• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائیگرین، ڈپریشن اور انزائٹی دماغی امراض میں اضافے کی اہم وجوہ

عوام کو دماغی امراض سے متعلق شعور و آگاہی کی فراہمی کے لیے ہرسال22 جولائی کو ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی کے تحت ’’ورلڈ برین ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے۔( جیسا کہ گزشتہ روز منایا گیا) تاہم، ہر سال اِس دن کے لیے کسی نئے مرض کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ جیسے فالج، مائیگرین، مارکنسنز،الزائمر یا مرگی وغیرہ، تا کہ ہر سطح پر دماغی امراض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں۔

اِس سال کا موضوع ''Brain Health and Disability" یعنی’’ کسی بھی دماغی امراض کی وجہ سے ہونے والی معذوری‘‘ طے کیا گیا ہے۔Brain Degenerative Diseases کے نتیجے میں جسمانی اور ذہنی، دونوں طرح کی معذوری لاحق ہو سکتی ہے۔ اگر دماغی امراض کی بر وقت تشخص کرلی جائے، تو علاج کی کام یابی کی شرح بڑھ جاتی ہے اور بعد میں ہونے والے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اِس ضمن میں ہم نے ماہرِ دماغی امراض (نیورولوجسٹ )، ڈاکٹر عبدالمالک سے تفصیلی بات چیت کی، جس میں اُنھوں نے دماغی امراض کے اسباب اور تدارک سے متعلق ضروری رہنمائی فراہم کی۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے 1996 ء میں سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔2001ء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما اِن کلینکل نیورولوجی، 2003ء میں ڈاکٹریٹ آف میڈیسن اِن نیورولوجی ،2009 ء میں ایم بی اے اِن ہاسپٹل اینڈ ہیلتھ مینجمنٹ،2020 ء میں ڈنمارک سے headache disorder میں ماسٹرز کی اسناد حاصل کیں۔ اِن دنوں لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں بطور پروفیسر آف نیورولوجی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

س: 22 جولائی کو ہر سال ’’ورلڈ برین ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے ،آپ کے خیال میں اس کو منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج: پوری دنیا کی ایک نیورولوجی باڈی ہے، جس کا نام ’’ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی ‘‘ ہے۔ اس فیڈریشن میں 60 سے زائد ممالک کی ممبر شپ ہے۔ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی بھی اس فیڈریشن کی ممبر ہے۔ ڈبلیو ایچ او (WHO) کی رپورٹ میں دماغی امراض کے بڑھتے ہوئے اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے ،فیڈریشن نے ہر سال 22 جولائی کو ’’ورلڈ برین ڈے ‘‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

یہ دن 2015ء سے منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال دماغ کے مختلف امراض (سردرد ،فالج ،مائیگرین، الزائمر ،مرگی،پارکنسنز ) کے کیسز میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس دن کومنانے کا بنیادی مقصد دماغ سے متعلق امراض کے بارے میں آگاہی پھیلانا ،معلومات فراہم کرنا، دماغی بیماریوں کو بڑھنے سے روکنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو دماغی بیماریوں کے حوالے سےاتنی زیادہ معلومات نہیں ہے ،جس کی وجہ سے بر وقت صحیح علاج نہیں کروایا جاتا اور نتیجے میں کوئی نہ کوئی معذوری ہوجاتی ہے۔

س: دنیا بھر میں اور پاکستان میں دماغ کے کون کون سے عوارض عام ہیں ؟

ج: دنیا بھر میںعام دماغی مرض، سردرد ہے اور اس میں مائیگرین کی شر ح سب سے زیادہ ہے ۔بعدازاں فالج کی شرح زیادہ ہے، اسپتالوں میں موجود ڈیٹا کے مطابق ہر سال 3.5سے 4 لاکھ لوگ فالج کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں مرگی کے مریض صرف 1فی صد ہے لیکن اس کے اعدادوشمار دیہی اور شہری علاقوں میں مختلف ہیں ۔دیہی علاقوں میں اس کی شرح تقریباً 2 فی صد جب کہ شہری علاقوں میں 0.7 سے 0.5 فی صد ہے۔ مرگی کے مرض میں مبتلا 60 سے 70 فی صد افراد کے مرگی کے دورے کو کنٹرول کرلیا جاتا ہے، مگر30 سے 40فی صد کو کنٹرول کرناآج بھی مشکل ہے۔

س: دنیا بھر میں لوگوں کادماغی امراض کا شکار ہونے کی شر ح کیا ہے ؟

ج: ویسے تو ہر مرض کی شر ح مختلف ہے، اگر ہم مجموعی طور پر بات کریں تو ہر سال دنیا بھر میں 6 سے 7 فی صد لوگ نیورولوجیکل بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔

س: دماغی بیماریوں کی شر ح مردوں اور عورتوں میں سے کس میں بلند ہے ؟

ج: عورتوں میں سردرد، فالج اور مرگی کی شر ح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، عورتوں میں فالج کی شرح زیادہ ہونے کی اہم وجہ زچگی کے دوران ہونے والے مسائل ، ہائی بلڈ پریشر اور اسٹریس لیول زیادہ ہونا ہے۔ تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی ،ڈپریشن اور انزائٹی دماغی امراض میں اضافے کا باعث ہیں۔

س: بچوں میں کس قسم کے دماغی امراض عام ہیں ؟

ج: بچّوں میں مائیگرین کا مسئلہ خاصہ عام ہے، کیوں کہ آج کل کے بچوں کا اسکرین ٹائم بہت زیادہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنا زیادہ تر ٹائم موبائل استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ آج کل کے بچّوں کی جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے سبب وہ سست ہوجاتے ہیں اور یہ سستی متعدد دماغی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔ اعداد وشمارکی روشنی میں بات کروں تو ہرسال 15 فی صد بچے دماغی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

س: کیا دماغی امراض کی وجہ سے بھی لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے علاج میں کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟

ج: جی بالکل ! ایسا ہوتا ہے کہ دماغی مرض کے نتیجے میں بعض لوگ ڈپریشن کا شکا رہوجاتے ہیں اور اس حالت میں مریض کا علاج کرنا معالج کے لیےمشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ تھراپی یا ادویات اس پر صحیح طر ح اثر انداز نہیں ہو پاتیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کوفالج کے بعد معذوری ہوجاتی ہےتو وہ اس کے سبب ڈپریشن کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔

علاوہ ازیں multiple sclerosis (دماغ اور حرام مغز کی سوزش) عام بیماری نہیں ہے اور اس کی شر ح بھی کافی کم ہے لیکن اس کا مریض بھی معذوری کا شکار ہوسکتا ہے۔ بعض مارکنسز اور الزائمر کے مریض بھی ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں مارکنسز کے مریض کی تعداد 8 سے 10 لاکھ ہے۔ دماغی امراض کے بعد ہونے والے ڈپریشن کو ’’پوسٹ اسٹروک ڈپریشن ‘‘ کہا جاتا ہے۔

س: آپ کے خیال میں ذہنی امراض سے بچنے کے لیے طرز ِزندگی میں کس طر ح تبدیلیاں لائی جائیں ؟

ج: ہماری طرزِ زندگی دماغی امراض میں اضافے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ آج کل راتوں کو دیر تک جاگنا ،سادا غذا کا استعمال نہ کرنا ،فیزیکل ایکٹیونہ ہونا، اکیلے میں ہروقت موبائل استعمال کرنا، لوگوں سے بات چیت نہ کرنا۔ یہ سب چیزیں لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہی ہیں، مگر افسوس ہم ان چیزوں کو نظر انداز کررہے ہیں جب کہ ہم جانتے ہے کہ یہ کام ہماری دماغی صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں، ان وجوہ کی بناء پر نئی نئی دماغی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

سروائیکل، آنکھوں اور جوڑوں کا مسئلہ لوگوں میں عام ہوگیا ہے، ہر دوسرا شخص ان کا شکار ہورہا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے ،کیوں کہ ہم نے آرام دہ زندگی گزارنے کا تہیا کیا ہوا ہے۔ ایک بہتر طرز زندگی گزارنے کے لیے ہمیں چاہیےکہ ہم 24 گھنٹوں کو 3 حصوں میں تقسیم کردیں ۔8 گھنٹے کام کریں ،8 گھنٹے لوگوں سے ملیں جلیں اور دیگر کاموں میں گزاریں اور 8 گھنٹے آرام کریں ۔اگر ہم دماغی امراض میں کمی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑے گا، تا کہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکے اور دماغی امراض کی شرح کو کم کرسکیں۔

س: دماغی بیماری کی تشخص وعلاج میں تاخیر سے کس قسم کی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں ؟

ج: ہر دماغی مرض کا علاج دست یاب ہے، اگر مرض کی تشخص جلد ہو جائے تو کام یابی سے اس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ علاج میں تاخیر سے مرض پےچیدہ ہو جاتا ہے اور مرض کے ٹھیک ہونے کے چانسز کم ہوجاتے ہیں ۔مثال کے طور پراگر فالج کا علاج بر وقت ہو جائے تو ہاتھوں اور پاؤں میں ہونے والی کمزور ی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اگر علاج میں کسی قسم کی تاخیر ہوجائے تو اس بیماری کے اثرات دیر پا ہوسکتے ہیں اور مریض زندگی بھر کے لیے جسمانی معذوری کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مائیگر ین ،مرگی ،الزائمز اور مارکنسز کا بروقت علاج کروایا جائے تو اس کے بعد کے نقصانات سے بچاجاسکتا ہے۔

س: کسی بھی دماغی بیماری کے لیے اس وقت سب سے موثر طریقہ ِعلاج کیا ہے اور کیا پاکستان میں علاج کی تمام تر جدید سہولتیں موجود ہیں ؟

ج: اس وقت ہمیں دماغی امراض کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔خاص طور پر فالج اور مرگی کے بارے میں کیوں کہ یہ بہت عام بیماریاں ہیں۔ ان کی آگاہی بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے۔ ہر سال ان کے کیسز سب سے زیادہ آتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کم وپیش 300 نیورولوجسٹ موجود ہیں۔ لیکن یہ تمام ڈاکٹرز شہروں میں ہیں، دیہی علاقوں میں ماہر دماغی امراض کم ہونے کی وجہ سے مرض کی بر وقت تشخص اور علاج نہیں ہو پاتا،جس کے سبب مرض مزید پے چیدہ ہوجاتا ہے اور معذوری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

پاکستان میں اس وقت دماغی امراض کے علاج کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ اگر ان کا صحیح وقت پر استعمال کیا جائے تو دماغی امراض کے اعداد وشمار میں کا فیہ حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر فالج کے مریضوں کو فوری طورپر TPA (Tissue Plasminogen Activator) انجیکشن لگایا جائے تو ان کو معذوری سے بچایاجاسکتا ہے۔

صحت سے مزید