پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی امانت تصور کرتا ہے۔ اسلام کے پیرو کار اللہ کی مرضی کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینے کو سب سے بڑی نعمت و سعادت سمجھتے ہیں۔ اللہ کی ہر نعمت کا عملی شکرانہ اُ ن کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت نہ ہونے دیں۔ انسانی زندگی ، انفرادی ہو یا اجتماعی ، مسلمانوں کے لئے ایک نصب العین حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور وہ نصب العین رضائے حق اور منشائے ایز دی کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک مومن کی زندگی کے لئے عملی شکرانۂ حق اور نعمت خداوندی کی صحیح قدر و قیمت کا نمونہ ہے۔ اسلامی سال کا آخری مہینہ ذوالحجہ ہمارے سامنے حضرت ابراہیم ؑ کی توحید اور حضرت اسماعیل ؑ کی آرزوئے شہادت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ جبکہ محرم میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا عملی واقعہ پیش آتا ہے۔ یہ اسلامی زندگی کی دو تصویر یں ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو حضرت اسماعیل ؑکی طرح زندہ رہو اور حسین ؓ کی طرح جان دےکر ابدی زندگی سے ہمکنار ہو جاؤ۔حضرت امام حسین ؓ نے یزید کے مظالم اور یزیدی اقتدار کے خلاف جہادِ حق کی بنیاد رکھی اور اعلان کیا کہ ’’جس حکومت کی بنیاد جبر و ظلم پر ہو، اس کی اطاعت و وفاداری سے انکار لازم ہے۔ ‘‘
قصہ مختصر حضرت امام حسین ؓ کا یزید کی بیعت سے انکار اور اعلان جہاد انہیں کربلا کے میدان میں لے آیا۔ میدان کربلا میں یزیدی سپاہ ، کوفہ کے بے وفاؤں اور عہد شکن مخالفین نے امام حسینؓ کو ساتھیوں اور اہلِ بیت اطہارؓ کے ساتھ چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ شبِ عاشور امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا ’’تم لوگ چاہو تو رات کی تاریکی میں میرے اہل بیت ؓکا ہاتھ پکڑو اور خاموشی سے ادھر اُدھر نکل جاؤ میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ یہ لوگ صرف میری جان لےکر تم سے غافل ہو جائیں گے۔ ’’ارباب ِ وفا اور رفیقانِ صبر و رضا میں سے کوئی ایک بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا اور سب نے اپنے سردار و امام حسینؓ کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا عہد کر لیا۔
دوسری صبح یعنی یوم عاشور کو امام حسینؓ نے یزیدی فوج اور اہل کو فہ کے سامنے یوں اتما م حجّت فرمائی کہ ’’لوگو! میری بات سنو !! جلدی نہ کرو، مجھے نصیحت کرلینے دو، اپنا عذر بیان کر لینے دو، اے لوگو! میرا حسب نسب پہچانو، سوچو میں کون ہوں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اپنے ضمیروں کا احتساب کرو، کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا روا ہے‘‘۔ یہ پتھروں کو موم کردینے والا خطاب بھی مخالفین کو اُن کے ارادے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس اتما م حجّت ہو جانے کے بعد امام و سید الشہداء نے گویا کہ اپنا فرض ادا کردیا۔
دس محرم 61ھ کو طلوع ہونے والے سورج نے تاریخ اسلام کا وہ درد ناک سانحہ دیکھا جس کی مثال ممکن نہیں۔ حق اور نیکی کے ایک ایک پرستار نے مردانہ وار مقابلہ کیا ہزاروں کے مقابلے میں 72نقوسِ قدسیہ نے اپنی زندگیاں ملت کی بقا اور اتحاد امت کے لئے نچھاور کردیں۔ رسول پاک ﷺ کا گھرانہ ایک مرتبہ پھر دنیا کی نجات اور انسانوں کے لئے حریت فکر کا ذریعہ بن گیا۔
ہماراسلام ہو سیدالشہداء امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں پر جو ہمیں زندہ رہنے اور مرنے کا طریقہ بتاگئے۔ انہوں نے موت کے ’’راز‘‘ کی گرہ کُشائی کر دی۔ موت کی تلاش میں سرگرداں ریگ زارکربلا کے تپتے صحرا کو پاؤں تلے روند ڈالا، یہ موت اُن کے لئے سانحہ حیات آفریں تھا۔ لقائے محبت کی طلبِ صادق نے موت کے پردے کو ہٹایا تو ’’رضی اللہ عنہم و رضواعنہ‘‘ کی منزل سے ہمکنار ہو گئے۔
