• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭…کالے کی قید: جب مرزا غالب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آکر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا صاحب نے کہا: کون ……قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔ اب کالے کی قید میں ہوں۔

٭…آدھا مسلمان: غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہوگئے، ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔

ویل، ٹم مسلمان ہے۔

مرزا نے کہا، جناب آدھا مسلمان ہوں۔

کرنل بولا۔ کیا مطلب؟

مرزا نے کہا ، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔

٭…گدھے آم نہیں کھاتے: ایک دفعہ مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھا رہے تھے ان کے پاس ان کا ایک دوست بھی بیٹھا تھا جو کہ آم نہیں کھاتا تھا اسی وقت وہاں سے ایک گدھے کا گزر ہوا تو غالب نے آم کے چھلکے گدھے کے آگے پھینک دئیے گدھے نے چھلکوں کو سونگھا اور چلتا بنا تو غالب کے دوست نے سینہ پھلا کر کہا دیکھا مرزا گدھے بھی آم نہیں کھاتے تو مرزا نے بڑے اطمینان سے کہا کہ جی ہاں دیکھ رہا ہوں گدھے آم نہیں کھاتے۔

٭…دلی کے گدھے: مرزا غالب شطرنج کے بڑے شوقین تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری دلی میں نئے نئے آئے تھے۔ غالب کو پتہ چلا کہ وہ بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں تو انہیں دعوت دی اور کھانے کے بعد شطرنج کی بساط بچھا دی۔ ادھر سے کچھ کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گز رے تو مولانا نے کہادلی میں گدھے بہت ہیں! مرزا غالب نے سراٹھا کر دیکھا اور بولے ہاں بھائی، باہر سے آجاتے ہیں۔

٭…شیطان کی کوٹھری: مرزا غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچسی کھیل رہے تھے۔ میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔

انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا: مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کردیا جاتا ہے۔ مرزا غالب نے جواب دیا مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی ہے۔