• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا بھر میں خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے اور 2022 میں شایع ہونے والے ’’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘‘ کے میڈیا فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان آزادی صحافت کے اعتبار سے 180 ممالک میں157ویں نمبر پر تھا۔ تاہم 2023 کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان اس انڈیکس میں سات درجے ترقی کے بعد 150 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

وطنِ عزیز میں آزادیِ صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کسی دور میں نہیں ہوا۔ سابق حکومت کے دور میں الزام لگایا جاتا تھا کہ ریاستی ادارے صحافیوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، لیکن موجودہ جمہوری دور میں بھی صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی شکایات تسلسل سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں روزنامہ ’’جنگ‘‘،کراچی کے سینئر رپورٹر،م حمد عسکری کی چوبیس گھنٹے کے لیے جبری گم شدگی ہے۔ وہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو اس وقت لاپتا ہوگئے تھے جب وہ شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ انہیں کس ادارے نے تحویل میں لیا تھا اور تحویل میں لینے کی وجوہات کیا تھیں۔

ملک کے ممتاز صحافی ابصار عالم کہتے ہیں کہ ماضی کے مقابلہ میں اس دور میں بولنے کی آزادی دی گئی ہے۔ مجھ سمیت بہت سے اینکرز اور صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی لگائی گئی تھی جو موجودہ دور میں ہٹا دی گئی، لیکن اب بھی آزادیٔ اظہار کی صورتِ حال ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے۔ آج بھی صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں، ان پر جسمانی یا معاشی حملے کیے جاتے ہیں۔ کسی صحافی کو نوکری سے نکلوا دینا اور کہیں کام نہ کرنے دینا اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس وجہ سے صحافی کے ساتھ اس سے منسلک کئی افراد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے سے قبل جاری کی گئی پاکستان پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ملک میں میڈیا کے لیے ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے۔ مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فی صد بڑھ کر 140 ہو گئی جن کی تعداد سال2021 - 22 میں 86 تھی۔ رپورٹ کے مطابق صحافت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک شہر اسلام آباد ہے۔ آزادیٔ صحافت کی خلاف ورزیوں میں سے56 فی صد وفاقی دار الحکومت میں ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں ایک سال کے دوران پاکستان میں کم از کم پانچ صحافیوں کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران صرف اسلام آبادمیں 56 ایسے واقعات پیش آئے، جن میں صحافیوں یا میڈیا کے اداروں کوبہ راہ راست حملوں کا نشانہ بنایا گیایا انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی گئیں۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کے لیے سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب دوسری سب سے خطرناک جگہ ثابت ہوا، جہاں ایک برس کے دوران 35 ایسے واقعات پیش آئے، جن میں صحافتی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ اس سالانہ رپورٹ میں مئی 2022ء اور مارچ 2023ء کے درمیانی عرصے میں آزادی صحافت پر کیے جانے والے حملوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے۔

صحافیوں کے خلاف تشدد ،مگر کیوں؟

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پالیسی فریم ورک ہے جو ریاستی اداروں اور حکام کی طرف سے بنایا گیا ہے۔ صحافیوں کے خلاف حملوں میں اداروں سمیت سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے مطابق صحافیوں پر حملے سے اہم معلومات تک رسائی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی اوراقتصادی بحران کے دوران یہ صورتِ حال مزید پریشان کن ہے۔اقبال خٹک کے بہ قول پاکستان 2021 میں صحافیوں کے تحفظ کےضمن میں قانون سازی کرنے والا ایشیا کا پہلا ملک بنا، لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وفاق اور سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کسی ایک صحافی کے لیے بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے۔

پاکستان میں گزشتہ بارہ ماہ میں صحافیوں کے خلاف 140 حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مہینے میں 13کیسز رپورٹ ہوئے، با الفاطِ دیگر آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں تقریباً ہر دوسرے روز ہورہی ہیں۔

پیرس میں رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز(RSF) سے منسلک ڈینیل بتاخ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حربے اور واقعات بتاتے ہیں کہ RSF کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کافی نیچے کیوں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام کیسز ایک جیسے نہیں ہیں ، لیکن حالیہ برسوں میں ایک جیسا رجحان دیکھنے میں آیا ہےجس کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پاکستانی صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ہے۔ ارشد شریف کا کیس ان میں انتہائی نوعیت کا ہے، جو اپنے ہی ملک اور پھر متحدہ عرب امارات سے فرار ہونے کے بعد کینیا میں مارے گئے ۔ اسی طرح ساجد حسین کا لرزہ خیز اور پراسرار قتل، جن کی لاش سویڈن میں ایک دریا سے ملی تھی، ان خطرات کی ایک اور مثال ہے ۔اسی طرح ہالینڈ میں احمد وقاص گورایہ کے خلاف حملے اور قتل کی کوشش ایک اور کیس ہے۔

ڈینیل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں بعض ریاستی ادارے،جو پہلے ہی اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ صحافی کیا لکھ سکتے ہیں اور کیا نہیں کہہ سکتے، وہ پاکستانی میڈیا میں بھی آوازوں کو ایسے موضوعات پر بولنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ممنوع ہیں۔ تاہم پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ پاکستان آزاد میڈیا کے کردار کی قدر کرتا ہے۔

قوانین موجود، مگر

پاکستان کی صحافتی تنظیموں کے عہدے داران کے بہ قول ریاست کسی صورت نہیں چاہتی کہ ملک میں صحافت آزاد ہو۔ بدعنوانیوں، اداروں اور شخصیات کے اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق خبریں، سیاست دانوں کے غیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں کو منظر عام پر لانے والے صحافیوں پر 'جھوٹےمقدمات درج کرانا معمول بن چکا ہے۔یہ مقدمات تو عرصۂ دراز سے درج کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اب ایک نئی روش چل پڑی ہےکہ صحافیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر متاثرہ صحافی کو تذلیل اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ آزادیٔ صحافت کو زیادہ شدت سے دبانے کے لیے ہو رہا ہے اور اس میں شدت اس لیے آئی ہے کہ پہلے ایسا صرف ایک آدھ فریق کی جانب سے کیا جاتا تھا، لیکن اب مختلف ریاستی اور غیر ریاستی ادارے بھی اس میں ملوث ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ یہ تمام غیر قانونی اقدامات اٹھانے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی اور وہ ہر قسم کی سزا سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

صحافیوں کے راہ نماوں کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کا بڑا کریڈٹ تھا کہ اس نے جرنلسٹس پروٹیکشن بل قومی اسمبلی میں متعارف کرایا، جسے قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اور سینیٹ سے بھی اکثریتی ووٹ کے ذریعے منظور کیا گیا تھا۔ یہ بِل دسمبر2021 میں صدر کی جانب سے منظوری کے بعد قانون کا حصہ بن چکا ہے، اس کے باوجود حکومت صحافیوں کے تحفظ کے اس قانون پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔ بااثر قوتوں نےایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جرنلسٹس پروٹیکشن بل اپنی روح کے ساتھ نافذ ہی نہیں ہوسکا۔

صحافیوں کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ وہ ایسے کسی صحافی کی حمایت نہیں کریں گی جو حقائق کو تووڑ مروڑ کر پیش کرے، سچ کو چھپائے اور صحافت کی آڑ میں پروپیگنڈا کرے۔ لیکن اگر کسی کی رپورٹنگ کے بارے میں ریاست یا کسی کو بھی کوئی خدشات ہیں اور یہ دیکھنا کہ کون سی چیز صحافت کے زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں تو اس کا فیصلہ تھانے میں بیٹھا پولیس افسر یا فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے)میں بیٹھا کوئی افسر نہیں کرسکتا بلکہ یہ فیصلہ صحافت کے رموز جاننے والے ہی کرسکتے ہیں جنہیں اس پیشے کا بہ ذات خود تجربہ ہو۔

دوسری جانب حکومتِ پاکستان ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے جس میں حکومت پر میڈیا کی آزادی کو دبانے کے الزامات عاید کیے جاتے ہوں۔وفاقی وزیر اطلاعات ،مریم اورنگزیب یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ ان کی حکومت صحافیوں پر کسی قسم کے تشدد اور ان کی آواز دبانے میں ملوث نہیں اور ملک میں آزادی اظہار پر کسی قسم کا کوئی قدغن نہیں۔ لیکن ملکی اور غیر ملکی صحافتی ادارے ان دعووں کے برعکس یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک میں صحافت پر دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی2022 کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان صرف ایک سال میں 12 درجے تنزلی کے ساتھ اس 157ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔

صحافیوں کا قتل اور تشدد

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں رواں سال جان کی بازی ہارنے والے پانچ صحافیوں کی فہرست دی گئی ہے۔ جن میں چارسدہ کے افتخار احمد، راجن پور کے اشتیاق سودھیرو، صدف نعیم اور خیرپور کےنریش کمار کے علاوہ ارشد شریف کا نام بھی شامل ہے۔ صحافی ارشد شریف اگرچہ پاکستان میں قتل نہیں ہوئے تاہم ان کا نام بھی اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس خواتین صحافیوں کے ساتھ آٹھ خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں انہیں ہراساں کرنے سمیت دھمکانے کے کیسز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جن صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے وہ ٹی وی سے تعلق رکھنے والے تھے جن کے خلاف 69 فی صد حملے ہوئے، پرنٹ میڈیا کے خلاف 19 فی صد اور 11فی صد آن لائن صحافیوں کے خلاف حملے ہوئے۔

اس عرصے میں جہاں پانچ صحافی قتل ہوئے وہیں دس صحافیوں پر قاتلانہ حملےبھی ہوئے جن میں وہ بچ گئے ۔ نو صحافیوں کو قانونی کارروائی اور اکیاون کو جسمانی حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں وہ زخمی ہوئے۔ سات صحافی گرفتار اور چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے اغوا بھی کیا گیا۔

عالمی رینکنگ

بین الاقوامی صحافتی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) کی جانب سے عالمی یوم آزادی صحافت پر آر ایس ایف کے جاری کردہ 2023ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان اب 180 ممالک اور خطوں میں سے 150 ویں نمبر پر ہے، جو پڑوسی ملک بھارت سے گیارہ درجے زیادہ ہےکہ بھارت 161 نمبر پر آیا ہے۔ یاد رہے کہ 2022 کی درجہ بندی میں بھارت 150 ویں نمبر پر اور پاکستان 157 ویں نمبر پر آیا تھا۔

آر ایس ایف کے مطابق صحافیوں کے خلاف تشدد، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کا ارتکاز یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی صحافت بحران کا شکار ہے۔ ایشیا کی یک جماعتی حکومتیں اور آمریتیں وہ ہیں جو صحافت کو سب سے زیادہ تنگ کرتی ہیں۔

رپورٹ میں پاکستان کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ کہا گیا ہے کہ جوصحافی سرخ لکیروں کو عبور کرتا ہے وہ انتہائی سخت نگرانی کا نشانہ بنتا ہے اور ریاست کی جیلوں یا غیر سرکاری جیلوں میں مختلف مدت کے لیے اغوا اور حراست کا باعث بن سکتا ہے۔ صحافیوں کے کم زور تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں منظور ہونے والے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کا ایکٹ رپورٹرز کے لیے ایک مخصوص طرزِ عمل اپنانے سے مشروط ہے اور جو لوگ حکام کی طرف سے طے شدہ خطوط کو عبور کرتے ہیں وہ بھاری انتظامی دباؤ، مجرمانہ سزاؤں، مثلاً بغاوت کے الزام، کا شکار بنتے ہیں۔

صحافی کہیں بھی محفوظ نہیں

فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو دھمکانے یا ایسی دوسری سرگرمیوں میں مبینہ طور پر سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ ملوث رہیں جن کی شرح 140 واقعات میں تقریباً 21فی صد رہی۔ ایسے واقعات میں ریاستی اداروں کے ملوث ہونے کی شرح 19 فی صد رہی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین صحافی بھی ایسی کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہیں، اس عرصے میں خواتین بہ شمول خواجہ سراؤں کے خلاف ایسے 8 کیسز رپورٹ ہوئے اورایک خاتون صحافی ایک سیاسی جماعت کی ریلی کی کوریج کے دوران جاں بہ حق بھی ہوئیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں میڈیا سیفٹی پر دس پندرہ برسوں میں بہت کام ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی صحافی ایسا رہ گیا ہو جسے مختلف این جی اوز، صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز کی جانب سے آگاہی نہ دی گئی ہو کہ انہوں نے تنازعات کو کیسے رپورٹ کرناہے، اس کے باوجود گزشتہ برسوں میں پاکستان میں صحافی اتنی بڑی تعداد میں نشانہ بنے۔ پاکستان میں خطرہ اب صرف کارکن صحافیوں کو نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد بلاگرز اور یوٹیوبرز کو بھی ہے۔ بلکہ اب تو بعض ایسے لوگوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے جو ٹوئٹر پر متحرک نظر آتے ہیں اور ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ بہت سےایسے لوگوں کے خلاف غداری اور توہین مذہب کے قانون کے تحت بھی مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں آزادی اظہار رائے ہر آنے والے دن کے ساتھ پابند ہوتی جا رہی ہے۔

اس برس آزادی صحافت کے عالمی یوم پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے صحافیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کے مظاہرے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے خلاف غلط اطلاعات کا پھیلاؤ، نفرت پر مبنی اظہار اور جان لیوا حملے دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے خطرہ ہیں۔ آ زادی صحافت جمہوریت اور انصاف کی بنیاد ہے۔ یہ ہم سب کو ان حقائق سے روشناس کراتی ہے جن کی ہمیں اپنی آراء تشکیل دینے اور سچائی کا اظہار کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم دنیا کے ہر کونے میں آزادی صحافت حملوں کی زد میں ہے۔ 

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے نے اس حوالے سے کہا کہ 2022ء اس پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مہلک ترین سال تھا۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں 86 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا اور ایسے بیش ترواقعات جنگ زدہ علاقوں سے باہر پیش آئے۔ یونیسکو نے کہاہے کہ ہلاک کیے جانے والے تقریباً نصف صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ ان میں سے بعض پر دوران سفر، پارکنگ کی جگہوں یا دیگر عوامی مقامات پر حملہ کیا گیا جہاں وہ اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی میں مصروف نہیں تھے، دیگر صحافی حملوں کے وقت اپنے گھروں میں موجود تھے۔ 

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافیوں کے لیے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے حتیٰ کہ جب وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف نہیں ہوتے اس وقت بھی ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو تحفظ دینے کے لیے پانچ سال میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود 86 فی صد واقعات میں قاتلوں کو سزائیں نہیں ہوئیں۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کی کھلی چھوٹ پر قابو پانا ایک اہم عزم ہے جس پر بین الاقوامی تعاون کو مزید متحرک کیا جانا چاہیے۔ 2022ء میں صحافی ہلاکتوں کے علاوہ دیگر طرح کے تشدد سے بھی متاثر ہوئے۔ 

اس میں ان کی جبری گم شدگی، اغوا، ناجائز حراست، قانونی ہراسانی اور ڈیجیٹل تشدد شامل ہے اور ایسے واقعات میں خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ یونیسکو کے جائزے میں صحافیوں کو درپیش مشکلات کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہتک عزت، سائبر کرائم اور جھوٹی خبروں کے انسداد کے قوانین کا بہ طور ہتھیار استعمال آزادیِ اظہار کو محدود کرنے اور صحافیوں کے کام کے ماحول کو مشکل بنانے کے لیے ہورہا ہے۔

خواتین صحافیوں کا دُہرا دکھ

اگر ہم بالخصوص خواتین صحافیوں کی بات کریں تو بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر بھی خواتین صحافیوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔ ان کو اپنے کام کے ردعمل میں ذاتی اور غلیظ حملوں کا شکار بنایا جاتا ہے، جس سے ڈر کر کچھ خواتین صحافی سوشل میڈیا پر بات کرنا ترک کر دیتی ہیں اور کچھ اپنے موضوعات بدل لیتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں خواتین صحافی شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔

مختلف ممالک میں یہ آن لائن حملے ایک منظم مہم کی صورت میں کیے جا رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد خواتین صحافیوں کو کام کرنے سے روکنا یا ان کے کام کی نوعیت پر اثر انداز ہونا ہے، جو سراسر آزادی صحافت پر قدغن ہے۔

خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد اپنے اوپر ہونے والے سوشل میڈیا حملوں کو رپورٹ کر چکی ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق پوری دنیا کی صحافی خواتین اپنی تحریروں، تبصروں اور دیگر صحافتی ذمے داریاں نبھانے کے جواب میں سوشل میڈیا پر سنگین دھمکیوں، بے ہودہ اور اخلاق سے گری ہوئی مہم کا شکار رہتی ہیں۔ اگرچہ مرد صحافی بھی آن لائن حملوں سے محفوظ نہیں ہیں، مگر بدقسمتی سے جنسی بنیاد پر روا رکھے جانا والا تعصب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی اسی طرح نمایاں ہے۔

مختلف عالمی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا کے تمام خطوں میں کام کرنے والی صحافی خواتین کو آن لائن ٹرولنگ میں بے ہودہ القابات، گھٹیا جملوں کے علاوہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے اور جنسی زیادتی سے لے کر قتل تک کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آن لائن ٹرولنگ کا بظاہر اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ خاتون صحافی کس موضوع پر لکھ رہی ہوتی ہے۔ خواتین کو ان کے لکھے گئے سب آرٹیکلز کے جواب میں ایسے کمنٹس اور پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ وہ کس نوعیت کے جنسی تشدد کی حق دار ہیں۔

اکثر خواتین کو یہ پیغام بھی ملا کہ وہ کس بے دردی سے قتل کیے جانے کے قابل ہیں۔ خواتین صحافیوں کے خاندان اور ان کی رہایش کے متعلق معلومات بھی پوسٹ کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بے ہودہ جنسی نوعیت کے جملے اور ظاہری شکل و صورت پر اخلاقیات سے گرے ہوئے تبصرے، گالی اور ہتک آمیز جملے وہ مشترکہ تجربات ہیں جو دنیا کے ہر خطے میں کام کرنے والی صحافی خواتین کو سائبرا سپیس میں ہوئے۔ بد قسمتی سے سیاسی یا نظریاتی اختلاف کے بجائے عورت کی جنس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا دکھ دہرا ہے۔