• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ حکومت کی ناقص ترین حکمرانی نے نظام کا بھٹہ بٹھادیا ہےاور صوبے کو مالی اور انتظامی طور پر کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ بے لگام کردیا ہے ۔ریاست کے وجود کا خوف رعایا کے دلوں سے گویاختم ہوگیا ہے جس کا مداوا کرنے کیلئے سنجیدہ حلقوں کوانتہائی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہو گی اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نظام مزید تباہی و بربادی کی جانب جائے گا۔ آس پاس کے ڈیروں میں خبریں گرم ہیں کہ نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے کے خریدار میدان میں اتر چکے ہیں جنہوں نے پیسے کی بوریوں کے منہ کھول دئیے ہیں اور منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں ان کی شخصیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیسہ خرچ کرنے کے لئےتیار بیٹھنے والوں میں ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کے پیسوں کی بوریاں کافی بھاری بتائی جاتی ہیں جنہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ہر صورت پیسے کے بل بوتے پر نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر بیٹھ کر رہیں گے۔ اگر ان کو کامیابی ہوتی ہے تو یہاں سنجیدہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر کیا ہوگا کیا موجودہ صوبائی حکومت سے زیادہ ناقص حکمرانی زور پکڑے گی اور تباہی و بربادی میں مزید اضافہ ہوگا یا پھر سنجیدہ حلقے ان کو پیسوں کی بوریوں کے ساتھ گھروں میں رہنے کا حکم دیں گے چونکہ صوبے میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر ایک ایسا وزیراعلیٰ اور ایسی کابینہ کی ضرورت ہو گی جو عوام کے سامنے بھی ایک چہرہ رکھتے ہوں۔ نہ کہ صرف پیسے کے بل بوتے پر وجود میں آئے ہوں۔ جو اہم ترین فیصلے کرسکیں اور جہاں وہ خراب انتظامی امور کو درست کریں وہاں امن وامان پر بھی خصوصی توجہ دیں کیونکہ امن و امان کے بغیر الیکشن کا ہونا ممکن نہ ہوگا ۔

یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ شاید نگران کابینہ کی مدت میں اضافہ ہو تو کیا ایسے میں یہ ایک مکمل حکومت کی مانند صوبے میں وجود رکھےگی؟ اور اگر سنجیدہ اور میرٹ کی بنیاد پر حکومت اور کابینہ تشکیل ہوگی تو یقینا دو ررس نتائج ملیں گے وگرنہ وہی ہوگاجیسےقدوس بزنجو کی حکومت نے نظام کے منہ کو کالا کیا اسے مزید کریہہ صورت کر دیا ۔ یہی کچھ نگراں وزراء کے امیدواروں کا حال ہے، چمن سے تربت تک جرائم پیشہ اور کاروباری افراد نے وزارت کے حصول کیلئے تجوریوں سے رقم نکال کر رکھی ہوئی ہے اور ادائیگی کیلئے اشارے کے انتظار میں ہیں اور اس کا اظہار وہ برملا عوامی محفلوں میں کرتے ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ حالات کے مطابق ایک اچھے نگراں وزیراعلیٰ کے ساتھ ساتھ اچھی کابینہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے سنجیدہ حلقوں کو جہاں اس پر غور و فکر کرنا چاہئے وہاں نگراں حکومت میں انتظامی افسران کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔

امن وامان کے حوالے سے سابق آئی جی پولیس بلوچستان کے منصب پر ناقابل شکست اور بلوچستان کی تاریخ کے بہترین آئی جی پولیس محمد طاہر رائے جیسے سیاسی دباؤ سے آزاد اور بلوچستان پولیس فورس میں عظیم اصلاحاتی پروگرام متعارف کروانے والے دبنگ افسر کی ضرورت ہوگی جن کو سیاسی احکامات نہ ماننے پر تبدیل کیا گیاتھا۔ وہیں انتظامی امور کی دیکھ بھال و جنگی بنیادوں پر اصلاحات کیلئے بطور چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان منصب پر رہنے والے ڈاکٹر کاظم نیاز خان جیسے آفیسر کی بطور چیف سیکرٹری بلوچستان حکومت کی ضرورت ہوگی جو اس 22 ماہ کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں کا احتساب شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحاتی عمل بھی شروع کریں تاکہ نگراں حکومت اپنی نگرانی کرے جبکہ یہ اچھے شہرت یافتہ افسران ایک ٹیم کی شکل میں ریاست کےمفادات میں بیوروکریسی اور پولیس کے محکموں میں بغیر کسی دباؤ اور اپنی سابقہ ماضی کی اصلاحات کیلئے اقدامات اٹھائیں تاکہ جب نئی حکومت معرض وجود میں آئے تو اسکو خراب معاشی حالات کے شکار صوبے کے ساتھ ساتھ خراب حال بیوروکریسی اور خراب حال پولیس ورثے میں نہ ملے ۔کیونکہ ان 22ماہ میں ان دونوں اہم ریاستی محکموں میں پیچیدہ خرابیاں پیدا کی گئیں ہیں۔ بصورت دیگر مخصوص چہرے بدلنے سے نظام نہیں بدلے گا ۔ اگر سنجیدہ حلقوں نے اس بار گہری سنجیدگی سے بلوچستان کو ہینڈل نہ کیا تو یہ آدھا پاکستان مزید انتظامی انارکی کا شکار ہو جائے گا جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا اور عوام کا غیض و غضب ریاست پہ نکلے گا جس سے دشمنان پاکستان کے بیانیے کو تقویت ملے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین