پشاور(سٹاف رپورٹر)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے صوبہ کو بجلی کو پورا کوٹہ نہ ملنے کیخلاف احتجاجاًواپڈاہائوس بند کرنے اورملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کا نفاذہرصورت روکنے اور اس سلسلے میں ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مخالفین جس تبدیلی کو تلاش کررہے ہیں وہ کب کی آچکی ہے لیکن انھیں نظر نہیں آرہی ،ہم ہر شعبہ میں تبدیلی لائے ہیں جس کی وجہ سے آج عوام سکھ کا سانس لے رہے ہیں لیکن مخالفین اس کا موازنہ درست طریقہ سے نہیں کرتے ،جاری سال کے دوران ہمیں مرکز کی جانب سے مالی مشکلات کا سامنا رہا اور50ارب سے زائد کی ادائیگی نہیں ہوپائی، منگل کے روز صوبائی اسمبلی میں بجٹ منظوری کے بعد خطاب کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ تیس سالوں سے حکومتوں کو دیکھ رہاہوں کوئی کچھ نہیں کرسکا لیکن ہم نے گزشتہ پچیس سالوں سے بجلی کا6ارب پر منجمد منافع بڑھا کر18ارب روپے کروایا جسے اب25ارب تک بڑھوایاجائے گا جبکہ بقایاجات کی مد میں ہم نے 70ارب کا حصول بھی ممکن بنایا ہے جبکہ صوبہ کے عوام کے ذمے جو 18ارب تھے وہ بھی قرضہ واپس کیاتاہم اب تک ہمیں مرکز کی جانب سے25ارب مل نہیں سکے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمارے حصہ کا وہ پانی جو دیگر صوبوں نے استعمال کیاہے کے بدلے مرکز سے چشمہ رائٹ بنک کنال جیسا منصوبہ حاصل کیا جو121ارب کا ہے جبکہ صوبہ کےلئے اضافی گیس سے سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی بھی منظوری حاصل کرلی گئی ہے جو صنعتوں کوبلاتعطل چوبیس گھنٹے فراہم کی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم شور نہ مچاتے تو اس صورت میں سی پیک سے کچھ بھی نہ دیاجاتا لیکن ہمارے شور مچانے پر ہمیں دیگر صوبوں کی طرح ایک اقتصادی زون کی فراہمی کے علاوہ پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان تک ایکسپریس وے اور ریل کی فراہمی کی گئی ہے جبکہ ہم نے جھنڈ کوہاٹ روڈ بھی اس میں شامل کرایاہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی سے بھیک نہیں بلکہ اپنا قانونی وآئینی حق مانگتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیاجاتا ہے جیسے ہم پاکستان کا حصہ ہی نہ ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مرکز سے پی ایس ڈی پی میں بھی سکیمیں لی ہیں تاہم ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہمارے حصہ کی بجلی ہمیں روزانہ فراہم کی جائے لیکن ہمیں جو بجلی فراہم کی جاتی ہے وہ ہمارے حصہ سے پانچ سو سے چھ سو میگاواٹ کم ہوتی ہے حالانکہ اگر ہمیں پوری بجلی ملے تو لوڈ شیڈنگ نصف ہوجائے گی ۔انہوں نے کہا کہ ریکوری کرنا واپڈا کا کام ہے جو خود ہی کنڈے بھی لگاتے ہیں ،میٹر بھی ریورس کرتے ہیں اوررشوت بھی لیتے ہیں ،ہم نے تو انھیں پیشکش کی کہ ہم ان کے ساتھ ریکوری کرنے کے لیے تیا رہیں لیکن یہی پیچھے ہٹ گئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے سال70ارب ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے جبکہ دوسرے سال 92فیصد فنڈز استعمال کیے گئے جبکہ تیسرے سال یہ 85فیصد پر پہنچ گئے لیکن اس کے باوجود کوبھی کسی دوسرے صوبہ سے نہیں بلکہ سب ہم ہی سے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کی بابت پوچھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مرکزی حکومت سے ہمیں بجلی منافع کے 25ارب نہیں ملے جبکہ تیل وگیس کی مد میں بھی 8 ارب کی کمی آئی اورٹیکسوں میں بھی17 ارب کم ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں صاف ستھرا صوبہ نہیں ملا بلکہ رشوت،سفارش ،عمارات میں ناقص میٹریل اور دیگر مسائل ملے ،دو ،دوکمروں کے سکول بناکر غریبوں کے بچوں کو تباہ کیاجارہاتھا جبکہ اب ہم نے یہ سکول 6کمروں تک بڑھادیئے ہیں اوراساتذہ کی تقرر وتبادلوں میں بھی مداخلت ختم کردی جائے تو حالات مزید بہتر ہوجائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت میں ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کی وجہ سے ہم نےفیصلہ کیاہے کہ ہم تحصیل وضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو بھی مکمل طور پر خود مختاری دینگے جبکہ ہیلتھ انشورنس کو صوبہ بھر تک پھیلانے سے ایک کروڑ افراد کو فائدہ ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ صفائی کے نظام کیلئے ڈبلیو ایس ایس پی کا دائرہ کار تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز تک پھیلا دیاگیاہے جبکہ 1122کا دائرہ بھی اس سال بارہ اضلاع تک پھیلادیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم بے روزگاری کے خاتمے کیلئے ٖفنی تعلیم کو عام کررہے ہیں جبکہ ہم نے صنعتی پالیسی بھی دی تاکہ نئی صنعتیں لگ سکیں جس کے حوالے سے ہم نے شرح قرضوں پر شرح منافع میں سے بھی پانچ فیصد ادا کرنے کا اعلان کیا ۔انہوں نے کہا کہ اگر بیوروکریسی نظام ٹھیک کرسکتی تو اب تک حالات میں کافی بہتری آچکی ہوتی لیکن یہ ان ک بس کا روگ نہیں یہ نظام ہم نے ہی ٹھیک کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے اور ملک کا موسم تبدیل ہورہاہے جسے پودے لگاکر ہی بہتر بنایاجاسکتاہے جس کے لیے ہم نے اس سال پچاس کروڑپودے لگانے کا ہدف پوراکرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بنک آف خیبر کیس میں وزیر کو بدنام کیا گیا جس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ،انہوں نے صرف دو کلاس فور ملازمین کی بھرتی کی سفارش کی تھی ،اس سلسلے میں میں نے اپنے طور پر ایک فیصلہ کررکھاہے تاہم اپوزیشن بھی اس سلسلے میں مشاورت کرلے جس کے بعد حتمی فیصلہ کیاجائے گا۔