• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے یہاں مسلسل بحران کا عہد ہے۔ تانتا سا بندھا ہوا ہے، یکے بعد دیگرے بحران چلا آرہے ہیں۔ سیاسی بحران، معاشی بحران، تہذیبی بحران، ارضی و سماوی آفات کا پیدا کردہ بحران، باہمی اعتبار و اعتماد کا بحران اور سب سے بڑھ کر حس و شہود کا بحران۔ یوں تو ان میں سے ہر بحران اپنی جگہ سنگین اور مضرت رساں ہے، لیکن آخرالذکر تو خدا محفوظ رکھے، ہماری انسانیت کے درپے ہے۔ ذرا غور تو کیجیے، آج ہمارے آس پاس بلکہ سامنے جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اسے یوں دیکھ رہے ہیں جیسے نہیں دیکھ رہے، گویا ہمارا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

قومی ابتلا، اجتماعی بحران، سماجی و سیاسی مسائل، تہذیبی ابتری اور انتشار و افتراق کی ایسی صورتِ حال جیسی اس وقت ہمارے یہاں ہے، اس میں ادیب کو سوچنا ہو گا کہ اس کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟

معاشرے کے اور بھی ادارے اور افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حالات میں سامنے آئیں اور آواز اٹھائیں، کم سے کم ادیبوں شاعروں کی طرف سے تو کوئی آواز، کوئی سوال، کوئی ردِعمل آنا چاہیے۔ کچھ تو ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے ہمیں اپنے اجتماعی وجود، اپنی ہیئتِ کلی کا کوئی ثبوت فراہم ہو پائے۔ ہم جان پائیں کہ قومی، تہذیبی، اجتماعی سطح پر ہم زندہ اور باہم مربوط ہیں۔ زندگی کا جو تجربہ ہمارے اردگرد وقوع پذیر ہے، بے شک ہم اپنی انفرادی حیثیت میں اسے روکنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہیں، لیکن ہم اسے قبول بھی نہیں کرتے۔

آخر کیوں؟ کیا یہ وقت بولنے، جاگنے، سوال اٹھانے اور جگانے کا تقاضا نہیں کرتا؟

بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ وقت ایسا کوئی تقاضا نہیں کرتا۔ کرتا ہے جناب اور پوری شدت سے کرتا ہےتو کیا ہمارے یہاں ادیب شاعر سب کے سب اٹھ گئے، ادب کی بساط لپیٹی جاچکی؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ شعر، افسانہ، تنقید، ناول، تحقیق، ترجمہ، سبھی کچھ تو ہو رہا ہے۔

پھر یہ خاموشی چہ معنی؟

اس کا جواب تو ادیب شاعر ہی دے سکتے ہیں۔ان کی طرف سے کچھ ٹوں ٹاں بھی سنائی دے رہی ہوتی تو پھر سوال کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اصل میں ہمارے ادیب نے اپنے اجتماعی وجود کی طرف سے بے حسی اور لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔ بات صرف اتنی بھی ہوتی تو اندوہ ناک کہلاتی، لیکن معاملہ اس سے سوا ہے، یعنی اب قوم کو بھی ادیب کی ضرورت کا احساس نہیں رہا ہے۔ وہ بھی اب ایسی کسی صورتِ حال میں ان کی طرف نہیں دیکھتی۔ معلوم نہیں سماج کو اُن کی طرف سے صبر آگیا ہے یا اُنکی بے وقعتی اور بے اثری کا یقین کر لیا ہے۔ 

یہ سمجھ لیا ہے کہ ادیب شاعر تو بے چارے اپنی خیالی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں، ان کی آنکھیں وقت کے تغیرات کی چکا چوند کو سہار سکتی ہیں اور نہ ہی ترقی کے نام پر امڈ کر آتے ہوئے اندھیروں کے پردے چاک کرکے ان کے اندر اتر سکتی ہیں، لہٰذا اب ان کی طرف کسی امید، کسی توقع، کسی سہارے کے لیے دیکھنا ہی عبث ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ جو آئے دن کتابیں اور رسالے شائع ہو رہے ہیں، ملک کے مختلف شہروں میں کتابوں کے سالانہ میلے، کانفرنسز اور سیمینارز ہو رہے ہیں، ان سب کا آخر کیا مطلب ہے؟ کیا یہ سب میلہ مویشیاں قسم کی کسی تفریح کا سامان ہے اور کیا یہ اسباب، ذرائع اور وسائل کا زیاں نہیں ہے؟

