• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 10اکتوبر کو دنیا بَھر میں’’ ذہنی صحت کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں ذہنی بیماریوں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا اور ان سے وابستہ تصوّرات جیسے سماجی بدنامی، کلنک یا عیب (stigma) وغیرہ کو ختم کرنا ہے۔

اِس دن کو مناے کا آغاز 1992 ء میں’’ World Federation for Mental Health‘‘ نے کیا تھا، جب دنیا نے پہلی بار اِس سنگین مسئلے کی طرف توجّہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس سال یہ دن’’ ذہنی صحت ایک عالمی بنیادی انسانی حق ہے‘‘یعنی "Mental Health is a Universal Human Right‘‘ کے تھیم کے ساتھ منایا گیا۔ 

اِس سلسلے میں مختلف پروگرامز، پبلک واکس اور سیمینارز کا اہتمام کیا گیا، جن کے ذریعے یہ یاد دہانی کروائی گئی کہ ذہنی سکون، ذہنی صحت اور اس کے علاج تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جس طرح صاف پانی، تعلیم اور جسمانی علاج ہر شخص کی ضرورت اور بنیادی حق ہے۔ یہ تھیم ہمیں باور کرواتا ہے کہ کسی بھی فرد کو محض لاعلمی، غربت یا سماجی دباؤ کی وجہ سے اِس حق سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔

ذہنی صحت کا بحران

ذہنی امراض کوئی نیا مسئلہ نہیں، لیکن جدید صنعتی معاشرت، سماجی دباؤ اور بے یقینی نے اس میں کئی گُنا اضافہ کیا ہے۔ تاریخ میں ذہنی بیماریوں کو اکثر شیطانی عمل یا جادو ٹونے کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے مریضوں کو نہ صرف طبّی علاج سے محروم رکھا جاتا، بلکہ انہیں معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا۔

18 ویں صدی کے آخر میں انسانی حقوق کی تحریکوں نے اس رویّے کے خلاف آواز اُٹھائی اور مطالبہ کیا کہ ذہنی مریضوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور انہیں مناسب طبّی دیکھ بھال فراہم کی جائے۔ تاہم، اس سوچ کے عام ہونے میں صدیاں لگیں۔ 

آج بھی، جب ہم سائنسی اور طبّی ترقّی کی انتہا پر ہیں، عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً97 کروڑ افراد یعنی ہر آٹھ میں سے ایک شخص کسی نہ کسی ذہنی یا نفسیاتی بیماری کا شکار ہے، جن میں ڈیپریشن اور اضطراب (Anxiety) زیادہ عام ہیں۔

کووِڈ-19 اور ذہنی مسائل

کووِڈ-19 وَبا کے دَوران لاک ڈاؤن، سماجی دُوری، عزیزوں کے بچھڑنے اور معاشی بے یقینی نے کروڑوں افراد کو ذہنی دباؤ اور اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ ایک تحقیق کے مطابق، عالمی سطح پر ڈیپریشن اور اضطراب کی شرح میں25فی صد تک اضافہ ہوا۔ خاص طور پر خواتین، بچّے اور معاشرے کے کم زور طبقات زیادہ متاثر ہوئے، کیوں کہ ان کے تعلیمی اور سماجی تعلقات یک لخت منقطع ہو گئے۔

یہ بحران صرف افراد ہی کو نہیں، خاندانوں، معاشروں اور عالمی معیشت کو بھی تباہ کر گیا۔ ذہنی بیماریاں نہ صرف معذوری (Disability) کی سب سے بڑی وجہ ہیں، بلکہ یہ اوسط عُمر کو بھی10 سے20 سال تک کم کر سکتی ہیں۔

اِس کے خطرناک نتائج میں خودکُشی کی بڑھتی شرح، انسانی حقوق کی پامالیاں، شدید جسمانی پیچیدگیاں جیسے دل کے امراض اور ذیابطیس اور معیشت پر بھاری بوجھ وغیرہ شامل ہیں۔ 

عالمی معیشت کو ذہنی امراض کی وجہ سے سالانہ کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے، کیوں کہ ان بیماریوں کے شکار افراد کی پیداواری یا استعدادی(Productivity) صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں ذہنی صحت کی صُورتِ حال

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ذہنی صحت ایک سنگین مسئلہ بن چُکی ہے۔ مختلف تحقیقات کے مطابق، مُلک کی تقریباً 31 فی صد بالغ آبادی کسی نہ کسی ذہنی بیماری، کیفیت یا دباؤ میں مبتلا ہے۔ 

ان میں سب سے عام مرض افسردگی (Depression) ہے، جس کی شرح اوسطاً 17 سے 18 فی صد ہے، لیکن کووِڈ کے دَوران یہ شرح40 فی صد سے بھی تجاوز کر گئی۔ دوسرا عام مرض اضطراب ہے، جو خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے اور دباؤ زدہ ماحول میں رہنے والوں میں 50 فی صد سے زائد پایا جاتا ہے۔

خواتین، بچّوں اور نوجوانوں کے مسائل

پاکستان میں خواتین میں ڈیپریشن اور اضطراب کی شرح مَردوں سے زیادہ ہے۔ اس کی وجوہ میں سماجی دباؤ، معاشی مسائل، گھریلو تشدّد، کم تعلیم یافتہ طبقات میں مَردوں کا سخت گیر اجار دارانہ رویّہ اور صنفی ناہم واری شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں جہاں تعلیم اور وسائل کی کمی ہے، وہاں صُورتِ حال مزید خراب ہے۔ 

اِسی طرح بچّوں اور نوجوانوں میں بھی ذہنی مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ تعلیمی دباؤ، بے روزگاری کا خوف اور مستقبل کی غیر یقینی صُورتِ حال ان امراض میں مزید شدت پیدا کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا اور موبائل گیمنگ کا بڑھتا استعمال اور اس سے جنم لینے والا سائبر بلنگ اور سماجی موازنہ (social comparison) بھی نوجوانوں میں خود اعتمادی کی کمی اور ذہنی دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔

منشیات کا استعمال

پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کی بڑھتی شرح میں سب سے اہم عُنصر منشیات کا بڑھتا استعمال ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک میں70 سے80 لاکھ افراد کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں، جب کہ نوجوان طبقہ اِس سے زیادہ متاثر ہے۔ یونی ورسٹیز، کالجز، یہاں تک کہ اسکولز میں بھی منشیات، خصوصاً الیکٹرانک سگریٹ(Vape) کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پہلے روایتی منشیات، جیسے ہیروئن اور چرس وغیرہ، زیادہ عام تھیں، لیکن اب آئس (Methamphetamine) جیسا خطرناک نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے، جسے اکثر طلبہ امتحانات یا دیگر معاملات میں کارکردگی بڑھانے یا سُرور حاصل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

شہری اور پوش علاقوں میں ویپ اور شیشے کا استعمال ایک فیشن اور اسٹیٹس سمبل بن چُکا ہے۔ والدین اور معاشرہ اکثر انہیں کم نقصان دہ سمجھتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک غلط فہمی ہے۔ ویپ میں موجود نیکوٹن دماغی انتشار پیدا کرتی ہے اور اس کے طویل عرصے تک استعمال سے پھیپھڑوں اور دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں۔ اِسی طرح، ایک گھنٹہ شیشہ پینا تقریباً 100سگریٹ پینے کے برابر نقصان دہ ہے۔ 

یہ دونوں نہ صرف جسمانی صحت، بلکہ ذہنی توازن بھی متاثر کرتے ہیں، جب کہ یہ نوجوانوں میں ڈیپریشن اور اضطراب میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔منشیات کا استعمال براہِ راست دماغی کیمیکلز کا توازن بگاڑ دیتا ہے، خاص طور پر ڈوپامین جیسے نیورو ٹرانسمیٹر کا۔ یہ کیمیکل خوشی اور روحانی خوشی یا انعام کا احساس دلاتا ہے اور نشے کے استعمال سے دماغ اس کی زیادہ مقدار پیدا کرتا ہے۔ جب نشہ چھوڑ دیا جائے، تو دماغ اس کی پیداوار کم کر دیتا ہے، جس سے شدید ڈیپریشن اور اضطراب ہوتا ہے۔ 

اس کے نتیجے میں یادداشت، توجّہ اور فیصلہ سازی کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔ مسلسل نشے کے استعمال سے نوجوان نہ صرف تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ اُن کی سماجی زندگی اور تعلقات بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ منشیات کی زیادتی اکثر تشدّد، خودکُشی اور سنگین نفسیاتی امراض جیسے سائیکوسس، بائی پولر ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا کی طرف لے جاتی ہے۔

سرنج کا غیر ضروری، غیر محتاط استعمال

ذہنی صحت کے مسائل کو سنگین بنانے والے عناصر میں انجیکشن کے ذریعے نشہ آور ادویہ یا منشیات کا استعمال ایک بڑی حقیقت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ایسے افراد، جنہیں سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد، Injecting Drug Users یا (PWID) کہا جاتا ہے، اکثر غربت، لاعلمی اور سماجی بدنامی کی وجہ سے صاف سرنج یا سوئی تک رسائی نہیں رکھتے، جس کے باعث وہ استعمال شدہ سوئیاں دوبارہ استعمال کرنے یا دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ غیر محفوظ رویّہ نہ صرف جسمانی، بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ 

پاکستان، خاص طور پر سندھ اور کراچی میں کیے گئے مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے افراد میں ایچ آئی وی/ایڈز کی شرح عام آبادی سے کئی گُنا زیادہ ہے۔(تقریباً 15 سے 21 فی صد، جب کہ کراچی کے بعض علاقوں میں یہ شرح48 فی صد تک رپورٹ ہوئی ہے)۔ اِسی طرح ہیپاٹائٹس-سی سب سے زیادہ پایا جانے والا انفیکشن ہے، جو PWID میں اوسطاً 50فی صد سے بھی زیادہ ہے، جب کہ کراچی میں کچھ مطالعات میں یہ شرح 80 سے 90 فی صد تک سامنے آئی ہے۔ 

ہیپاٹائٹس-بی کی شرح نسبتاً کم، مگر عام افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ، یعنی5 سے 15فی صد تک رپورٹ ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سوزاک (Syphilis)بھی ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے، جس کی شرح سندھ اور کراچی میں10 سے38 فی صد تک دیکھی گئی ہے اور کئی افراد میں یہ بیماریاں HIV کے ساتھ بیک وقت موجود پائی گئی ہیں۔ یہ تمام امراض نہ صرف جسمانی معذوری بلکہ شدید ذہنی دباؤ، سماجی تنہائی اور علاج تک رسائی میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، جس سے ذہنی صحت مزید بگڑ جاتی ہے۔ 

اِس پس منظر میں انجیکشن کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کو محض نشئی سمجھ کر نظرانداز کرنے کی بجائے، اُنہیں ایک ایسے نازک گروپ کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے، جو بیک وقت نشے کی لت، متعدی امراض اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کے لیے Needle Exchange Programs، HIV ، نشے کےعلاج اور منشیات کی بحالی کے مراکز تک رسائی اور ہیپاٹائٹس کی باقاعدہ تشخیص، علاج، ہیپاٹائٹس-بی کی ویکسی نیشن اور نفسیاتی معاونت (کاؤنسلنگ)جیسے اقدامات ضروری ہیں۔

ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال

جدید ٹیکنالوجی کا بے جا اور غیر متوازن استعمال ہماری ذہنی اور نفسیاتی صحت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چُکا ہے۔ یہ صرف وقت کا زیاں نہیں، بلکہ ہمارے دماغی اور جذباتی نظام کو کئی طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز پر ہائی اسکرین ٹائم نے ایک ایسی’’ڈیجیٹل تنہائی‘‘ کو جنم دیا ہے، جہاں فرد ہزاروں دوستوں سے آن لائن جڑا ہوتا ہے، لیکن حقیقی دنیا میں مکمل طور پر اکیلا ہوتا ہے۔ 

یہ ورچوئل دنیا ہمیں ایک جھوٹی تسکین فراہم کرتی ہے، جو ڈوپامین نامی ہارمون کی فوری پیداوار کا باعث بنتی ہے، جس سے ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ تاہم، یہ احساس عارضی ہوتا ہے اور اس کے ختم ہونے پر ذہن دوبارہ اُسی کیفیت میں آجاتا ہے، جہاں سے اُس نے آغاز کیا تھا، جس سے اسکرین پر گزارے جانے والے وقت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ 

یہ ایک مہلک چکر ہے، جو انسان کو حقیقی دنیا کی سرگرمیوں، جیسے کہ جسمانی ورزش، مطالعے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے سے دُور لے جاتا ہے۔ موبائل فون کے بے جا استعمال کا سب سے بڑا نفسیاتی نقصان سماجی اور جذباتی نشوونما کی رکاوٹ ہے۔ 

نوجوان حقیقی دنیا کے تعلقات کو سمجھنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں، کیوں کہ اُن کی بات چیت کا انحصار زیادہ تر ٹیکسٹنگ اور ایموجیز پر ہوتا ہے۔ وہ چہرے کے تاثرات، باڈی لینگویج اور لہجے کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہے ہیں، جو ایک صحت مند تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ 

اس کے علاوہ، سوشل میڈیا پر موجود افراد(Bloggers / Vloggers/Celebrities) سے مستقل اپنا موازنہ اور اُن کی تقلید و مسابقتی خواہش نوجوانوں میں بے چینی، احساسِ کم تری، ڈیپریشن اور بے یقینی کا باعث ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی دوسروں کی طرح پُرکشش نہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

نیند اور ذہنی توازن

موبائل فون کی اسکرین سے نکلنے والی نیلی روشنی ہماری نیند کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ روشنی ہمارے جسم کی قدرتی گھڑی (Circadian Rhythm) کو متاثر کرتی ہے، جو نیند کے ہارمون، میلاٹونن کی پیداوار روکتی ہے۔ نتیجتاً، نیند کا شیڈول بگڑ جاتا ہے، جس سے تھکاوٹ، چڑچڑاپن اور توجّہ کی کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 

یہ تمام عوامل طویل مدّت میں افسردگی اور اضطراب جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، موبائل فون پر مسلسل نوٹی فیکیشنز اور پیغامات کی گھنٹی ہمارے ذہن کو مسلسل چوکنا رکھتی ہے، جس سے تناؤ اور بے چینی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔

حل اور احتیاطی تدابیر

اِن مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن اور اِس سے متعلق شعور پیدا کریں۔ ڈیجیٹل ڈیٹوکس: دن میں کچھ وقت کے لیے موبائل فون سے مکمل طور پر دُور رہیں۔ یہ دماغ کو آرام اور آف لائن سرگرمیوں پر توجّہ دینے کا موقع دے گا۔ اسکرین کا وقت محدود کریں: اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کی حد مقرّر کریں اور اس کی پابندی کریں۔ 

نیند کا شیڈول بہتر بنائیں: سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے موبائل فون کا استعمال تَرک کر دیں تاکہ جسم کو آرام اور نیند کے لیے تیار ہونے کا وقت ملے۔ حقیقی دنیا کے تعلقات کو فروغ دیں: خاندان اور دوستوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور آف لائن سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

خود آگاہی: جب آپ خود کو بے چین، مضطرب یا تنہا محسوس کریں، تو غور کریں کہ کیا اس کی وجہ موبائل فون کا زیادہ استعمال تو نہیں۔ کیوں کہ کسی بھی چیز کی مستقل طلب اور اس کے بغیر رویّے میں شدید تبدیلی یا بے چینی اس کی انحصاریت یعنی اُس کے استعمال کی زیادتی کی نشانی ہے۔

ذہنی صحت کی سہولتیں اور درپیش چیلنجز

پاکستان میں ذہنی صحت کا ڈھانچا اِس بڑھتے بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔ اِس ضمن میں ماہرین کی قلّت، فنڈز کی کمی اور اس سے وابستہ سماجی یا معاشرتی بدنامی بڑی رکاوٹیں ہیں۔پنجا ب: لاہور میں Punjab Institute of Mental Health پاکستان کا سب سے بڑا نفسیاتی اسپتال ہے، جس کی تاریخ 1900 ء کی دہائی سے وابستہ ہے۔ یہ نہ صرف مریضوں کو علاج فراہم کرتا ہے بلکہ ماہرینِ نفسیات کی تربیت اور تحقیق کا بھی مرکز ہے۔ 

اس کے علاوہ فیصل آباد، ملتان اور راول پنڈی کے تدریسی اسپتالوں میں بھی سہولتیں میسّر ہیں۔ سندھSindh Mental Health Authority قیام ایک مثبت قدم ہے۔ اس نے مینٹل ہیلتھ پالیسی متعارف کروائی ہے تاکہ ذہنی صحت کی خدمات منظم کی جا سکیں۔ حیدرآباد میں Sir Cowasjee Jehangir Institute of Psychiatry سندھ کا سب سے بڑا اسپتال ہے، جب کہ کراچی میں سِول اسپتال، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر اور Institute of Behavioural Sciences, Dow University of Health Sciences میں بھی جدید سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ 

نیز،’’ کاروانِ حیات‘‘ جیسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس میدان میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، جب کہ کراچی میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تحت منشیات کے مریضوں کے علاج و بحالی کا مرکز بھی کام کر رہا ہے۔ سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کے لیے تمام بڑے اضلاع میں یو این ڈی پی کی مالی معاونت سے’’ ننی زندگی‘‘ این جی او سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔

خیبر پختون خوا: اِس صوبے میں لیڈی ریڈنگ اسپتال اور ایوب ٹیچنگ اسپتال میں ذہنی صحت کے یونٹس موجود ہیں، تاہم وسائل کی کمی وہاں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بلوچستان: اگر بلوچستان کی بات کریں، تو وہاں سہولتیں انتہائی محدود ہیں اور زیادہ تر مریضوں کو بنیادی علاج ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کی کمی، محدود وسائل، اسٹگما، علاج پر زیادہ اخراجات اور طوالت کی وجہ سے لوگ بروقت مدد حاصل نہیں کر پاتے، جو کہ ذہنی مسائل کے مستقل اضافے کی وجوہ ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل ایک سنگین سماجی اور طبّی چیلنج بن چُکا ہے۔ ان کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ معاشرتی بدنامی اور شرمندگی کا عُنصر ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل چُھپاتے ہیں اور بروقت مدد حاصل نہیں کرتے۔ 

اس کے ساتھ، ماہرِ نفسیات اور کاؤنسلنگ کی سہولتوں کا فقدان، خصوصاً دیہات اور غریب علاقوں میں، صُورتِ حال کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ عوامی سطح پر آگاہی کی کمی، بروقت تشخیص نہ ہونا اور صحت کے نظام میں ذہنی صحت کو ثانوی حیثیت دینا بھی اہم مسائل ہیں۔ جدید طرزِ زندگی، سوشل میڈیا کا دباؤ، بے روزگاری، خاندانی دباؤ اور منشیات کے بڑھتے رجحانات نے ڈیپریشن، اضطراب اور دیگر نفسیاتی امراض میں اضافہ کیا ہے۔

اِن چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ مثلاً ذہنی صحت کو پرائمری ہیلتھ کیئر کا حصّہ بنایا جائے اور ہر بنیادی صحت مرکز پر کاؤنسلنگ اور مشاورت کی سہولت فراہم کی جائے۔ اسکولز اور جامعات میں نفسیاتی مشاورت: تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشیر کی تعیّناتی لازمی قرار دی جائے تاکہ طلبہ اپنے مسائل بروقت شیئر کر سکیں۔ منشیات کے خلاف قانونی اور عملی اقدامات: حکومت کو شیشہ کیفیز اور ویپ سیلز پر سخت پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ 

ساتھ ہی، نشے کے عادی افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ علاج (Detoxification)اور بحالی (Rehabilitation) مراکز قائم کیے جائیں۔ میڈیا اور معاشرے کا کردار: میڈیا کو ذہنی امراض اور منشیات کے نقصانات سے متعلق آگاہی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذہبی رہنما بھی اپنے خطبات میں ذہنی صحت اور نشے کے نقصانات پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ 

حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کر ذہنی صحت کی سہولتیں بہتر بنانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ والدین کو اپنے بچّوں سے کُھل کر بات کرنی چاہیے، اُن کی ذہنی حالت پر نظر رہے اور ضرورت پڑنے پر طبّی مدد حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

حرفِ آخر

ذہنی صحت کا فروغ اور نفسیاتی امراض کی روک تھام صرف حکومت ہی کا نہیں، پورے معاشرے کا فریضہ ہے۔ جس طرح ہم جسمانی بیماریوں کے علاج کو ضروری سمجھتے ہیں، اِسی طرح ذہنی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے۔ ایک صحت مند، ترقّی یافتہ معاشرے کا قیام تب ہی ممکن ہے، جب ہم اس کے ہر فرد کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔ جہاں کوئی بھی فرد ذہنی امراض سے مشروط غلط تصوّرات، توہمّات، مفروضات یا لاعلمی کی وجہ سے اپنے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔ ( مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سندھ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید