• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے پانچواں رکن ہے، جس کی فرضیت قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے ثابت ہے۔ حج صاحب ِاستطاعت مسلمان، عاقل،بالغ، آزاد مردوعورت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ جس پر حج فرض ہوجائے، اُسے اس کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہیے، بلاعذر تاخیر کرنا یا ہر سال اُسے ٹالتے رہنا بہت بڑی خیر سے محرومی کا باعث ہے، اس لیے کہ نہ معلوم اُسے کوئی ایساعذر پیش آجائے کہ جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر حج پر نہ جاسکے، یا کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے کہ یہ جمع شدہ سرمایہ سارا اس میں لگ جائے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:

ترجمہ:’’حضور اقدسﷺ سے نقل کیا گیا کہ جو کوئی بھی مرد یا عورت کسی ایسے خرچ میں بخل کرے جو اللہ کی رضا کا سبب ہو تو وہ اس سے بہت زیادہ ایسی جگہ خرچ کرے گا جو اللہ کی ناراضی کا سبب ہو اور جو شخص کسی دنیوی غرض سے حج کو جانا ملتوی کرے گا،وہ اپنی اس غرض کے پورا ہونے سے پہلے دیکھ لے گا کہ لوگ حج سے فارغ ہوکر آگئے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی مدد میں پاؤں ہلانے سے گریز کرے گا، اسے کسی گناہ کی اعانت میں مبتلا ہونا پڑے گا، جس میں کچھ بھی ثواب نہ ہو‘‘۔(الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۶۹)

یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ کمزور ہے، لیکن ایسے امور میں ضعیف روایت ذکر کی جاتی ہے اور تجربے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جو لوگ نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اکثر ان کا مال ایسی جگہوں پر خرچ ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہوتی ہیں، اس لیے حج فرض ہونے کے بعد اس میں تاخیر نہ کریں۔

اب یہ کہ حج کرنے پر کیا انعامات ملتے ہیں، اس پر آپ ﷺنے اپنے ارشادات میں کئی انعامات گنوائے ہیں، مثلاً: جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا، اس میں کوئی دنیوی غرض، شہرت، ریا، نمودونمائش، وغیرہ کو شامل نہ کیا اور اپنے حج کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رکھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکرام کا معاملہ کیا تو وہ گناہوں سے ایسا پاک اورصاف ہوگیا جس طرح کہ نومولود بچہ گناہوں کی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہوتا ہے اور نیکیوں والے حج کا بدلہ تو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی صرف جنت ہے۔ نیکیوں والے حج سے مراد یہ ہے کہ سفر حج میں لوگوں کو کھانا کھلائے، ان سے نرم گفتگو کرے اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرے۔ جب کوئی ان صفات اور اعمال سے حج کرے گا تو ایسا حج ان سب کوتاہیوں اور قصوروں کا خاتمہ کردیتا ہے، جو حج سے پہلے کیے ہوں۔ 

حج کرنے والاجب ’’لبّیک اللّٰھم لبّیک،لبّیک لاشریک لک لبّیک۔انّ الحمدَ والنّعمۃَ لکَ والمُلک لا شریکَ لک‘‘کی صدا لگاتا اوریہ تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جو درخت،پتھر اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں، وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ اس کی دائیں، بائیں کی زمین کی انتہا تک چلتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ترجمہ:’’حضرت زاذان ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ بہت زیادہ بیمار ہوئے تو اپنے بیٹوں کو بلواکر جمع کیا اور فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے مکہ سے چل کر پیدل حج کیا، یہاں تک کہ مکہ واپس آگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلے سات سو نیکیاں لکھتے ہیں، ہر نیکی حرم کی نیکیوں کی طرح ہوتی ہے۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا ، حرم کی نیکیاں کیسی ہوتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ‘‘۔(الترغیب والترہیب، ج:۲،ص:۱۶۶)