ن م راشد نے اپنے ایک خط میں اعجاز حسین بٹالوی کو لکھا کہ وہ اُن کے پبلشر کے پاس جائیں اور دریافت کریں کہ وہ ان کی کتاب کا ایڈیشن کس تعداد میں لا رہا ہے، ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی کہ اگر وہ اکیس سو (۲۱۰۰) سے کم تعداد کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے بتا دیا جائے کہ کتاب کی اشاعت کا معاہدہ اس سے نہیں ہوسکتا۔ راشد ہمارے عوامی مقبولیت رکھنے والے شاعروں میں نہیں ہیں، یعنی اختر شیرانی، مجاز اور جاں نثار اختر کی بات نہیں ہو رہی، راشد کا ذکر ہے، ایک ایسے شاعر کا جس کے موضوعات اور طرزِ اظہار دونوں ایک سنجیدہ اور باشعور قاری کا تقاضا کرتے ہیں جو ادب و شعر کو محض وقت گزاری کے لیے نہیں پڑھتا بلکہ اس کے توسط سے حیاتِ انسانی کے معنی کا فہم حاصل کرتا ہے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اچھی خاصی اہم کتاب کا ایڈیشن بھی اڑھائی سو اور تین سو تک آچکا ہے۔

سوچنا چاہیے، کیا ہمارے یہاں پڑھنے لکھنے کا رجحان رخصت ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو ہزار رنج کے ساتھ ہی سہی، اس کو ایک بار تسلیم کر لینا ہی حقیقت پسندی ہے لیکن اب اس مشکل کا کیا کیا جائے کہ یہ جواب اثبات میں نہیں نفی میں آتا ہے۔ یہ بات مشاہدے نہیں، ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہی گئی ہے۔ کراچی، لاہور، راول پنڈی، اسلام آباد اور ملتان جیسے شہروں میں مطالعے کے رجحان کے بارے میں تو کتنے ہی لوگ صورتِ حال بیان کرسکتے ہیں لیکن ہم نے تو دیکھا ہے کہ نواب شاہ، میرپور خاص، کنڈیارو، شجاع آباد، کبیر والا، خوشاب، مردان، خضدار جیسے علاقوں سے لوگ رابطہ کرتے اور کتاب منگواتے ہیں، اور ان میں پرانی اور نئی دونوں نسلوں کے لوگ شامل ہیں۔ اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ یہ لوگ کیا پڑھتے ہیں؟

آج کے لکھنے والوں کی کتابیں کم کم، جب کہ سینئر اور پرانے ادیبوں کی نگارشات کہیں زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ اس دور کے قارئین اپنے سنجیدہ، تہذیبی شعور، ثقافتی حقائق اور سماجی رویوں سے ہم آہنگ ادیبوں سے غافل نہیں ہیں۔

اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ عہدِ موجود اور اس کے لوگ بھی پڑھے جانے والے ادیبوں اور ان کے کام سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ کہ وقت کے سارے تغیرات اور زندگی کے بدلتے ہوئے رجحانات کے باوجود مطالعے کا ذوق یکسر ختم نہیں ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پڑھنے کا تناسب جو گزشتہ ادوار میں رہا ہے، آج وہ بہرحال نہیں ہے۔

اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن ہے کہ سنجیدہ قارئین کے یہاں اس دور کے ذرا کم لکھنے والوں اور اگلوں کی نسبت اپنے پڑھنے والوں کا حلقہ کم بنایا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خود اس عہد کے ادیب کا رویہ ہے، مغائرت اور بے حسی کا رویہ۔ پہلے اس نے اپنے سماج سے عدم توجہی اختیار کی ہے، اپنے سماجی رشتے سے اغماض برتا ہے، وہ روحِ عصر سے غافل ہوا ہے، اپنی تہذیبی ذمہ داری سے اس نے روگردانی کی ہے۔

یہاں ادیب کی آزادی اور خودمختاری سے انکار نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی اس کے تخلیقی عمل کو بھاڑے کی شے بنانے کا سوال اٹھایا جارہا ہے، ادیب کو سماجی اصلاح کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں سونپی جارہی اور نہ ہی اس کے کام کو معاشرے کے لیے مقیاس الحرارت بنانے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ ادیب سے قومی یک جہتی اور استحکام کے نعرے خلق کرنے کا سوال بھی نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کہا جارہا ہے کہ اُس کے لکھے ہوئے لفظ کو بہر صورت ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔ نہیں، ایسے کسی وظیفے کی بجا آوری کا مطالبہ ادب اور ادیب سے نہیں ہے،تاہم ادیب کا اپنے معاشرے سے ایک رشتہ تو ہوتا ہے، لگائو کا نہ سہی، لاگ کا سہی، دل داری کا نہیں، دل فگاری کا سہی— راحت کا نہیں، زحمت کا سہی۔ 

اس رشتے کا اظہار اُس کے کام میں عملاً ہونا چاہیے۔ دیکھیے، ادب اور ادیب کی حیثیت اپنی جگہ، اس کا مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ غفلت، بے حسی اور مغائرت کا ہے۔ ایک لمحہ سوچ کر دیکھیے، اگر ادیب ملک و قوم سے بیگانہ بھی ہوگا تو کس حد تک اور کن حالات میں۔ ادیب اپنے سماج کو تباہی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یا کسی ابتلا کے زمانے میں تو وہ اس سے لاتعلق نہیں ہوسکتا۔ ایلیٹ تو اپنی قوم، اس کی روایات و اقدار اور اداروں سے اپنی کھلم کھلا وفاداری کا اعلان کرتا ہے، اسی طرح روس، جاپان اور چین کے ادیبوں میں اکثریت ملک و قوم کا دم بھرتی نظر آتی ہے۔ 

دوسری طرف ایذرا پائونڈ پر ریاست کی طرف سے مقدمہ چلا، کامیو کا ایک دور وطن پرستی کا ، دوسرا دور حکومت اور ریاستی پالیسی کی مخالفت کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیب کا ملک و قوم سے رشتہ اتفاق یا اختلاف دونوں طرح کا ہوسکتا ہے، لیکن رشتہ خواہ کچھ بھی ہو، سچائی اور اخلاص سے خالی نہیں ہوگا، اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اس رشتے کی تشکیل میں ملک و قوم کے رویے اور ان کے معروضی حالات کا بہرحال ایک دخل ہوگا۔ سو بس طے ہوا کہ ادیب اپنی قوم اور ملک کے حالات سے خوش یا ناخوش تو بے شک ہو سکتا ہے، لیکن ان سے غافل، لاتعلق اور بے حس ہرگز نہیں۔

ہمارے یہاں کیا صورتِ حال ہے؟ہمارے ادیبوں شاعروں کی اکثریت بلکہ معدودے چند ایک کو چھوڑ کر سب کے سب آج دیکھ لیجیے کہ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ اپنے زمانے اور اس کے اٹھائے ہوئے سوالات، اپنی قوم اور اُس کے احوال، اپنے ملک اور اُس کو درپیش حالات و مسائل سے اب انھیں ایسی کوئی خاص دل چسپی دکھائی نہیں دیتی۔ عصری اور قومی تقاضوں سے انھیں اب کوئی علاقہ نہیں رہا ہے۔ ممکن ہے، اپنے اس رویے کے لیے اُن کے پاس کوئی ذاتی جواز ہو، لیکن مغائرت اور بے حسی کے لیے ذاتی یا نجی نوعیت کا کوئی جواز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ راں بو اپنی قوم کو بُرا کہتا تھا تو اس کا سبب قوم میں سرایت کیے ہوئے وہ رویے تھے جو اس کے تئیں انسانی احساس کی نفی کے مترادف تھے۔ 

کامیو الجزائر کے مسئلے پر ملک و قوم پر بگڑا تھا تو اس کی بنیاد بھی انسانی حقوق کے سوال پر تھی۔ سولزے نٹسن نے روس کو بُرا کہا اور جلاوطنی اختیار کی تو اس کا سبب بھی نئے روس میں انسانی صورتِ حال تھی۔ ادیب کا حق ہے کہ وہ ضروری محسوس کرے تو ملک و قوم سے بگڑ جائے، اکھڑ جائے، لیکن اس کا جواز انسانی نوعیت کا ہوگا یا پھر تہذیبی و قومی سطح کے معاملے کا۔ اس سے کم تر سطح کا کوئی عذر، سبب یا جواز لائقِ اعتنا نہیں ہوسکتا، اپنے سماج اور اُس کے احوال سے بے حسی یا لاتعلقی تو کسی صورت میں بھی ادیب اختیار نہیں کرسکتا۔ یہ تو خود اس کی اپنی ادبی حیثیت کی نفی کے مترادف ہے۔

عہدِ حاضر میں ہمارے ادیب اپنے ادبی اور انسانی حقوق کے معاملے میں تو حساس نظر آتے ہیں اور انھیں قوم سے اور حکومت سے بہت شکایتیں ہیں۔ مانا کہ ان میں کچھ درست بھی ہوں گی، لیکن جب انہوں نے اپنے ادبی کردار اور ذمہ داری سے بے حسی کا رویہ اختیار کر لیا ہے تو وہ ملک و قوم سے اپنے حقوق کا سوال آخر کس منہ سے کر سکتے ہیں۔ کامیو کی گرفتاری کے سوال پر صدر ڈیگال نے کہا تھا کہ کامیو تو فرانس ہے، اسے کیوں کر گرفتار کیا جاسکتا ہے، یعنی وہ اس ملک و قوم کی روح ہے، اس کا شعور ہے، اس کے احساس اور ضمیر کی آواز ہے۔ ایک زمانے میں یہ کردار ہمارے یہاں بھی ادیبوں کا رہا ہے۔

وہی محمد حسن عسکری جو ترقی پسندوں پر برستے رہتے تھے، جب اس تحریک پر پابندی لگی تو اس جبر کے خلاف اور ترقی پسندوں کے حق میں پہلی آواز عسکری صاحب ہی نے اٹھائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ادیب کی آزادی پر حملہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حبیب جالب اور شورش کاشمیری میں فکری اور نظریاتی لحاظ سے تضاد و تخالف کا رشتہ تھا، لیکن ایک بار جب جالب کو پولیس نے گرفتار کر لیا تو اُن کی آزادی اور داد رسی کے لیے سب سے پہلے شورش ہی پہنچے تھے۔ اسی طرح اسّی کی دہائی میں حبیب جالب کی مالی اعانت کے لیے ایک ایسے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مشاعرہ پڑھنے والے شاعروں اور سننے والوں نے پانچ سو روپے کا ٹکٹ خرید کر شرکت کی تھی۔ 

اس دور میں یہ اچھی خاصی معقول رقم تھی۔ اس کا اندازہ یوں کیجیے کہ اس وقت الحمرا کے تھیٹر کی اگلی نشستوں کا ٹکٹ بھی تقریباً اس کے نصف کے مساوی تھا۔ اس مشاعرے کے لیے ہم نظریہ لوگوں نے ہی نہیں اہلِ روایت، حلقۂ اربابِ ذوق اور جماعت کے ادیبوں شاعروں نے بھی ٹکٹ خریدے تھے۔ مراد یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی ادب کی دنیا کے لوگ اپنے ذاتی اور نظریاتی معاملات سے بلند ہو کر اپنے ادبی شعور اور تہذیبی کردار کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔

یہ کوئی دو اڑھائی سو سال قبل کے واقعات بھی نہیں ہیں، یہی کوئی پینتیس چالیس برس پہلے تک ہمارے یہاں ایسے ہی حالات اور ایسے ادیب شاعر ہوا کرتے تھے۔ سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان چار دہائیوں میں آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ ہمارے ادیب کا کردار، اس کا ادبی شعور اور سماجی و اجتماعی ضمیر سب کا سب بدل کر رہ گیا ہے۔ ادیب اور سماج کے رشتے کی کایا کلپ ہوگئی ہے، کیا اس تبدیلی کو ہم زمانے کے تغیر کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہوسکتے ہیں؟

اس حقیقت الامر کا اعتراف مشکل، تکلیف دہ اور شرم ناک ہے، لیکن ہمیں ذرا ہمت کرکے یہ بات مان لینی چاہیے کہ آج ہمارا ادیب مصلحت کیش، دنیا طلب اور آسائش پسند ہوگیا ہے۔ آج دنیاوی فائدوں کا حصول، منفعت کی کاوش، عہدوں کی جستجو، کانفرنسز، سیمینارز اور مشاعروں کی دوڑ کے سوا اس کے پیشِ نظر نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اپنے لیے کسی ذمہ داری اور کردار کا احساس۔ قومی، تہذیبی اور اجتماعی ضمیر کی آواز تو رہی ایک طرف، اب تو اس کے پاس خود اپنے ضمیر کی آواز بھی شاید باقی نہیں رہی۔

ممکن ہے، یہ باتیں کچھ زیادہ سخت ہوں اور ضرورت سے زیادہ ملال اور مایوسی کا اظہار کرتی ہوں۔ چلیے یوں ہی سہی، لیکن ایک بار کہہ لینے کے بعد ممکن ہے، ہمارے یہاں بعض لوگ اور کچھ نہیں تو کم سے کم اس غفلت سے نکلنے کے بارے میں سوچنے پر ہی آمادہ ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو فبہا، فرضِ کفایہ پورا ہوا۔ صحرا میں اذان دینا کارآمد ٹھہرا اور ایسا نہیں ہوتا تو کم سے کم ایک بات تو طے ہو جائے گی کہ اب ہمارے یہاں ادب اور ادیب تو سرے سے رہے نہیں، ہاں ایک ڈھکوسلا ادب کے نام سے ضرور چل رہا ہے اور یہ ادب کے نہیں، حصولِ دنیا کے لیے ہے تو چلیے، ہم نہیں، ہمارے بعد سہی، دیکھنے والے دیکھ لیں گے کہ یہ کھلواڑ کے دن بھی۔