11،اگست 1938کو کراچی، (برطانوی ہندوستان، موجودہ پاکستان) میں ایک پارسی خاندان میں آنکھیں کھولنے والی بیپسی سدھوا نے 25 دسمبر 2024 کو ہوسٹن (امریکا ) میں ہمیشہ کے لیئے آنکھیں بند کر لیں۔ ان کا شمار پاکستان کے مشہور انگریزی ناول نگاروں اور جنوبی ایشیا کی نمایاں ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔
وہ ایک منفرد اور بااثر ادبی شخصیت تھیں، انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے تاریخ، ثقافت، اور سماجی مسائل کو ایک نئی پہچان دی۔ ان کا کام نہ صرف برصغیر کی ادبی دنیا میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی بیشتر تحریریں تقسیم ہند، ثقافتی تنوع، اور خواتین کے مسائل پر مرکوز ہیں۔
کراچی میں پیدا ہونے والی، بیپسی سدھوا ،لاہور میں پلی بڑھیں، گرچہ ان کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا ،لیکن زندگی میں نام کما کر ایسی خاص الخاص بن گئیں کہ ان کے جانے سے ادبی دینا کا ایک عہد ختم ہو گیا۔ وہ بچی جس کےابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے، پولیو کا شکار ہوگئی، اُس وقت زندگی کی صرف پانچ بہاریں دیکھی تھیں جس کے باعث اس کا بچپن دیگر بچوں کے مقابلے میں مخصوص سرگرمیوں تک محدود ہو گیا تھا لیکن قلم کتاب ہاتھ میں لی، اور پھر وقت کے ساتھ اُس بچی کی سوچ کا دائرہ ایسا وسیع ہو ا،کہ اُس نے اپنی تحریروں اور کہانیوں کے ذریعے جنوبی ایشیائی ثقافت اور پارسی برادری کے تجربات کو بھی عالمی سطح پر متعارف کرایا۔
بیپسی ایک گجراتی پارسی خاندان میں 11اگست 1938 کو لاہور، ہندوستان پیدا ہوئیں۔ وہ باقاعدہ اسکول نہ جا سکیں لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت ملا۔ بیپسی کے مطابق، میری تعلیم کا نظام بکھرا ہوا تھا، لیکن میری پرائیویٹ ٹیچر نے مجھے اپنی پسند کے مضامین پڑھنے کی اجازت دی۔
11 سال کی تھی جب انہوں نے مجھے ’لٹل ویمن‘ پڑھنے کے لئےدی، جس نے میری دنیا کو وسیع کر دیا۔ بقول بیپسی کے پولیو کی وجہ سے میری دنیا بہت محدود تھی، اسکول نہ جانا، زیادہ رشتے دار نہ ہونا،صرف چند دوست، لیکن کتابوں نے مجھے انسانی تعلقات کے بارے میں سکھایا۔ میں نے کتابیں اور کامکس خوب پڑھے۔
ابتدائی تعلیم لاہور کے مشنری اسکولوں سے حاصل کی۔ کنیئرڈ کالج،لاہور سے گریجویشن کیا۔1970 کی دہائی میں لکھنا شروع کیا۔ شہرت ناول نگاری سے ملی۔
ان کے ناول انسانی جذبات، سماجی تضادات، اور تاریخی پس منظر پر مبنی ہیں۔ ان کا ایک اہم ناول ’’کرینکنگ انڈیا‘‘ ( "Cracking India") ہے، جسے ابتدائی دور میں ’’آئس کینڈی مین‘‘ کہا گیا۔ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ اس پر مبنی فلم "Earth" 1998 میں بنائی گئی، جس کے ہدایتکار دیپک مہتا تھے۔ اس کی کہا نی نے لوگوں کے دل جیت لیئے۔
اس کے بعدایک اور ناول’’دی کرو ایٹرز‘‘ (The Crow Eaters ) ،1978 میں قلم بند کیا، اس میں تقسیم ہند سے پہلے کے دور میں پارسی زندگی کی عکاسی کی گئی، کمیونٹی کی ثقافت، روایات، اور مشکلات کو بہت خوب صورت اور مزاحیہ انداز میں لکھا۔ ان کا ایک اور معروف ناول این امریکن برٹ (An American Brat) ہے، جس میں ایک نوجوان پارسی لڑکی کے امریکہ جانے اور وہاں کی ثقافتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کے تجربات کو بیان کیا گیا ہے۔
2006 میں، سدھوا نے، دیپک مہتا کی فلم "Water" سے متاثر ہو کر ’’ واٹر‘‘ کے عنوان ہی سے ناول لکھا ، جو بیوائوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ہندوستانی سماج کے سخت اصولوں پر مبنی ہے۔ بیپسی سدھوا کی تحریروں میں، تقسیم ہند کے اثرات اور پارسی کمیونٹی کی ثقافت کے علاوہ ،خواتین کے حقوق ان کی جدوجہد، سماجی اور مذہبی تضادات، ثقافتی ہم آہنگی اور ٹکراؤ وغیرہ شامل ہیں۔
بیپسی سدھوا نے بین الاقوامی سطح پر کئی اعزازات حاصل کیے، جن میں 1991 میں پاکستان کا ستارہ امتیاز، ریڈکلف/ ہارورڈ کا بنٹنگ فیلوشپ، اور لیلا والیس-ریڈر ڈائجسٹ رائٹرز ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کا کام جنوبی ایشیائی ادب کو عالمی سطح پر نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بیپسی شادی کے بعداپنے شوہر کے ساتھ بمبئی منتقل ہوگئیں، جہاں بڑی پارسی برادری آباد ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا، یہ میرے لیے ایک دلکش تجربہ تھا، پہلی بار اپنی کمیونٹی میں شامل ہونا اور اُن سے جو کچھ سیکھا، وہ اپنی کتاب ’دی کاؤ ایٹرز‘ میں شامل کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم کتنی دلچسپ اور مزاح پسند کرنے والی کمیونٹی ہیں۔
ایک اخباری انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ، ہم نے قراقرم ہائی وے پر ہنی مون منایا تھا، جس کی دعوت ایک میجر نے دی تھی۔ وہ ان دنوں اس کی تعمیر میں مصروف تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک پنجابی لڑکی کی کہانی سنائی جو دریائے سندھ کے پار شادی کے لیے جا رہی تھی۔ ’ایک ماہ بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھاگ گئی۔
میں نے لاہور واپس لوٹ کر اس کی کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا ۔اس کہانی میں قراقرم کے پہاڑوں اور دریائے سندھ کی خوبصورتی کو بیان کیا، بعد ازاں اس کہانی کو ناول میں تبدیل کیا اور مختلف کردار تخلیق کیے۔ اس تجربے سے جنم لینے والے ناول ’دی پاکستانی برائیڈ‘ میں قدرت بھی ایک کردار تھا۔
بیپسی کو ان کے بھرپور بیانیے، جاندار کرداروں اور جنوبی ایشیائی زندگی کی پیچیدگیوں کو دنیا تک پہنچانے کے عزم کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