مرزا اسداللہ خاں غالب نے جہاں نظم و نثر میں اپنی اُپج اور جودتِ طبع سے ناقابلِ تقلید نمونے چھوڑے وہاں انھوں نے املا اور زبان کے ضمن میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے مزاج کے مطابق تقلید کی روش سے ہٹ کر بات کی۔
اردو زبان اور املا سے متعلق اپنے بیش تر خیالات غالب نے اپنے خطوط میں پیش کیے ہیں۔ اکثر اپنے شاگردوں یا دوستوں کے نام خط میں کسی قواعدی یا املائی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے غالب نے کچھ اصول بھی بیان کیے ہیں اور کچھ تصحیحات بھی کی ہیں۔
ان میں سے کچھ نکات پیش ہیں۔ یہ نکات جامع القواعد (ازقبلہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب )، املاے غالب (از رشید حسن خاں)،غالب ِ صد رنگ (از سید قدرت نقوی)، مقالاتِ صدیقی (از عبدالستار صدیقی )، گنجینۂ غالب (از قاضی عبدالودود) اور غالب کے خطوط (از خلیق انجم ) سے ماخوذ ہیں۔
۱۔ ہاے مختفی کے بجاے الف کا استعمال:
غالب کا کہنا تھا کہ عربی اور فارسی کے الفاظ کے آخر میں تو ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘ جو مثلاً زمانہ اور دیوانہ جیسے الفاظ میں آتی ہے اور الف کی آواز دیتی ہے) آسکتی ہے لیکن اردو یا ہندی کے الفاظ کے آخر میں الف لکھنا چاہیے۔ غالب کی اس راے کی بعد میں آنے والے ماہرین مثلاً عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں نے بھی تائید کی۔
رشید صاحب نے لکھا ہے کہ ہندی یا اردو کے الفاظ ، مثلاً اڈہ، انڈہ، بھروسہ، سمجھوتہ، تانگہ، پسینہ، مہینہ، دھوکہ ، کلیجہ وغیرہ کے آخر میں ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘ ) لکھنا غلط ہے اور ان کا درست املا اڈا، انڈا، بھروسا، سمجھوتا، تانگا، پسینا، مہینا، دھوکا، کلیجا وغیرہ ہے۔ گویا اس معاملے میں غالب کی راے درست تھی۔
۲۔ذال کے بجاے زے کا استعمال:
غالب کا خیال تھا کہ حرفِ ذال (ذ) عربی حروف ِ تہجی کا حصہ ہے اور فارسی زبان میں ذال نہیں ہے اور اسی لیے وہ یہ تاکید کرتے تھے کہ فارسی الفاظ میں ذال نہ لکھی جائے اور ایسے فارسی الفاظ اردو میں بھی ذال(ذ) کے بجاے زے (ز)سے لکھے جائیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فارسی زبان میں ذال کا وجود ہے اور قدیم زمانے سے ہے۔
قاضی عبدالودود، پروفیسر نذیر احمد، قدرت نقوی ، عبدالستار صدیقی سب کا یہ خیال ہے کہ ذال کے مسئلے پر غالب کی رائے درست نہیں۔ عبدالستار صدیقی نے لکھا کہ ’’ہمارے ملک میں کچھ اوپر سو برس سے یہ مسئلہ زیرِ بحث ہے کہ فارسی لفظوں (گذشتن ، پذیرفتن وغیرہ) میں ’’ذ‘‘ لکھنا چاہیے یا ’’ز‘‘۔ اس بحث کا آغاز مرزا غالب کے اس دعوے سے ہوا کہ فارسی زبان میں ذالِ معجمہ نہیں ہے‘‘ ۔صدیقی صاحب مزید لکھتے ہیں ’’اس اجتہاد کے خلاف کسی نے کچھ کہا تو مرزا صاحب نے نہ مانا اور ’’ذ‘‘ کی جگہ ’’ز ‘‘(یا کسی لفظ میں ’’د’’) لکھتے رہے‘‘۔
