محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا اور ہاتھ کے اشاروں سے اپنے عشق کا اظہا رکرنا‘ صفا و مروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ ؓکی یاد کو تازہ کرنا (سعی)‘ بال بکھرے ہوئے‘ جسم غبار سے اٹا ہوا ‘ اور بار بارایک ہی صدا کا بلند کرنا’’ لبیک اللھم لبیک‘‘اور اپنے گناہوں پر نادم ہونا(استغفار کی کثرت)۔ یہ تمام چیزیں عاشق اور محبوب کے درمیان ایک حقیقی رشتے کو ظاہر کرتی ہیں۔

گویا سچا حاجی وہ ہے جسے اپنی کچھ خبر نہ ہو‘ بال بکھرے ہوئے اور لباس و جسم پرغبار چڑھا ہوا ۔ ‘‘ حاجی کی اس بے حالی کو دیکھ کر ﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے ’’ میرے دیوانوں کی مستی کا عالم تو دیکھو ‘ میرے در پہ کس شان سے آئے ہیں کہ نہ بالوں کے بکھرنے کی خبر ہے ‘ نہ جسم پر گردو غبار کا ہوش!‘‘

حاجی گھر بار اور اہل و عیال کو چھوڑ کر ﷲ کے لیے نکل پڑتا ہے اور پھر احرام باندھ کر کفن جیسا لباس پہن لیتا ہے جس سے انسانی تفاخر کے تمام دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ظاہر و باطن کو سب سے کاٹ کر لبیک لبیک کی صدا بلند کرنا ،یہ سب حاجی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کا ببانگ دہل اعلان کرے جس طرح حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے فیصلہ کیا : ’’ بے شک ،میری نماز ‘ میری قربانی‘ میری موت‘ اور میری زندگی سب ﷲ وحدہ لاشریک کے لیےہے۔‘‘ (سورۂ انعام )

ایک غلط نظریہ اور تصور زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں جڑ پکڑ چکا تھا، جس کی رو سے انہوں نے اپنے اوپر حج کے سفر کے دوران زادِ راہ(سفری سامان) اپنے ساتھ لے جانا حرام قرار دیا تھا۔ وہ حج کے لئے سفر پر نکلتے تو اپنے ساتھ کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا سامان لے جانا ،اپنی عبادت کے خلاف سمجھتے تھے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے بنیاد اور لغو تصوّر کا راز کھول دیا، ارشاد فرمایا : حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعد اور عشرئہ ذوالحجہ) تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘(سورۃ البقرہ)

حج جیسی عبادت کی اہمیت مسلّم ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ جو شخص زادِ راہ کی طاقت رکھتا ہو ، سواری پر بھی اسے قدرت ہو اور اس کے باوجود حج نہ کرے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور قول ہے کہ ’’ جو لوگ استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے ، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں‘‘۔

یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کے سفر پر نکلنے والوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا زادِ راہ اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لے کر نکلا کریں۔ پھر فرمایا کہ ’’بہترین زادِ راہ تو تمہارا تقویٰ یعنی نیکی کرنا ہے اور باقی دنیاوی سامان تو سب عارضی ہے۔‘‘

اگر حج جیسی عبادت پر غور کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ ایک جامع عبادت ہے کیونکہ اس میں تمام عبادات اپنی اصلی شکل اور کامل روحانیت کے ساتھ یکجا ہوجاتی ہیں ۔توحید کا سب سے پہلا تقاضا ترکِ اغیار ہے ‘اور ترک ِمادیت ہے ۔ بار بار لبیک اللھم لبیک پکارکر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اے ﷲ آپ ہی ہمارے رب ہیں‘ وہ زبان کے ذریعے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کرتا ہے ۔ محبوب اپنے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا پسند نہیں کرتا ،پھر ہمارا حقیقی رب یہ بات کس طرح گوارا کرے گا کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی جائے ‘ پھر کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور یا پھر اس کے علاوہ کسی اور سے مانگا جائے ۔ ان تمام باتوں اور اعمال سے توحید اور اخلاص کا اعادہ ہوتا ہے۔

خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح ہے، یعنی حج میں خرچ کرنے کاثواب سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے۔ (مسند احمد)

پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:’’ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘ (ابن ماجہ)

ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’ جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اْس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اسے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کے لیے کہو،کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت ہوچکی ہے۔ (مسند احمد)

حج کو جہاد سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ جہاد کے دوران جس قسم کی محنت و مشقت جسمانی درکار ہوتی ہے حج کے دوران اس کی بہترین مشق کی جاتی ہے ۔ سفر کی مشکلات ، معمول کی زندگی کے برعکس اپنی زندگی گزارنا ، گھر سے دوری میں جہاد کا رنگ ہے۔ حج کے دوران بندہ اپنی آسائشوں کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ بعض اوقات بندے کو بھوکا پیاسا بھی رہنا پڑتا ہے۔ اس طرح حج میں ریاضت ہی ریاضت اور مجاہدہ ہی مجاہدہ ہے اور یہ ریاضت انسان کے نفس کو شیطانی کاموں سے محفوظ رکھتی ہے۔ 

بندہ شیطانی مطالبات اور نفس کی خواہشات کو صرف اور صرف رضائے الہٰی کے حصول کے لیے ٹھکرا دیتا ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ سب سے افضل جہاد حج مبرور(مقبول) ہے‘‘ اور جن لوگوں کا حج ﷲ تعالیٰ قبول فرماتا ہے، ان کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ مقبول حج کا اجر جنت کے سواکچھ نہیں ‘‘ ایک مرتبہ جب خواتین نے آپ ﷺ سے جہاد کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’تمہارا بہترین جہاد حج ہے ‘‘ ۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :بوڑھوں ، کمزور اور عورتوں کے لیے حج اور عمرہ کرنا ثواب میں جہاد کے برابر ہے ‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ کاقول ہے کہ ’’حج کا سامان تیار رکھو کہ یہ بھی ایک جہاد ہے ‘‘ ۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حج مبرور (یعنی جو حج قبول ہو)کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ﷺسے پوچھا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: حج کی نیکی‘ لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔‘‘ (مسند احمد والطبرانی ) پیارے نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’ حج کی نیکی‘ کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے۔‘‘ (مسنداحمد ۔ بیہقی )

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص حج کےلیے جائے اور راستے میں انتقال کرجائے، اس کے لیے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو شخص عمرہ کے لیے جائے اور راستے میں انتقال کرجائے تو اسے قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)

حج ابتداء سے انتہاء تک عبادات اور ارکان ومناسک سے بھرپور ہے اور جو بھی شخص رضائے الٰہی کی خاطراس جامع عبادت یعنی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حاضر ہوتا ہے، اس پر حج کی حکمتیں ، فوائد اور خوبیاں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنے اندر ان کیفیات کو محسوس کرتا ہے ۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان کو چاہیے کہ اس جامع عبادت کو ادا کرنے میں جلدی کرے، تاکہ نبی کریم ﷺ کی بشارت کو محسوس کرسکے اور ان لوگوں کے گروہ میں شامل ہوجائے جن پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہیں۔