• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہا جاتا ہے اور درست کہا جاتا ہے کہ ان سات، آٹھ برسوں میں پاکستان میں بہت کچھ بدل چکا۔ آج یہاں آزاد عدلیہ ہے، مستعد میڈیا ہے، متحرک سول سوسائٹی ہے، سیاسی جماعتوں کی اپروچ بھی بدلی ہے کہ اب ان میں مینڈیٹ کے احترام کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ کیا اس بدلے ہوئے پاکستان میں پرویز مشرف کے’’ادارے کا مائنڈ سیٹ نہیں بدلا؟
لیکن پہلے کچھ اور سوالات .......پرویز مشرف پر3نومبر 2007ء کی’’ایمرجنسی پلس‘‘ کے نفاذ پر ،جسے سپریم کورٹ31جولائی2009ء کے فیصلے میں غیر آئینی قرار دے چکی، خصوصی عدالت میں غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ہمارے بعض دانشور دوستوں کو اس سے اتفاق ہے کہ مجرم چاہے کتنا ہی بڑا ہو اس کے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ اس کی حمایت کرنی چاہئے نہ اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ یہاں وہ لمحے بھر کو رکتے ہیں، سانس لیتے ہیں اور سوالات کی ایک فصل اٹھا دیتے ہیں۔ اب ان کا سارا زور کلام اس پر صرف ہوتا ہے کہ حکومت کو مشرف پر مقدمہ چلانے کی بجائے ا پنی توجہ عوام کو درپیش مسائل کے حل پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پٹرول کی جگہ مشرف ٹرائل کو ٹینکی میں بھر کر عوام رکشہ، وین، پبلک ٹرانسپورٹ اور موٹر سائیکل چلا سکتے ہیں؟ کیا مشرف ٹرائل سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی مملکت میں اجالوں کا سماں ہوجائے گا؟ وہ مزید جذباتی ہوجاتے ہیں اور12سالہ معصوم ارم کو یاد کرتے ہیں جو چوری کے شبے میں اپنے مالکان کے تشدد سے جاں سے گزر گئی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ مشرف کے ٹرائل سے معصوم ارم واپس آجائے گی؟
ہمارا سوال یہ ہے کہ ان تمام دکھ بھرے سوالات کا مشرف ٹرائل سے کیا تعلق؟اگست2008ء میں وہ گارڈ آف آنر کے ساتھ ایوان صدر سے اور کچھ عرصے بعد ملک ہی سے رخصت ہوگیا کہ بیرون ملک آرام و آسائش سے زندگی گزارنے کے تمام وسائل وافر مقدار میں موجود تھے۔ ان میں لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجور روڈ پر وہ ذاتی فلیٹ بھی تھا جس پر اب برائے فروخت کا بورڈ لگادیا گیا ہے اور اس کی قیمت30لاکھ پونڈ بتائی گئی ہے جو پاکستانی کرنسی میں صرف50کروڑ روپے بنتی ہے۔ بیگم صہبا مشرف اپنا فلیٹ پہلے ہی فروخت کرچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ اور ممالک کی طرح دبئی میں بھی ہمارے ایماندار اور دیانتدار کمانڈو صدر کے بیش قیمت اثاثے موجود ہیں۔ بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ گزشتہ پانچ سال میں مشرف کے خلاف کوئی مقدمہ نہ تھا تو کیا پاکستان میں یہ مسائل موجود نہیںتھے اور کیا یہ مسائل مشرف پر مقدمہ نہ چلانے سے حل ہوجائیں گے؟ پاکستان کی سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، سیشن کورٹس اور دیگر ماتحت عدالتوں میں ہزاروں کی تعداد میں مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ ان میں قتل اور اغواء جیسے سنگین مقدمات بھی ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے نیا قانون لایا جارہا ہے تو ملک کو اندھیروں سے نکالنے ،معیشت کو سنبھالنے، بے روزگاری، بے کاری، بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے اور12سالہ ارم جیسی معصوم بچیوں کو مالکان کے ظلم سے بچانے کے لئے یہ سب مقدمات ختم کردئیے جائیں۔
جدید ریاست میں پارلیمنٹ بھی ہوتی ہے، عدلیہ بھی ہوتی ہے اور انتظامیہ بھی اور پھر انتظامیہ(حکومت) کی مختلف وزراتیں، مختلف محکمے اور مختلف شعبے ہوتے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں بروئے کار رہتے ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ وزارت پانی و بجلی کا مسئلہ ہے، جس کے حل کے لئے خواجہ آصف وزارت خزانہ کی طرف سے مہیا کئے گئے مالی وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ ملک کی اکانومی وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہے، گیس کی لوڈ شیڈنگ خاقان عباسی کی وزارت کا مسئلہ ہے، امن و ا مان وفاقی وزارت داخلہ اور صوبائی حکومتوں کا معاملہ ہے۔ ان تمام وزارتوں، ان تمام محکموں کا مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے کیا تعلق؟ کیا یہ سب وزارتیں اور ان کے وزیر اپنی اصل ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے مشرف کے خلاف مقدمے میں الجھے ہوئے ہیں؟
مشرف کے خلاف3نومبر کا مقدمہ ہی کیوں؟ 12اکتوبر کا مقدمہ کیوں نہیں؟ اور پھر بات یہیں تک محدود نہیں رہتی۔ آئین شکنی کا مقدمہ ضیاء الحق کے خلاف ،یحییٰ خان کے خلاف اور ایوب خان کے خلاف کیوں نہیں؟ اور اس استدلال کا ہدف صرف ایک ہوتا ہے کہ اگر ماضی کے ڈکٹیٹروں کے خلاف مقدمات نہیں تو صرف مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کیوں کھڑا کیاجائے؟ مشرف کے خلاف12اکتوبر کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے تھا کہ چیف جسٹس ارشاد حسن خاں والی سپریم کورٹ کی طرف سے12اکتوبر کی توثیق اور پھر2002ء والی اسمبلی کی طرف سے 17ویں ترمیم کے ذریعے اس کی ویلیڈیشن کو18ویں ترمیم نے ریورس کردیا لیکن کیا اس صورت میں یہ الزام عائد نہ کیا جاتا کہ وزیر ا عظم نواز شریف ذاتی انتقام لے رہے ہیں کہ12 اکتوبر کو ان کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا تھا؟
اور اب آئیے اصل سوال کی طرف کہ ان برسوں میں جب پاکستان میں بہت کچھ بدل چکا، ہماری فوج کا مائند سیٹ نہیں بدلا؟ کیا وہ اب بھی خود کو ملکی آئین سے بالا تر ایک’’مقدس گائے‘‘ سمجھتی ہے اور اس کا ہر کمشنڈ افسر آئین کی پابندی کا جو حلف اٹھاتا ہے وہ محض زبانی کلامی ہوتا ہے؟ہم تو سمجھتے ہیں کہ بدلے ہوئے پاکستان میں ہماری فوج کا مائنڈ سیٹ بھی بدلا ہے۔ مشرف نے اپنے احمقانہ اور خود غرضانہ اقدامات سے فوج کے وقار کو کس نچلی سطح تک پہنچا دیا تھا، یہ زیادہ پرانی بات نہیں........ چنانچہ ان کے جانشین جنرل کیانی کے لئے اولین مسئلہ فوج کے وقار کی بحالی تھا۔ آج اگر قوم اور فوج کے درمیان مشرف دور میں پیدا ہونے والی خلیج ختم ہوچکی اور قوم میں اپنی فوج کے لئے محبت، احترام اور وقار کا پرانا جذبہ لوٹ آیا ہے تو اس لئے کہ گزشتہ پانچ سال میں فوج اور اس کی قیادت نے آئینی حدود کی پاسداری کی، فوجی قیادت نے منتخب حکومت کو اس کی کارگزاری جیسی بھی تھی، آئینی مدت پوری کرنے دی۔ کینیڈا کا’’شیخ الاسلام‘‘ سیاست نہیں، ریاست بچائو کا نعرہ لے کر پاکستان آیا، یہ انتخابات کے التواء کا منصوبہ تھا لیکن فوج اس سازش سے بچ نکلی اور فوجی قیادت نے انتخابات کے انعقاد کو اپنا خواب قرار دیا۔ پاکستان میں اگر جمہوری عمل جاری رہا تو اس کا کریڈٹ اور بہت بڑا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے، وہاں مہم جوئی سے فوجی قیادت کا گزیر بھی اس کا ایک اہم سبب تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشرف ٹرائل میں فوج کو گھسیٹنا اس کے وقار اور احترام کو متاثر کرنے والی بات ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آج کی فوجی قیادت کا مائنڈ سیٹ’’ریٹائرڈ جرنیلوں‘‘ کے مائنڈ سیٹ سے مختلف ہے، اگر نہیں تو اسے مختلف ہونا چاہئے کہ اس کا وقار اور احترام اسی میں ہے۔
تازہ ترین