اس کے بعد صدیقی صاحب نے الطاف حسین حالی کی رائے پیش کی ہے جو غالب کے شاگرد بھی تھے۔ حالی نے یادگار ِ غالب میں لکھا ہے کہ بعض الفاظ کا املا غالب اہلِ زباں اور زبان دانوں کے برخلاف دوسری صورت میں لکھتے تھے، مثلاً غلطیدن اور طپیدن کو غلتیدن اور تپیدن (یعنی ط کے بجاے ت) اور گذشتن اور گذاشتن کو گزشتن اور گزاشتن (یعنی ذال کے بجاے زے)۔
اس کے بعد حالی نے لکھا ہے کہ ’’ہم اس املا کو درست نہیں سمجھتے‘‘۔عبدالستار صدیقی ، قاضی عبدالودود، اور رشید حسن خاں جیسے ماہرین کی بھی یہی راے ہے کہ ٍگذشتن ، گذاشتن، اور پذیرفتن نیز ان سے بننے والے فارسی الفاظ میں ذال ہی درست ہے، مثلاً گذشتہ، پذیر، پذیرائی۔ اس معاملے میں غالب کی راے درست نہیں تھی۔
۳۔مرکبات میں ’’ے‘‘ پر ہمزہ :
غالب بعض اوقات بہت سخت الفاظ میں بھی املاکے مسائل پر اپنی رائے دیتے تھے۔ مثلاً مرزا تفتہ کو ایک خط میں لکھا: ’’یاے تحتانی تین طرح طرح پر ہے ‘‘ اور پہلی قسم بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہماے بر سرِ مرغاں ‘‘اور ’’عقلِ گرہ کشاے را‘‘ جیسے مرکبات میں ’’ے ‘‘ جزوِ کلمہ ہے۔ اور بقول ان کے ’’ اس پر ہمزہ لکھنا عقل کو گالی دینا ہے‘‘۔اسی طرح مرکبِ اضافی یا مرکب ِ تو صیفی یا مرکب ِ بیانی میں جہاں ’’ے‘‘ آئے وہاں بھی غالب کے خیال میں ہمزہ (ء)نہیں لکھنا چاہیے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ آشناے قد یم میں ’’ے‘‘ پر ہمزہ نہیں چاہیے۔ یعنی آ ج کل جو رواج ہو گیا ہے کہ باباے اردو، تمناے وصل، سوے مقتل ، آرزوے خواب ، رہنماے قوم وغیرہ جیسی تراکیب میں ’’ے ‘‘ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے (مثلاً بابائے اردو، ہمزہ کے ساتھ) وہ غالب کے خیال میں سراسر غلط ہے۔ یہ اور ایسے دیگر مرکبات ’’ے‘‘ پر ہمزہ کے بغیر ہی درست ہیں۔
یہی بات عبدالستار صدیقی، غلام مصطفی خاں اور رشید حسن خاں کہتے ہیں لیکن افسوس کہ اس درست بات کو ماننے پر کوئی بھی اردو والا راضی نہیں، ا ِ لّاماشاء اللہ، اور تقریباً سبھی ان مرکبات میں ہمزہ لکھتے ہیں جو اصولاً غلط ہے۔ اس معاملے میں بھی غالب کی راے درست تھی۔
۴۔پاؤں ، گاؤں ، چھاؤں وغیرہ کا املا:
غالب کا کہنا تھا کہ ان الفاظ میں نون غنے کی آواز آخر میں نہیں آتی بلکہ واو سے پہلے آتی ہے۔ اس لیے ان کا املا گانؤ(گ اںو)، پانؤ(پ اںو )اور چھانؤ(چھ اںو) (یعنی نون غنے کے ساتھ ) لکھنا چاہیے۔ عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں نے بھی سفارش کی ہے کہ ان الفاظ پر نون غنے کی علامت کے طور پر ہلال کا نشان (یعنی باریک چاند کا نشان) یا اردو کے آٹھ (۸) کے ہندسے کو الٹا کرکے ( اس طر ح ’’ ‘‘) لکھنا چاہیے۔
