حمزہ خان نےجونیئر اسکواش چیمپئن شپ جیت کر اسکواش کورٹ میں37 سال بعد پاکستانی پرچم کو سر بلند کیا تو قوم کی ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئیں۔
اب قوم کی نظریں اس بات پرمرکوز ہیں کہ کیا حمزہ خان لیجنڈ کھلاڑی جان شیر خان کے نقشِ قدم پر چل سکیں گے۔
حمزہ خان اور جان شیر خان میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں جیسے کہ دونوں کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے ہے۔
ان دونوں کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں سابق برٹش اوپن چیمپئن قمر زمان اور شاہد زمان جیسے عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا ہوئے۔
جان شیر خان کی طرح حمزہ خان کا تعلق بھی ایک معمولی خاندان سے ہی ہے اور اُنہوں نے بھی بہت سے مالی مسائل کا سامنا کیا اور بہت کوششوں کے بعد بالآخر ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
ان مماثلتوں کے باوجود بھی حمزہ خان کو جان شیر خان کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 1986ء میں جب جان شیر خان ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپئن شپ کے لیے برسبین میں اترے تو وہ واحد ایشیائی کھلاڑی تھے۔
اُنہوں نے فائنل تک رسائی حاصل کی اور پھر اپنے مخالف روڈنی آئلس کو شکست دی جوکہ چیمپئن شپ کے تاریخی میچز میں سے ایک تھا۔
جان شیر خان نے فائنل میں 2-9، 0-9، 0-9 سے روڈنی آئلس کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی جوکہ آسٹریلیا کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔
جونیئر اسکواش چیمپئن شپ جیتتے ہی اُنہیں اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اب دنیا کا نمبر1 اسکواش کھلاڑی بننے میں کچھ ہی وقت اور لگے گا حالانکہ اس وقت اسکواش کے عظیم پاکستانی کھلاڑی جہانگیر خان اپنے کیریئر کے عروج پر تھے۔
اس لیے حمزہ خان جوکہ اتوار کو37 سال بعد پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپئن شپ جیتے ہیں اُنہیں بھی ایسا ہی محسوس ہونا چاہیئے۔
جان شیر خان کی طرح حمزہ خان کو بھی اب بڑے مقاصد کے حصول کے لیے بڑا سوچنا ہوگا۔
1986ء میں جب جان شیرخان نے برسبین میں ورلڈ جونیئر اسکواش چیمپئن شپ جیتی تو وہاں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی نہیں تھا اور اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے ہیرو جہانگیر خان تھے، اسی لیے جان شیر خان کی فتح کی خبر پر اس طرح خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا جس طرح حمزہ خان کی جیت پر کیا گیا۔
لیکن جان شیر خان نے ان سب باتوں کی بالکل پروا نہیں کی اور ان کی نگاہیں ورلڈ جونیئر چیمپئن شپ سے بڑے ٹائٹل پر مرکوز تھیں۔
ان کا ہدف جہانگیر خان جیسا بننا تھا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں جان شیر خان، جہانگیر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اسکواش کی تاریخ کے ایسے واحد کھلاڑی بن گئے جس نے بیک وقت ورلڈ جونیئر اور ورلڈ اوپن دونوں ٹائٹل اپنے نام کیے۔
اب سوال یہ ہے کہ جان شیر خان نے جونیئر ٹائٹل جیتنے کے بعد اتنی جلدی ایک اور بری کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیا کیا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی فٹنس اور کھیل دونوں پر سخت محنت کی اور تجربہ کار کھلاڑی محمد یاسین کے زیر نگرانی تربیت حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ چلے گئےجوکہ اس وقت اسکواش کی دنیا کا مرکز تھا۔
محمد یاسین نے جان شیر خان کے بارے میں کہا کہ ’جان شیر میں وہ تمام اجزاء موجود تھے جوکہ انسان کو عالمی چیمپئن بناتے ہیں اور میں نے کبھی کسی کو اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا جتنی اس نے کی‘۔
جان شیر خان کی اس شاندار کامیابی میں ایک اور پہلو بہت مددگار ثابت ہوا جوکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا تعاون تھا۔
برسوں سے پی آئی اے نے قومی کرکٹرز، ہاکی اور سکواش کے کھلاڑیوں کی حمایت کی اور قومی ایئر لائن کے اس تعاون سے فائدہ اٹھانے والوں میں جان شیر خان بھی شامل ہیں۔
حمزہ خان کو بھی اسی طرح کی حمایت کی ضرورت ہوگی لیکن اب بدقسمتی سے اس بات کا امکان نہیں ہے کیونکہ اب پی آئی اے پہلے جتنا مستحکم ادارہ نہیں رہا جتناجان شیر خان کے دور میں تھا۔
میلبورن میں تاریخی فتح سے ہمکنار ہوکر حمزہ خان نے ابھی صرف اسکواش کی دنیا میں پہلا قدم رکھا ہے۔
یہ زبردست کامیابی پاکستان میں اسکواش کے لیے ایک شاندار نئے باب کا آغاز کرتی ہے یا نہیں، اس بات کا انحصار حمزہ کی محنت اور اُنہیں ملنے والی مالی مدد پر ہوگا۔