امت مسلمہ کو اسوۂ حسینی ؓ کا یہ درس کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ جب زندگی مشکل ہو جائے، حق سرنگوں ہو اور باطل کے ابھرنے کا امکان ہو تو مومنِ حق کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو آسان بنانے اور حق کو سر بلند کرنے کے لئے موت کو فتح کرنے کا سامان پیدا کرے، یعنی راہ حق میں جان دے دے۔ اللہ کی راہ میں جان دے دے دینا ابدی زندگی حاصل کر لینا ہے اور دنیا میں وہی افراد اور قومیں زندہ رہتی ہیں جو مرنا جانتے ہیں۔
ہم آج بھی اپنے ارد گرد نظرڈالیں ، تو یہ محسوس ہوگا فرض کی یہ پکار صرف کربلا ہی میں نہیں تھی، بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے ایک اٹل اور محکم قانون ہے۔ آج دنیا اور خصوصاً عالم اسلام کے ہر میدان کار زار میں اور امتِ محمدیہ میں جہاں جہاں جبر و استبداد کا دور دورہ ہے۔ مظلوم انسانیت کے لئے نجات کا راستہ ایک ہی ہے۔ یعنی ایک طرف دنیاوی جاہ و حشم ، مال و منال، حکومت و سیاست، عزیز و اقارب کی محبت ، دولت و عزت اور اس کی تمام رنگینیاں اور دوسری طرف نیکی اور سچائی کی حمایت، بھوک اور پیاس کی زہرہ گداز تکالیف ، اپنی اور بچوں کی قربانی۔
آج زمانے کی آنکھ یہ دیکھنے کے لئے ترس گئی ہے کہ ہم کب سنت حسین ؓ کو زندہ کرتے اور اسوۂ حسینی ؓ پر عمل کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس نظام زندگی پر ہم خوش ہیں، وہ سیدالشہداء حضرت امام حسین ؓ کے عقیدہ و دین اور فکر و نظر میں مکر، کفر اور ظلم ہے۔ مگر ہم اپنی زندگیوں کو بدلنے اور اپنا نظام زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ آج جہاد، قربانی اور شہادت کے اصولوں کو چھوڑ کر ہم دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا شکار ہیں۔ عزیز و اقارب ، مال و دولت کی محبت اور حکومت و اقتدار کی ہوس نے ہمیں خود غرض اور بے کار کردیا ہے۔ موت کے خوف اور موت و زندگی بخشنے والے سے بے خوفی نے ہمیں بزدل اور کمزور بنا دیا ہے۔ نہ ہم زندہ رہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں نہ مرنے کا طریقہ۔
کربلا جاتے ہوئے امام حسین ؓ نے فرمایا تھا کہ ’’واللہ مجھے یہی امید ہے کہ اللہ کو ہمارے ساتھ بھلائی منظور ہے۔ چاہے شہید یا فتحیاب ہوں۔‘‘
امام حسین ؓ کی طرح سچائی کے چاہنے والے ساز و سامان اور کثرت و قلت سے بے نیاز ہو کر ہر مرحلہ پر باطل کو بلا خوف و خطر ٹوکتے اور للکارتے ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ زندگی و موت دونوں میں ان کی بھلائی ہے۔ سیدالشہداء امام حسین ؓ کے اسوۂ مبارکہ اور قربانی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین پر اصل چیز نیکی ہے اور سچی طاقت وہی ہے جو نیکی سے پیدا ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی طرح طاقت حاصل کرکے نیکی کی توقع رکھنا غلط ہے۔
ظلم ، جھوٹ، مکاری، عیاری اور منافقت کا مقابلہ صرف انصاف، سچائی اور بہادری سے کرنا شانِ ایمان اور مومن کا امتیازہے۔ اسلام نے ابو جہل کے مقابلے میں کبھی ابوجہل پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کا توڑ ہمیشہ صدیق، شہید اور صالح سے کیا گیا۔ میدان کربلا میں شہادتِ حسینؓ نے جو انقلاب پیدا کیا اس سے ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاکے بعد‘‘ کے مصداق ملت زندہ ہوگئی ۔اسوۂ حسینؓ یہ ہے کہ تم اُن نتائج کی ذرا بھی پروا نہ کرو، اگر ظلم اور جبر کا وجود ہے تو اس کے لئے حق کی قربانی ناگزیر ہے۔
آج ملتِ اسلامیہ کشمیر سے لے کر افغانستان ، چیچنیا، میانمار، عراق ، فلسطین ، لبنان اور شام تک پھر خستہ حال ، زخمی اور شکست و مغلوبیت کا شکار ہے۔ امام حسینؓ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا، کربلا آنا، کربلا میں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھوکا پیاسا رہنا، اور ان معصومین کی قربانی پیش کرنا اور آخر الامر خود بھی شہید ہو جانا۔ امام حسینؓ نے یہ سب دراصل صرف اس لئے کیا کہ اللہ کی حاکمیت قائم ہو۔ دین کی بقا اور اسلام کی سربلندی آپ کا نصب العین تھا۔اہلِ اسلام اور حسینیت کے علمبرداروں کو اسوۂ حسینی ؓ سے سبق لینا چاہیے۔ اسوۂ حسینی کو چراغ راہ بنانا چاہئے، اس لئے اسوۂ حسینیؓ انسانوں کے لئے روشنی کا مینار رہا ہے اور رہے کا۔اسوۂ حسینی تقاضائے وقت ہے۔