یہ خالقِ کائنات کا قانون ہے کہ اس کائنات میں صرف اسی کو بقا ہے۔ باقی سب مخلوقات کو ایک معین مدت تک اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے اور پھر اپنے خالق کی جانب لوٹ جانا ہے۔ آغا جان (ہم گھر میں قاضی حسین احمد صاحبؒ کو اس نام سے پکارتے تھے) کی رحلت ہم سب کے لیے بہت اچانک تھی۔ وہ اللہ سے دُعا کیا کرتے تھے کہ مجھے اس حال میں نہ لے جا جہاں مجھے دوسروں کا سہارا لینا پڑے۔ شاید دوسروں کا محتاج بن جانا ان کے خوددار مزاج پر بوجھ بن جاتا۔آغا جان نے ہمیں دُکھ اور غم کو وقار اور صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان کی وفات کے دکھ میں ہم اکیلے نہیں تھے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان کے لاکھوں روحانی بیٹے ہمارے ساتھ شریک تھے۔ مجھے یاد ہے ان کی وفات کے چند گھنٹوں بعد مجھے صومالیہ سے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے فارغ التحصیل ایک صومالی نوجوان کی تعزیتی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ قاضی صاحبؒ ہم سب کے والد تھے۔حرمِ پاک سمیت شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں آغا جان کی غائبانہ نمازِ جنازہ یا تعزیت کی کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی ہو۔ اخوان المسلمون مصر کے سابق مرشد عام نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحبؒ زندہ تھے تو تب بھی ہم سب کو اکٹھا کرتے تھے اور آج وہ وفات پاگئے ہیں تو اب بھی ہمیں اکٹھا کررہے ہیں۔ یہ اُمت مسلمہ کے اس اتحاد کا ایک اظہار تھا جو قاضی صاحبؒ کے دل ودماغ پر ایک نوجوان کے عشق کی طرح نقش تھا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
شیخ مہدی عاکف نے عربی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قاضی حسین احمدؒ ’’رمزاً من رموز الامۃ‘‘ یعنی اُمت مسلمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھے۔ ایک ایسا شخص جو اُمت کے اتحاد کا ایک نشان بن جاتا ہے۔آغا جان ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ایک کالم نگار نے ان کے بارے میں بالکل درست لکھا تھا کہ ان سے مل کر ایسا لگتا ہے جیسے قرونِ وسطیٰ کا کوئی تاریخی شخص ہمارے زمانے میں آگیا ہو۔ ان کا پاکیزہ مزاج، ان کی وجاہت، ان کا جلال اور ذوقِ جمال، قرآن سے تعلق، عشقِ رسولؐ، ادب اور مطالعہ کا شوق، جرات اور ثابت قدمی، تحمل اور صبر، نرم خوئی اور ہمدردی، شفقت اور محبت، تحرک، جہد مسلسل اور داعیانہ تڑپ، بے ساختہ حس مزاح اور بے تکلفی، ہر انسان کے ساتھ دوستی کا انداز، وسیع المشربی اور ہر گھڑی اللہ کی بندگی کا احساس اور اس طرح کی اَن گنت خوبیوں کا ان کی شخصیت کے اندر جمع ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان تھا۔ وہ غلطیوں سے مبرا نہ تھے او رکوئی انسان معصوم عن الخطا ہو بھی کیسے سکتا ہے الا یہ کہ وہ اللہ کا نبی اور پیغمبر ہو۔ لیکن وہ یقیناً ایک ایسے شخص تھے جنہیں دیکھ کر یا جن کی صحبت میں رہ کر انسان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور انسان اپنے رب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ جناب سراج الحق نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علامہ اقبالؒ ان کو دیکھ لیتے تو وہ کہہ اُٹھتے کہ جس مردِ مومن کا تصور میں پیش کیا کرتا تھا یقیناً یہ وہی شخص ہے۔میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے قاضی حسین احمدؒ جیسا والد عطا کیا۔ وہ ایک مثالی والد تھے۔ ایک باپ میں جن خصوصیات کی آپ آرزو کرسکتے ہیں، وہ قاضی صاحبؒ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ایک ایسا والد جو آپ کو دین سے روشناس کرائے۔ جو آپ کی تربیت پر ہمیشہ نظر رکھے۔ جو ہر ضرورت کے وقت آپ کے لیے موجود ہو۔ جو ایک استاد بھی ہو اور ایک مرشد بھی اور جو ہر حالت میں آپ کا خیر خواہ اور محبت کرنے والا ہو۔ ہمارے لیے آغا جان ایک مکتب بھی تھے اور فیضانِ نظر کی ایک خانقاہ بھی۔آغا جان کے ساتھ وابستہ یادوں میں ایک مستقل اور دل ودماغ پر گہرے نقوش چھوڑ دینے والی یاد نمازِ فجر اور اس کے متصل وہ ساعتیں ہیں جو انکی قربت میں گزریں۔ بچپن ہی سے نمازِ فجر کیلئے جگانے کا ان کا ایک دلنشین انداز تھا۔ عموماً فجر کے وقت قرآنی آیات کی تلاوت کرتے یا اقبال کے اشعار گنگنا رہے ہوتے۔ یہ شعر اکثر کہتے: ’’اٹھو کہ ہو بھی چکا ہے فراق و ظلمت ونور‘‘ یا پھر اقبال کے وہ اشعار ’’از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز۔‘‘ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پیا رکرتے اور پھر میرے بالوں کو اُلٹی سمت میں پھیرتے۔ اپنے ماتھے پر ان کے مضبوط مگر شفقت بھرے ہاتھوں کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ جب ہم سب بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں رہنے لگے تو منصورہ کے فلیٹ میں قاضی صاحبؒ اور ہماری والدہ اکیلے رہ گئے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے پاتے۔ والدہ ان کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پاک کا ترجمہ اور تشریح سنتیں ۔ قرآن کے مطالعے سے فارغ ہونے کے بعد آغا جان روزانہ ایک گھنٹہ چہل قدمی کرتے۔ دل کے آپریشن کے بعد یہ ان کی ضرورت بھی بن چکی تھی۔ جب کبھی وہ اسلام آباد میں ہمارے گھر آتے یا جب ہم پشاور میں اپنے گھر میں اکٹھے ہوتے تو فجر کی مجالس وہاں بھی منعقد ہوتیں۔ قاضی صاحب کا طریقہ تھا کہ وہ درس کے دوران وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے سوال کرتے اورسب کا جواب سن کر پھر خود آیت یا شعر کا مطلب بیان کرتے۔ قرآن کی تلاوت کرنے کا انکا ایک مسحور کن انداز تھا جو اب بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ تلاوت میں تجوید اور معانی کا خیال رکھتے اور اسی سے انکے دل کی کیفیت بن جاتی۔ ایک مغربی خاتون صحافی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں قاضی صاحبؒ کی شخصیت کا سب سے امتیازی پہلو کیا تھا؟ میرے خیال میں قاضی صاحبؒ کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت محبت تھی۔ وہ ایک سچے عاشقِ رسولؐ تھے۔ عشقِ رسولؐ ان کی تربیتی تقاریر کا ایک لازمی جزو تھا۔ اقبالؒ کے وہ اشعار جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھے، قاضی صاحبؒ کو ازبر تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص سچا عاشقِ رسولؐ ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کی کوئی خوبی ضرور جھلکتی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہو اور وہ رحمت، مؤدت اور محبت کی صفت سے محروم ہو۔ آغا جان کی شخصیت پر یہ اللہ کا خاص انعام تھا کہ وہ انتہائی محبت کرنے والے فرد تھے اور یہ محبت تمام انسانوں کے ساتھ بلاامتیاز تھی۔ وہ کبھی کسی انسان سے نفرت نہیں کرتے تھے اور غیرمسلموں سے بھی محبت سے پیش آتے تھے۔ سب کا یکساں احترام کرتے تھے۔ انکے ساتھ چند لمحے گزارنے والا شخص بھی ان کی شخصیت کا ایک مثبت تاثر دل میں لے کر جاتا۔ محبت دعوتِ دین کاکام کرنیوالے ایک داعی کی بنیادی صفت ہے کہ وہ اس کے بغیر دلوں کو اپنی دعوت کی جانب کیسے مائل کیا جاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آغا جان کے جنازے میں جہاں ہزاروں مسلمانوں کی آنکھیں اشکبار تھیں، وہاں مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے افراد بھی محبت اور احترام کے ساتھ موجود تھے۔قاضی صاحبؒ نے نوجوانی میں ہی اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا تھا۔ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے تھے اور زندگی کا ہر لمحہ آخری سانس تک اسی نصب العین کے حصول کے لیے ہر ممکن طورپر استعمال کیا۔ ان کے وقت میں اللہ نے برکت دی تھی او روہ اپنا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے، بلکہ فرصت کے چند لمحے بھی میسر ہوتے تو اسے کسی مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مصروف زندگی کے باوجود اپنے تمام احباب اور رشتہ داروں کیلئے بھی وقت نکالتے اور اپنے کاروبار کی طرف بھی توجہ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک متوازن انداز میں ترتیب دیا تھا۔ ان کو اپنی ترجیحات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تھا اور اولین ترجیح دعوتِ دین کی جدوجہد تھی۔ وہ ایک مطمئن نفس کے مالک تھے اور ساری زندگی کوئی ترغیب، لالچ یا خوف انہیں اپنے نصب العین سے ہٹانہ سکی۔وہ خود اپنے مضمون ’’اقبالؒ کا پیغام، اُمت مسلمہ کے نام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اگر ایک انسان اپنے آپ کو، اپنے رب کو اور اپنے مقام کو پہچان لے تو اس کے بعد اللہ کی طاقت، نصرت اس کے شامل حال ہوجاتی ہے۔ موت بھی زندگی کا ایک مقام ہے۔ دنیا کی موت آخری منزل نہیں ہے۔ حیات اس کے بعد بھی جاری ہے۔ دنیا کا اُفق اس کو ختم نہیں کرتا۔ حیات کا تسلسل موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ ہر مؤمن اس پر یقین رکھتا ہے۔‘‘تمام احباب سے ان کے حق میں دُعا کی درخواست ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے