کسی کتاب کی عالمی سطح پر مقبولیت کا اندازہ دو امور سے لگایا جاسکتا ہے۔ اوّل، اس کے شایع شدہ ایڈیشنز، فروخت شدہ کاپیوں کی تعداد اور دوم، اس کتاب کے دنیا کی اہم زبانوں میں کیے جانے والے تراجم۔ دنیا کے چند مشہور رسائل، کتابوں کی فروخت کے ریکارڈ کے متعلق پڑھنے والوں کو مطلع رکھتے ہیں ،جب کہ کچھ ادبی تنظیمیں ہرسال شایع شدہ کُتب کا جائزہ لے کر بہترین کُتب اور اُن کے مصنّفین کو اعزازات سے نوازتی ہیں، جن سے کتاب کے معیار کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوجاتی ہے اور اُن ہی دو باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے کچھ ایسی ادبی کتابوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے، جنھیں ہم بجا طور پر عالمی ’’ادبی شہ پارے‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ذیل میں دنیا بھرمیں تراجم اور فروخت کے لحاظ سے ریکارڈ قائم کرنے والی چند کتب کا تذکرہ پیش ِخدمت ہے۔
الیاڈ اور اوڈیسی: آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں لکھی جانے والی یہ دو کتابیں قدیم یونانی شاعر ہومر سے منسوب ہیں۔ جن کا دَور 8صدی قبل مسیح کا ہے۔ انہوں نے ’’ایلیاڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ جیسی شاہ کار رزمیہ نظمیں لکھیں۔ وہ ایک نابینا کہانی گو اور معتبر شاعر کے حوالوں سے پہچانے جاتے تھے اور اپنی نظمیں بلند آواز میں پڑھتے تھے، جو بعدازاں تحریری صورت میں مرتّب کرکے شایع کی گئیں۔ ہومر کی دونوں کتابیں عالمی ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
یاد رہے، ہزاروں سال قبل کا بیش تر یونانی ادب دیویوں، دیوتائوں کے فرضی قصّے کہانیوں پر مشتمل ہے اور ہومر کی ان کتابوں میں بھی نظمیہ انداز میں یونانی دیوتائوں کی فرضی جنگی مہمّات، طویل ترین سمندری اسفار اور جرأت و بہادری کے قصّے موجود ہیں۔ ان کتابوں میں جہاں یونان کے لگ بھگ تمام مشہور دیوتائوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے، وہیں جنگی مہمّات اور خطرات کی منظرنگاری بھی عمدگی سے کی گئی ہے۔ ان کتب کے نثری تراجم تقریباً تمام بڑی زبانوں میں کیے جاچکے ہیں، جب کہ ان میں شامل قصّوں کہانیوں پر بہت سی کام یاب فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔
الف لیلیٰ: یہ قصّے کہانیوں کی ایک مشہور کتاب ہے، جسے آٹھویں صدی عیسوی میں عربی زبان میں ترتیب دیا گیا۔ اس کا اصل مصنّف کون ہے، اس حوالے سے کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔عرب قصّہ گوؤں کے ذریعے تخلیق کی گئی کہانیوں میں مستقل اضافوں کے بعد اس داستان کے بطن سے ہزاروں قصّے جنم لینے لگے، تو اس کا پورا نام ’’اَلف لیلۃ و لیلۃ‘‘ (ایک ہزار ایک راتیں) تجویز کردیا گیاکہ یہ پوری داستان ایک ہزار ایک راتوں کے قصّوں پر محیط ہے، جس کے کچھ مشہور قصّے، الہٰ دین، علی بابا، مچھیرا اور جن، سندباد جہازی، تین سیب، سمندری بوڑھا، شہر زاداور حاتم طائی وغیرہ ہیں۔
کہتے ہیں کہ سمرقند کا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہوکر عورت ذات سے بدظن ہوگیا۔ وہ ہر روز ایک شادی کرتا اور صبح اُس عورت کو قتل کردیتا۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ ریاست میں عورتوں کی کمی ہونے لگی۔ تب وزیر زادی شہر زاد نے عورتوں کے تحفّظ کا منصوبہ بنایا اور بادشاہ سے شادی کرلی۔
شادی کے بعد وہ ہر رات بادشاہ کو ایک کہانی سُناتی اور جب کہانی کلائمیکس پر پہنچتی، تو اُسے کل کے لیے ملتوی کردیتی، اور پھر اگلے روز وہ کہانی مکمل کرکے دوسری کہانی شروع کردیتی، چوں کہ بادشاہ کہانیاں سُننے کا بہت شوقین تھا، اس لیے ہر روز اسے قتل کرنے کا ارادہ ملتوی کردیتا۔ اس طرح کہانیوں کا یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں تک پہنچ جاتا ہے۔جب کہ اس طویل مدّت میں بادشاہ کے دو بچّے پیدا ہوگئے اور عورت ذات سے اُس کی بدظنی جاتی رہی۔ اس کتاب کا ترجمہ اردو، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔
طربیہ خداوندی(Divine Comedy): دانتے الگیری (1265-1321عیسوی) اطالوی زبان کا مشہور شاعر تھا۔ اُس کی کتاب ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کو دنیا بھر میں بے پناہ شہرت ملی۔ کتاب کا موضوع موت کے بعد عالمِ برزخ ،جنّت، دوزخ اور رُوح سے متعلق حقائق ہیں۔ کتاب میں تحریرہے کہ اگر کوئی انسان زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے انکار کرے گا، تو مرنے کے بعد اُسے خدا کے جلال اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن زندگی میں اچھے کام کرنے کے صلے میں آخرت میں اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔ دانتے کی اس کتاب کو یورپ میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ شاعرِ مشرق، ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ دانتے کی اسی کتاب سے متاثر ہوکر لکھی اور خود اسے ’’ایشیاکی ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا نام بھی دیا۔
شاہ نامہ فردوسی: فارسی زبان کا شمار دنیاکی قدیم زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ اپنی چاشنی اور وسعتِ الفاظ کی بدولت اس زبان میں بہت سے ادبی شاہ کار لکھے گئے، جن میں علامہ اقبال، سعدی، حافظ اور رومی سمیت دیگر فارسی شعراء کا کلام دنیا بھر میں آج بھی پڑھا جاتا ہے، جب کہ گیارہویں صدی کے فارسی شاعر ابوالقاسم فردوسی کے لکھے شاہ نامہ کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی۔ یہ فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے، جو 1000ء میں لکھی گئی۔
اس شعری مجموعے میں ’’عظیم فارس“ کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ شاہ نامہ میں تمام واقعات منظوم انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔نیز، عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایرانی تہذیب و ثقافت میں شاہ نامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جسے اہلِ دانش، فارسی کی انتہائی لاجواب ادبی خدمت میں شمار کرتے ہیں۔ یاد رہے، فارس کے دو مشہور کردار، رستم اور سہراب کا تفصیلی بیان بھی اس کتاب کا حصّہ ہے۔
کیمیا گر(The Alchemist): یہ برازیلی مصنّف پاولو کویلہو کی مشہور کتاب ہے، جو 1988ء میں پرتگالی زبان میں شایع ہوئی۔ تقریباً ایک سو پچاس ممالک میں پڑھے جانے والے اس ناول کی ساڑھے چھے کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور اب تک اس کتاب کا 65سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔کتاب کی وجۂ شہرت اس کی کہانی اور مصنّف کا طرزِ بیان ہے۔ اس کہانی کا ہیرو اسپین کا ایک گڈریا ہے، جو مدفون خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے، مگر کتاب کے آخر میں راز کُھلتا ہے کہ خزانہ اُس کے قریب ہی دفن تھا۔
کہانی میں پڑھنے والے کو جہدِ مسلسل اور اپنی ذات پر اعتماد رکھنے کا درس ملتا ہے۔ جب کہ خزانے کی تلاش کے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کا بیان انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نصیحت آموز روشنی ڈالتا ہے اور کتاب کا اختتام انسان کو اپنے مقدر پر شاکر رہنے کا درس دیتا ہے۔ ناول میں انسان اور قدرت میں موجود تعلق پر بھی فلسفیانہ بحث کی گئی ہے۔ مصنّف نے چرواہے کو مثال بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا میں موجود ہر انسان کی ایک منزل ہے اور اُسے پہچاننا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔
گِنجی کی کہانی (Tale of Genji): گیارہویں صدی عیسوی میں جاپانی زبان میں لکھے گئے اس ناول کی مصنّفہ ایک خاتون مرساکی شیکیبو ہیں۔ گِنجی کی داستان کو ادبی مؤرخین، عالمی ادب کی اوّلین کہانی مانتے ہیں۔ ناول کی کہانی جاپانی شاہی خاندان کے گرد گھومتی ہے، جس میں محلوں میں ہونے والی محبتوں اور بے وفائیوں کا احاطہ کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک جاپانی شہنشاہ ایک حسین عورت کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اُس کی وجہ سے اُس کی دوسری بیویاں حسد کا شکار ہوکر بادشاہ کے خلاف نت نئی سازشیں شروع کردیتی ہیں۔
پھر اُس حسین عورت کے یہاں ایک بیٹا (گِنجی) پیدا ہوتا ہے، جو اپنی ماں کی طرح بے حد خوب صورت ہونے کی وجہ سے مملکت کا پسندیدہ شہزادہ بن جاتا ہے۔ کہانی میں کرداروں کی بھر مار ہے اور اس کا پلاٹ پیچیدہ اور طویل ہے، جس کی زبان اور منظر کشی کو سمجھنا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہے، لیکن اس کے تراجم انگریزی، فرانسیسی اور اُردو سمیت دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ہوچکے ہیں۔
مراۃالعروس: اردو زبان کا شمار اگرچہ قدیم زبانوں میں نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اردو میں اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کیا گیا ہے اور اس زبان کی بہت سی ادبی تخلیقات کے تراجم دوسری زبانوں میں بھی کیے جارہے ہیں۔ اردو افسانے، ناول اور شاعری اپنے تراجم کی بدولت پوری دنیا میں پہنچ چکےہیں۔
معروف ناول نگار، ڈپٹی نذیر احمد کے مشہور ناول، ’’مراۃ العروس‘‘ کو بجا طور پر عالمی ادبی شاہ کاروں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔1860ء کی دہائی میں شایع ہونے والے اس ناول کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد ہی اس کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ ’’مراۃ العروس‘‘ کے لفظی معنی ’’دلہن کا آئینہ‘‘ ہیں۔ یہ ایک اصلاحی، معاشرتی ناول ہے، جس کی کہانی گھریلو خواتین کی تربیت کے گرد گھومتی ہے، جب کہ کردار نگاری ناول کی دوسری اہم خصوصیت ہے۔ اس ناول کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔
ڈان کے خوٹے (Don Quixote): ہسپانوی ادب کی سب سے مشہور شخصیت مگوئل ڈی سروینٹیز(1547ء-1616ء) کی بحیثیت ناول نگار، ڈراما نگار اور شاعر بہت سی معرکتہ الآرا ادبی تخلیقات ہیں۔ ہسپانوی زبان میں ان کے ناول ’’ڈان کے خوٹے‘‘ کو جدید یورپی ادب کا پہلا ناول قرار دیاجاتا ہے۔متعدد عالمی زبانوں میں بھی اس کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ ہسپانوی ادب میں سب سے زیادہ مؤثر اور معروف گردانے جانے والے اس ناول کی اب تک دس کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
یہ ناول انتہائی دل چسپ انداز میں لکھا گیا ہے، جس کی کہانی ایک عام، سادہ سے انسان کے گرد گھومتی ہے، جسے بہادر نواب بن کر دنیا گھومنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے وہ اس سفر میں بہت عجیب و غریب اور پرمزاح حرکتیں کرتا ہے۔ اکثر اوقات ناول کا ہیرو ’’ڈان کے خوٹے‘‘ عام فہم چیزوں کو اپنی کم علمی کے باعث انتہائی مشکل بناڈالتا ہے اور قاری اُس کی اس سادہ لوحی پر دل کھول کر ہنسے بغیر نہیں رہ پاتا۔ ناول اگرچہ بہت ضخیم ہے، مگر اپنی کہانی اور مزاح کی بدولت پڑھنے والے کی توجّہ کہیں بھی کم نہیں ہوتی۔
آفت زدہ(Les Miserables): عالمی ادب میں فرانسیسی ادیب ’’وکٹر ہیوگو‘‘ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، جس کی ایک وجہ اس کا مشہورِ زمانہ ناول ’’Les Miserables‘‘ ہے۔ اس ناول کا شمار دنیا کے عظیم اور بڑے ناولز میں ہوتا ہے، جسے انگریزی زبان کے علاوہ 22ممالک کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ناول کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے، کس طرح فرانس کے ماضی کا ایک پورا عہد اس ناول کے خیال اور کرداروں میں سانس لے رہا ہے۔ وکٹر ہیوگو فرانسیسی ادیب، شاعر، ڈراما نویس، صحافی اور سیاست دان تھا، اُسے اُنیسویں صدی کا سب سے بڑا فرانسیسی ادیب تسلیم کیا جاتا ہے۔
ابتدا میں اُس کی شہرت بطور شاعر تھی، لیکن وہ ناول نگار اور ڈراما نویس کی حیثیت سے بھی بتدریج مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل اس کے لکھے گئے ناول Les Miserables کی کہانی بھی بے حد دل چسپ ہے۔ وکٹر ہیوگو نے1845ء میں یہ ناول لکھنا شروع کیا اور1861ء میں یہ اختتام پذیر ہوا۔ دنیا کے عظیم ناولز میں شمار ہونے والے اس ناول کو ہمیشہ مقبول رہنے والے25 بڑے ناولز میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔
گیتانجلی: بنگالی مصنّف، رابندرناتھ ٹیگور کی شہرئہ آفاق تصنیف ’’گیتانجلی‘‘ 1910ء میں شایع ہوئی۔ گیتانجلی سے مراد ’’عقیدت بھرے گیت‘‘ ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت پررابندرناتھ ٹیگور کو 1913ء میں ادب کے نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ گیتانجلی کی شعری کائنات کا خمیر موسیقی، شاعری اور محبت کے ابرنیساں سے گوندھا گیا ہے اور اس میں استعارات، علائم، اشارات کائنات، موسیقی اور پریم راگ وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل ٹیگور نے اپنی تصنیف کو رومی کی طرح ہند ایرانی اور مختلف ہنداسلامی معتقدات اور الوہی نغمات کا آئینہ خانہ بنادیا۔ ’’گیتانجلی ‘‘کے بھی متعدد زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔
جنگ اور امن(War and Peace): روسی مصنّف، لیو ٹالسٹائی کا یہ ناول عالمی ادب کا ایک مرکزی کام اور ان کی بہترین ادبی کاوشوں میں سے ایک ہے۔ٹالسٹائی نے اسے 1862ء میں لکھنا شروع کیا تھا، جو سات برس میں مکمل ہوا۔ اس ناول میں300سے زائد کردار ہیں۔ وسعت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے یہ ایک لافانی تخلیق ہے۔ ناول کا دَور 19ویں صدی کے آغاز کے25برس ہیں اور اس میں انتہائی بے باک انداز میں روسی معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور کھوکھلے پن کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ناول میں نپولین بوناپارٹ کی روس پر جنگ کشی، امن کے وقفے اور دوبارہ حملہ آور ہونے کے دَور کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا بھی دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور جہاں جہاں عالمی ادب پڑھایا جاتا ہے، وہاں ٹالسٹائی کا یہ ناول نصاب کا حصّہ ہے۔
مشرقی سرحد پُرسکون ہے(All Quite On The Westren Front): جرمن مصنّف، اریچ ماریا ریمارکی نے یہ ناول 1929ء میں لکھا۔ اس کا موضوع جنگِ عظیم اوّل کی ہول ناکیاں اور تباہ کاریاں ہیں۔ ناول کاہیرو ایک نوجوان لڑکا ہے، جو وطن کی محبّت سے متاثر ہوکر جنگ میں شامل ہوجاتا ہے، مگر جلد ہی اُسے جنگ کی ہول ناکیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُس کے دوست مختلف محاذوں پر دشمن کا نشانہ بن جاتے ہیں اور وہ مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہوا ہر خطرے سے بچ نکلتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل مارا جاتا ہے۔ اب تک اس کتاب کی دو کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور اس کہانی کو کئی بار فلم بند بھی کیا گیا ہے۔
ہیملٹ(Hamlet): شیکسپیئر کا شمار انگریزی ادب کے عظیم ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈرامے اپنے دَور سے لے کر آج تک لوگوں کو متاثر کرتے آئے ہیں۔ اور یہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ ’’ہیملٹ‘‘ شیکسپیئر کے لکھے ہوئے مقبول ترین ناول’’ہیملٹ، اے گھوسٹ اسٹوری‘‘ کی ڈرامائی شکل ہے۔ یہ ایک ایسا ڈراما ہے، جس میں جاسوسی پر مبنی انتقامی کہانی کو ایک کلاسیکل پلاٹ کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ ہیملٹ دراصل ڈنمارک کا ایک شہزادہ ہے، جو اپنے والدکے قاتل (کلاڈیو)سے انتقام کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہیملٹ پر1970ء تک دس ہزار سے زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گئے۔