پاکستان کے عوام میں اس وقت سیاسی بے چینی عروج پر ہے ۔ کیا ملک میں کوئی سیاسی قوت یا جماعت ایسی ہے ، جو اس بے چینی کو سیاسی تحریک کی شکل دے کر ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے ۔ بد قسمتی سے اب کوئی ایسی سیاسی قوت یا جماعت نہیں رہی ، جس سے حقیقی تبدیلی کی توقع کی جا سکے ۔ حقیقی تبدیلی سے میری مراد کوئی انقلاب یا کایا پلٹ نہیں اور وہ تبدیلی بھی نہیں ، جس کا نعرہ تحریک انصاف والے لگاتے ہیں بلکہ تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ پاکستان کے اکثریتی عوام کو مہنگائی ، غربت ، ناانصافی ، لاقانونیت اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے نجات ملے اور مالیاتی وسائل کا ایک خاطر خواہ حصہ لوگوں پر خر چ کیا جائے ۔ اگر حقیقی تبدیلی کے لئے کوئی سیاسی تحریک نہیں بنتی ہے تو پھر خدشہ یہ ہے کہ عوام کی اس سیاسی بے چینی کو وہ قوتیں اپنے حق میں استعمال کرسکتی ہیں ، جنہوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔
دنیا کی کوئی بھی حقیقی عوامی سیاسی تحریک ہو ، وہ اپنے جوہر میں استحصالی طبقات یا گروہوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی تحریک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے ۔ تاریخ میں بھی اور خود ہمارے عہد میں بھی ایسی بہت سی پاپولسٹ تحریکیں رہی ہیں ، جن میں عوام بھرپور اور جارحانہ طور پر ملوث رہے لیکن وہ اپنے جوہر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں تھیں بلکہ انہوں نے حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ فورسز کی سیاست کو ختم یا کمزور کیا۔
اب یہ کھلا راز ہے کہ پاکستان کی حکمراں اسٹیبلشمنٹ میں فوج کو بالادست اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے ۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعت اب ایسی نہیں ہے ، جو ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے کےلئے سیاسی تحریک منظم کر سکے اور اس کی قیادت کر سکے ۔ پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے ، جس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور 9مئی 2023 کی مہم جوئی کے بعد اس کے حامی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جماعت حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے ، حالانکہ معروضیت کچھ اور ہے۔پاکستان تحریک انصاف بنیادی طورپراسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہے،جو اسٹیبلشمنٹ کا پرانا نعرہ لے کر آگے بڑھی کہ سیاست دان کرپٹ ہیں ۔ اس نے لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی کا مطلب یہ بٹھایا کہ تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے کیونکہ ان کے بقول یہ سیاسی جماعتیں کرپٹ اور ملک کے لئے خطر ہ ہیں ۔ تحریک انصاف کا ہدف تنقید کبھی فوج ، عدلیہ ، بیورو کریسی ، سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں رہے ۔9مئی کی مہم جوئی بھی سیاست سے فوج کی مداخلت ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومت اور سیاست کو ختم کرنے کے لئے فوج کو مداخلت پر مجبور کرنے کیلئے تھی ۔ یہ جماعت موجودہ سیاسی بے چینی کو حقیقی عوامی سیاسی تحریک میں کیونکر بدلے گی۔
جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بات ہے ، ان دونوں بڑی جماعتوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست پر گامزن ہونے میں بہت وقت لگا اور وہ لندن کے میثاق جمہوریت اور 18ویں آئینی ترمیم تک راستہ نکال کر پہنچیں ۔ ان دونوں جماعتوں کی قیادت بھی گیٹ نمبر4 سے گزر کر آئی ہے اور پھر ’’ ہاب ناب ‘‘ ( HOBNOB) کرتے ہوئے آگے نکل گئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے تجربات کی روشنی میں کسی قسم کے تصادم یا ٹکراو سے گریز کر رہی ہیں اور حالات بھی اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ مضبوط انتخابی امیدوار اور ووٹ بینک ہونے کے باوجود ان کے پاس اسٹریٹ پاور پہلے جیسی نہیں رہی ۔ عمران خان کی سیاست نے ان دونوں جماعتوں کو فوج کا سہارا لینے پر مجبور کیا ہے ۔ وہ اگر پہلے دو قدم آگے گئی تھیں تو اب چار قدم پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان میں اس وقت پورے ملک کو بند کرنے کی اسٹریٹ پاور کسی کے پاس ہے تو وہ مذہبی اور فرقہ وارانہ سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں ہیں ۔ لیکن اب یہ ساری مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ہیں ۔ اب وہ ایسے ایشوز پر سیاست کرتی ہیں ، جو عوام کی توجہ حقیقی ایشوز سے ہٹا دیتے ہیں ۔ یہ جماعتیں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی سب سے بڑی طاقت ہیں۔
قوم پرست سیاسی جماعتیں تنہائی کا شکار ہیں اور وہ الگ تھلگ ہو کر جدوجہد کرنے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہوں نے ملک کی دیگر قومی جمہوری قوتوں سےاتحاد کیا تو ان کی انتہا پسندانہ شناخت ختم ہو جائے گی اور ان کا کیڈر یا ورکر ان سے دور ہو جائے گا ، جس میں تنگ نظر قوم پرستی کی سوچ پیدا کی گئی ہے ۔ یہ قوم پرست جماعتیں اپنی الگ تھلگ جدوجہد سے اپنے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں اور اپنا نقصان کرنے والی مہم جوئی کو اپنی فتح قرار دے رہی ہیں ۔ 1957ء میں قومی جمہوری قوتوں کو اکٹھا کرکے ڈھاکا نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) بنائی گئی،جس میں بنگالی ، پختون ، بلوچ ، سندھی قوم پرست تنظیمیں شامل تھیں ۔نیپ کواگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق کالعدم قرار دیا گیا لیکن اس میں شامل قوم پرست جماعتیں بھی خود اس سے پہلے الگ ہونا چاہتی تھیں ۔ اسی طرح 1986 ء میں عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) تشکیل دی گئی لیکن یہ جماعت بھی نہ چل سکی اور بعض قوم پرست قوتوں نے جمہوری راستہ ترک کرکے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ۔ صورت حال سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے کہ اس سیاسی بے چینی کو کسی نئے ہدف کیلئے کوئی رخ دیاجائے ، پاکستان کی تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست قوتوں کو مل بیٹھ کر ایک جامع سیاسی اور معاشی میثاق ( چارٹر ) پر بات کرنا ہو گی ۔ اس میثاق میں سول ملٹری تعلقات کا بھی ازسر نو تعین کرنا ہو گا ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی فوج کا کردار متعین کرنا ہو گا کیونکہ ملک میں اب کوئی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعت یا قوت ایسی نہیں جو حقیقی عوامی سیاسی تحریک منظم کر سکے اور حقیقی سیاسی تبدیلی لا سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)