جو حجاج کرام سفر حج میں شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، مثلاً: دورانِ سفر نماز باجماعت کی پابندی کرتے ہیں، مرد ہوں یا خواتین اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہیں، اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے، اپنے ساتھیوں سے جھگڑا نہیں کرتے، احرام کی تمام پابندیوں اور ممنوعاتِ احرام کی رعایت رکھتے ہیں، خواتین پردے کا اہتمام کرتی ہیں، حرمین کے تقدس کو پامال نہیں کرتے، حج کے ہر ہر رکن، ہر ہرواجب اور ہر ہر سنت کو اس کی روح کے مطابق ادا کرتے ہیں تو ایسے حجاج کرام کی نہ صرف یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مغفرت فرما دیتا ہے، بلکہ ایسے حجاج کرام جس کے لیے دعا کردیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی بھی مغفرت فرمادیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے آپﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: حاجی کی بخشش کردی جاتی ہے اور اس کی بھی بخشش کردی جاتی ہے، جس کے لیے حاجی بخشش مانگے ‘‘۔(الترغیب والترہیب، ج:۲، ص: ۱۶۷)

اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر کتنا احسان وانعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا تو ان کے ساتھ اس بیت اللہ کو بھی آسمان سے اُتارا، اور وہ اس وقت ایسا صاف اور شفاف تھا کہ اس کے باہر سے دیکھنے والوں کو اس گھر کے اندر کی چیز نظر آتی تھی اور اندر سے دیکھنے والوں کو باہر کی چیز نظر آتی تھی اور یہ اس لیے اُتارا کہ جس طرح ملائکہ میرے عرش کا طواف اور اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں، اسی طرح زمین والے بھی اس گھر کا طواف کریں، اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھیں، اور پھر اس جنت سے آئے گھر کو اللہ تعالیٰ نے طوفان کے زمانے میں آسمان پر اُٹھالیا، اس کے بعد انبیائےکرام علیہم السلام اس گھر کا طواف اور حج تو کیا کرتے تھے، لیکن اُنہیں اس کی جگہ معلوم نہ تھی، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی جگہ بتائی تو انہوں نے ان پرانی بنیادوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر تعمیر کیا۔ جیسا کہ حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد میں منقول ہے :

ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نیچے اُتارا تو فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھی اُتار رہا ہوں، جس کے ارد گرد طواف کیا جائے گا، جیسے میرے عرش کے ارد گرد طواف کیا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی، جیسے میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے۔ طوفان کے زمانے میں اُسے اٹھالیا جاتا تھا اور انبیاء علیہم السلام اس کا حج کیا کرتے تھے اور اس کی جگہ کا اُنہیں علم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہاں ٹھہرایا، پھر انہوں نے اُسے پانچ پہاڑوں (کے پتھروں )سے تعمیر کیا:حراء، ثبیر، لبنان، جبلِ طوراورجبلِ خیر، لہٰذا تم سے جتنا ہوسکے اس سے فائدہ اُٹھاؤ‘‘۔(الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۶۸)

اب یہ کہ حاجی کو اللہ تعالیٰ کے گھر کے طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی، عرفات کے میدان میں وقوف، رمی جمار، قربانی، طوافِ زیارت وغیرہ جیسے اعمال پر کیا ملتا ہے، اس کے لیے آپ درج ذیل حدیث کو پڑھیں اور اپنے دل کو ٹھنڈا کریں :

’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں منیٰ کی مسجد میں حاضر تھا کہ دو شخص ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر خدمت ہوئے اور سلام کے بعد عرض کیا کہ ہم کچھ دریافت کرنے آئے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمہارا دل چاہے تو تم دریافت کرلو اور تم کہو تو میں بتاؤں کہ تم کیا دریافت کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : آپﷺ ہی ارشاد فرمادیں۔ حضورﷺ نے فرمایا : تم حج کے متعلق دریافت کرنے آئے ہو کہ حج کے ارادے سے گھر سے نکلنے کا کیا ثواب ہے؟ طواف کے بعد دو رکعت پڑھنے کا کیا فائدہ اور صفا ومروہ کے درمیان دوڑنے کا کیا ثواب ہے ؟ عرفات پر ٹھہرنے اور شیطانوں کے کنکریاں مارنے، قربانی کرنے اور طوافِ زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے؟ انہوں نے عرض کیا : اس پاک ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبی بناکر بھیجا ہے، یہی سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔ 

حضور ﷺ نے فرمایا: حج کا ارادہ کرکے گھر سے نکلنے کے بعد تمہاری (سواری) اونٹنی جو ایک قدم رکھتی ہے یا اٹھاتی ہے، وہ تمہارے اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور طواف کے بعد دو رکعتوں کا ثواب ایسا ہے، جیسا ایک عربی غلام کوآزاد کیاہو اورصفا ومروہ کے درمیان سعی کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرانے کے برابر ہے اور عرفات کے میدان میں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ دنیا کے آسمان پر اتر کر فرشتوں سے فخر کے طور پر فرماتاہے کہ میرے بندے دور دور سے پراگندہ بال آئے ہوئے ہیں، میری رحمت کے اُمیدوار ہیں۔ اگر تم لوگوں کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں یا بارش کے قطروں کے برابر ہوں یا سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں،تب بھی میں نے معاف کر دیئے۔ 

میرے بندو! جاؤ، بخشے بخشائے چلے جاؤ، تمہارے بھی گناہ معاف ہیں اور جن کی تم سفارش کرو، ان کے بھی گناہ معاف ہیں۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : شیطان کو کنکریاں مارنے کا حال یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلے ایک بڑا گناہ جو ہلاک کردینے والا ہو معاف ہوتا ہے، اور قربانی کا بدلہ اللہ کے یہاں تمہارے لیے ذخیرہ ہے، اور احرام کھولنے کے وقت سرمنڈانے میں ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔ اس سب کے بعد جب آدمی طوافِ زیارت کرتا ہے تو ایسے حال میں طواف کرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا اور ایک فرشتہ کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتاہے کہ آئندہ از سر نو اعمال کر، تیرے پچھلے سب گناہ تو معاف ہوچکے ‘‘۔(الترغیب والترہیب،ج:۲،ص:۱۷۰تا ۱۷۶)

خلاصہ یہ کہ حج کرنے والا اپنے معبود سے عشق حقیقی اور سچی محبت کا خوب خوب مظاہرہ کرتا ہے، وہ اس طرح کہ عاشقوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے، وہ سب تعلقات ختم کرکے گھر بار، عزیز واقارب، دوست احباب، شہر اور وطن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کُوئے یارکی طرف روانہ ہوجاتا ہے، اس کے لیے سفر کے مصائب اور شدائد میں بھی مزا ہی آتا ہے:

اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں

تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

حجاج کرام بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک اللہ کی محبت میں سرشار ہوکر دیوانہ وار اللہ کے گھر کی طرف لپکتے اور پہنچتے ہیں، احرام کی حالت میں عاشقانہ رنگ لیے ہوئے نہ سر پر ٹوپی، نہ بدن پر کُرتہ، نہ خوشبو، نہ زینت، ایک فقیرانہ صورت اور ایک مجنونانہ ہیئت جو کرب وبے چینی کے کمال کو خوب خوب ظاہر کرتی ہے:

نہ رکھ لباس کا اُلجھاؤ تن پہ دست جنوں

کیا چاک گریباں تو پھاڑ دامن بھی

جب حاجی اللہ تعالیٰ کے گھر پہنچتا ہے تو بے اختیار آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بن جاتی ہے اور بزبانِ حال حاجی یہ کہتا ہے:

نالہ کرلینے دیں للہ نہ چھیڑیں احباب

ضبط کرتا ہوں تو تکلیف سوا ہوتی ہے

اور کہتا ہے:

جذبِ دل نے آج کوئے یار میں پہنچادیا

جیتے جی میں گلشن جنت میں آگیا

اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مسلمانوں کو حج کی سعادت سے بہرہ مندفرمائیں۔ (آمین)