کہتے ہیں کہ کسی کے کام آنا ہی اصل زندگی ہےاور ایک انسان کی زندگی بچانا دراصل پوری انسانیت کو بچانے جیسا ہے۔ اسی لیے جب بھی آفات و حادثات میں زخمیوں کی تعداد بڑھتی ہے تو انہیں خون کاعطیہ دینے والوں کی تعداد ان سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے اور انسانی ہمدردی کی معراج بھی یہی ہے کہ آپ وہ چیز عطیہ کرکے دوسروں کی زندگی بچانے میں مدد کریں جو خود بھی آ پ کیلئے بہت قیمتی ہے۔
آج بھی بلڈٹرانسفیوژن کے ادارے، مختلف تعلیمی اداروں، محلوں اور کمپنیوں میں جب خون کا عطیہ لینے جاتے ہیں تو نوجوان بڑی تعداد میں اس مہم میں حصہ لیتے ہیں اور انسانیت کو اپنے خون کا تحفہ دیتے ہیں۔
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباََ ایک لیٹر یا 2 سے 3 بوتلیں خون اضافی ہوتاہے،اور ماہرین صحت کے مطابق ہر تندرست انسان کو سال میں کم سے کم دوبار خو ن کا عطیہ دینا چاہئے۔
اس سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ دیئے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100 فیصد خلیے دوبارہ تیار ہو جاتے ہیں، اور یہ خون کے خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحتمند ہوتے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوت مدافعت بھی بڑھتی ہے، موٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہو جاتاہے اور کولیسٹرو ل بھی قابو میں رہتاہے۔
خون کون دے سکتاہے ؟
خون ہر کوئی نہیں دے سکتا، لازمی امر ہے آپ کسی بھی انسان کو صحت مند خون ہی فراہم کریں گے ، ناں کہ بیماری والا ،اسی لیے انتقال خون سے قبل مختلف بیماریوں جیسے ہیپا ٹائٹس یا ایڈز وغیر ہ کی جانچ کی جاتی ہے۔ آپ خون دینے کے اہل ہیں اگر:
٭ آپ تمام تر اچھی صحت کے حامل ہیں ؛
٭آپ کی کم سے کم عمر 17 اور زیاد ہ سے زیادہ 50سال ہے ؛(خواتین کو کم سے کم 18 سال اور وزن 110پائونڈ ہونا چاہئے۔ )
٭آپ کو وزن کم سے کم 110 پاؤنڈ ہے؛
٭آپ نے پچھلے 56 دن سے خون نہیں دیا ہے
دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والوں کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ ہماری ہاں صرف ایک سے دو فیصد افراد باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں یا پھر حاثات کی صور ت میں خون دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ یہ بھی یادرہے کہ عطیہ کردہ خون کی7 جدید مشینوں پر ٹیسٹنگ کی جاتی ہے، جس میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی، ملیریا، آتشک اور ایڈز کے ٹیسٹ شامل ہیں۔
تشخیص کےبعد بلڈ گروپ اور ہیموگلوبن کے ساتھ بلڈ گروپ کی مکمل رپورٹ ڈونر کو فراہم کرد ی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ ڈونر کو یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹیسٹ کسی بھی معیاری لیب سے کروائے جائیں تو ن پر ہزاروں کا خرچہ ہوتا ہے، جبکہ خون دینے کی صورت میں یہ رپورٹ بلامعاوضہ حاصل ہو جاتی ہے۔
خون عطیہ کرنے کے فوائد
درج بالا دیگر فوائد کے علاوہ بھی خون دینے کے فوائد ہیں، جو درج ذیل ہیں :
* ایک عام انسان کے جسم میں 5 گرام آئرن ہونا ضروری ہوتا ہے، جس میں سے بیشتر مقدار خون کے سرخ خلیوں میں ہوتی ہے ، خون عطیہ کرنے سے یہ مقدار کم ہوتی ہے تو دوبارہ خون سے یہ مقدار پوری ہو جاتی ہے اور یہ تبدیلی صحت کیلئے فائدہ مند ہوتی ہے۔
* ماہرینِ طب کے مطابق خون دینے سے دوران خان کا نظام بہتر ہونے میں مدد ملتی ہے۔ خون بلاک ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور ہارٹ اٹیک کا خدشہ 80 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔
* ایک ریسرچ کے مطابق باقاعدگی سے عطیہ کرنے والوں کو مختلف امراض کا کم سامنا کرنا پڑتاہے اور ان کی اوسط عمر میں 4 سال تک کا اضافہ ہو جاتاہے۔
انتقال ِ خون کی تاریخ
سترھویں صدی کے وسط یعنی جون 1667ء میں سرجری کی تاریخ میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ ڈینس نے پہلی بار انتقال خون کا کارنامہ انجام دے کر طب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کیونکہ خون زیادہ بہ جانے کے سبب بہت سے لو گ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے تھے۔ ڈاکٹر ڈینس نے سے پہلے ایک بکری کے بچے کا خون انسان کو منتقل کیا اس کے بعد انسانوں میں انتقال خون کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس وقت تک خون کے گروپس اے ، بی ، اور ان کے مثبت اور منفی کا بھی پتہ نہ تھا۔ لیکن علمِ طب کی ترقی سے ان سب عوامل کا انکشاف ہوتا چلا گیا۔ 1930ء میں ماسکو میں موجود فوسوکی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نےانتقالِ خون کے حوالے سے ایک انوکھا تجربہ کیا۔
انہوں نے ایک حادثہ میں میں مرنے والے ایک ساٹھ سالہ شخص کا خون 12 گھنٹے کے اند رنکال کر ایک ایسے نوجوان میں منتقل کیا جس نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ کو خودکشی کرنے کا ارتکاب کیا تھا۔ اس کے بعد خون موبائل وینز کے ذریعے اسپتالوں میں پہنچایا جانے لگا۔ 1939ء میں انگلینڈ کے ڈاکٹر فلپ نے خون میں اینٹی باڈی کا موروثی طورپر منتقل ہونے کے عمل کو دریافت کیا۔
1940ء میں ڈاکٹر ایڈون کوہن نے خو ن کے مختلف حصوں مثلاََ پلازمااور سرخ خلیوں کو الگ کرنے اور انہیں اسٹور کرنے کے ذخیرے دریافت کیے۔ 1941ء میں ہلالِ احمر ( ریڈ کراس ) نے بلڈ بینک قائم کیا۔ 1943ء میں ڈاکٹر پال بی سن نے دریافت کیا کہ خون کی منتقلی کے ساتھ ان میں موجود بیماریاں جیسے کہ ہیپاٹائٹس اور ایڈز وغیرہ بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ 1948ء میں ڈاکٹر والٹر نے خون کی منتقلی کیلئے بوتلوں کی جگہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال شروع کیا۔