کئی الفاظ مثلاً ہنسی، چنبیلی، سنبھالنا ، چاند اور کانٹا وغیرہ کے املا اور تلفظ میں نون نہیں ہے بلکہ نون غنہ ہے۔ لیکن چھانو اور پانو وغیرہ کا یہ املا صوتی لحاظ سے درست ہونے کے باوجود اردو میں رائج نہ ہوسکا اور آج بھی لوگ انھیں پاؤں، گاؤں، چھاؤں ہی لکھتے ہیں۔ البتہ غالب کی راے اصولاً یہاں بھی درست تھی۔
۵۔ چاقو یا چاکو؟
غالب چاقو کو چاکو لکھتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ فارسی کے چاک سے ہے۔ لیکن غلام مصطفی خان صاحب نے لکھا ہے کہ چاقو فارسی کا نہیں بلکہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا املا چاقو درست ہے کیونکہ اس کا فارسی کے چاک یا چاک کردن (چاک کرنا) سے کوئی تعلق نہیں۔ غالب کی راے یہاں درست نہیں تھی۔
۶۔ تذکیر اور تانیث کا جھگڑا
یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان سیکھتے ہوئے غیر ملکیوں کو جو دشواریاں پیش آتی ہیں ان میں اردو کی تذکیر و تانیث ایک بڑی دشواری ہے۔ اس ضمن میں دو مسئلے ہیں، ایک تو یہ کہ اردو میں ہر شے کی جنس ہوتی ہے چاہے وہ جان دار ہو یا بے جان۔ دوسرا یہ کہ اردو کی تذکیر و تانیث قیاسی نہیں سماعی ہے۔ یعنی اس کا کوئی خاص اصول نہیں ہے اور کسی اہلِ زباں سے سن کر ہی معلوم ہوگا کہ کوئی چیز مذکر ہے یا مؤنث۔
اگرچہ اس سلسلے میں کچھ اصول اور قواعد طے بھی ہوئے ہیں لیکن ان میں مستثنیات بھی ہیں، جیسے ایک قاعدہ ہے کہ اردو کے تمام اسم جو یاے معروف (چھوٹی ی) پر ختم ہوتے ہیں مؤنث ہوں گے لیکن گھی مذکر ہے حالانکہ ’’ی ‘‘ پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح مولوی، پانی، دھوبی، نائی، موچی ، موتی ہیں کہ سب ’’ی‘‘ پر ختم ہوتے ہیں لیکن سب مذکر ہیں۔
بعض الفاظ ایک معنی میں مذکر ہیں اور ایک میں مؤنث، مثال کے طور پر آب اگر پانی کے معنی میں ہے تو مذکر ہے لیکن چمک کے معنی میں یا کاٹ کے مفہوم میں ہے تو مؤنث بولا جائے گا، مثلاً موتی کی آب (چمک)، تلوار کی آب(کاٹ یا تیزی)۔
ایک اختلافی پہلو یہ بھی ہے کہ ایک ہی لفظ کسی کے نزدیک مذکر ہے اور کسی کے خیال میں مؤنث، جیسے بلبل یا دہی۔ بلبل کو شعرا نے مذکر بھی باندھا ہے اور مونث بھی۔کوئی کہتا ہے دہی کھٹا ہے، کوئی کہے گا دہی کھٹی ہے۔ کچھ الفاظ ایک علاقے میں مذکر بولے جاتے ہیں تو دوسرے علاقے میں مؤنث۔
بلکہ بعض الفاظ ایک ہی علاقے میں مونث اور مذکر دونوں طرح بولے جاتے ہیں۔ غالب نے بھی تذکیر وتانیث کے موضوع پر اظہار ِ خیال کیاہے ، مثلاً میر مہدی مجروح کو ایک خط میں لکھا’’تذکیر و تانیث کا کوئی قاعدہ منضبط نہیں کہ جس پر حکم کیا جائے۔ جو جس کے کانوں کو بھلا لگے ، جس کو جس کا دل چاہے، اسی طرح کہے‘‘۔
قدرت نقوی کے بقول یہ اصول اہلِ زباں کے لیے ہے اور مہدی مجروح اہلِ زباں تھے۔ لیکن غالب کے ایک شاگرد میاں داد خاں سیاح اہلِ زباں نہ تھے ۔ ان کو غالب نے لکھا’’بھائی ! ہم نے تم کو یہ نہیں کہا تھا کہ تم مرزا رجب علی بیگ [سرور] کے شاگرد ہوجاؤ اور اپنا کلام ان کو دکھاؤ۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ تذکیرو تانیث کو ان سے پوچھ لیا کرو۔ دکن اور بنگالے کے رہنے والوں کو اس امرِخاص میں دلّی اور لکھنؤ کا تتبّع ضروری ہے ‘‘۔
انور الدولہ شفق کو ایک خط میں اس موضوع پرغالب نے یہ کہا’’تذکیر و تانیث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دہی ، بعض لوگ کہتے ہیں دہی اچھا ہے۔ بعض کہتے ہیں دہی اچھی ہے۔ قلم ،کوئی کہتا ہے قلم ٹوٹ گیا ، کوئی کہتا ہے قلم ٹوٹ گئی۔ فقیر دہی کو مذکر بولتا ہے اور قلم کو بھی مذکر جانتا ہے‘‘۔
اردو میں جن الفاظ کی تذکیر و تانیث کا جھگڑا ہے ان میں خلعت اور لغت جیسے لفظ بھی شامل ہیں۔ ایک اصول تو یہ ہے کہ عربی کے جتنے بھی اسم ِ کیفیت اردو میں مستعمل ہیں اور جن کے آخر میں ’’ت‘‘ ہے ان کو اردو میں مؤنث بولا جاتا ہے، جیسے دولت، حشمت، قدرت، فطرت، قوت، عزت، ذلت، قیامت، وغیرہ سب مؤنث ہیں۔
لیکن مستثنیات بھی ہیں، مثلاً شربت کے آخر میں ’’ت ‘‘ ہے لیکن یہ مؤنث نہیں، مذکر ہے (یعنی شربت میٹھا ہے نہ کہ میٹھی ہے)۔ البتہ لفظ لغت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ لوگ مذکر اور کچھ مؤنث بولتے ہیں یعنی کہیں لغت ہوتا ہے اور کہیں لغت ہوتی ہے۔ لیکن لفظ خلعت بھی مستثنیات میں شامل ہے اور اسے مذکر ہی بولا جاتا ہے حالانکہ اس کے آخر میں ’’ت‘‘ ہے۔غالب نے بھی خلعت کو مذکر ہی برتا ہے۔ مثلاً نواب رام پور کے نام خط میں لکھا ’’منگل ۳؍ مارچ کو جناب لفٹینینٹ گورنر بہادر نے خلعت عطا کیا ‘‘۔
اسی طرح لفظ فکر لکھنؤ میں مذکر اور مؤنث دونوں طرح مستعمل ہے لیکن غالب نے مذکر کہا ہے۔ داغ دہلوی نے فکر کو مونث لکھا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ فکر اگر خیال کے مفہوم میں ہے تو مذکر بولنا چاہیے، جیسے مجھے اس کا بڑا فکر ہے(یعنی بہت خیال ہے) اور تشویش یا اندیشہ کے مفہوم میں مؤنث ہے، جیسے میر انیس کا مصرع ہے:
ہر دم بشر کو چاہیے مرنے کی فکر ہو
مختصرا ً یہ کہ غالب جیسا ذہین اور عظیم فن کار زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بخوبی واقف تھا اور اس مسئلے پر اظہار ِ خیال بھی کرتا تھا۔ بلکہ فارسی کی مشہور لغت برہانِ قاطع پر غالب نے فارسی میں پوری کتاب قاطعِ برہان لکھ کر اس کی اغلاط کو واضح کیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ عظیم فن کار بھی انسان ہوتا ہے اور اس سے غلطی ہوسکتی ہے اور اسی لیے اس کی بعض باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