چھ ،سات ماہ بعد ہم ایک بار پھر گہرے سوگ میں ہیں۔ انسانی خون کے بیوپاری دہشت گردوں نے ایک بار پھر ہمیں گہرا گھاو لگایا ہے۔ اس سے پہلے تیس جنوری کو انہوں نے پشاور پولیس لائنز میں واقع مسجد میں خون کی ہولی کھیلی تھی۔ تیس جولائی کو خیبر پختون خوا کے ضلعے، باجوڑ کے صدر مقام، خار میں جمعیت علما اسلام کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے میں جاں بہ حق افراد کی تعداد تادمِ تحریر چوّن تک جاپہنچی ہے۔
دھماکے میں سو سے زاید افراد زخمی ہوئے تھےجن میں بیس سے سے زاید افراد کی حالت تشویش ناک تھی۔ چوّالیس افراد تو موقعے پر ہی دم توڑ گئے تھے۔ خودکش بم بار نے اسٹیج کے قریب خود کو اُڑایا تھا۔ دھماکے سے ٹینٹ منہدم ہوگیا، خوف زدہ لوگ نکل نہ سکے اور افراتفری مچ گئی۔ دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی اور انسانی اعضاء ہر طرف بکھر گئے۔ شدید زخمیوں کو فوج کےہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کرکے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔
انسپکٹر جنرل خیبر پختون خوا پولیس، اختر حیات خان کے مطابق یہ دھماکا خودکش تھا، جس میں دس کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔جائے وقوعہ سے بال بیئرنگ ملے ہیں۔ دھماکے میں ہائی ایکسپلوسیو کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
دھماکے میں زخمی ہونے والےتیراسی افراد مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں جن میں سے پندرہ کی حالت تشویش ناک ہے۔ اننچاس لاشیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی تھیںاور آٹھ لاشیں شناخت کے قابل نہیں ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی، سی ٹی ڈی، شوکت عباس کے مطابق جے یو آئی کا جلسہ دوپہر دو بجے شروع ہوا اور دھماکا چار بج کر دس منٹ پر ہوا۔ خودکش دھماکے میں دس تا بارہ کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔ موقعے سے بال بیرنگ وغیرہ ملے ہیں، دھماکا خود کش تھا، حملہ آور گروپ کی شناخت ہوگئی ہے، دھماکے میں کوئی خاص ٹارگٹ تھا ۔ جائے وقوعہ سے بہت سے شواہد ملے ہیں، ابتدائی تحقیقات میں ملزمان تک تقریبا پہنچ چکے ہیں، فرانزک رپورٹس کا انتظار ہے۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پتاچلا ہے کہ واقعے میں کالعدم تنظیم، داعش ملوث ہے۔ دوسری جانب باجوڑ دھماکا عام انتخابات سے جڑا ہوا ہے، تجزیہ کار
پشاور(اے ایف پی )خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں دھماکے کے نتیجے میں 44افرادجاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
دہشت گردی کا وقت
اس دہشت گردی کے ضمن میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدارمیں واپسی کے بعد سابق قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کی ہمت مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک دفاعی تجزیہ کار کے مطابق اتوارکو پیش آنے والے واقعے کا مقصد فرقہ واریت نہیں بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ اس کا تعلق عام انتخابات سے ہے۔ سینٹر فارریسرچ اینڈسکیورٹی اسٹیڈیزکے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، امتیاز گل کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں انتخابات سے قبل بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور تشددکا حصہ ہے تاکہ عدم استحکام کا تاثر پیدا کرکے الیکشن کو ملتوی کیا جاسکے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بہیمانہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب اقتصادی طور پر پر تباہ حال پاکستان میں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کے بہ قول دو دوست ممالک نے46ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی نوید سنائی ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان میں 24 ارب ڈالرز اور یو اے ای نے 22 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دہشت گردوں نے ہمیں ایسے وقت میں لہو لہان کیا ہے جب ہم سی پیک کے دس برس مکمل ہونے پر خوشی منارہے تھے اور چین کے نائب وزیر اعظم ہمارے ملک کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب یہ ایسا وقت ہے جب حال ہی میں بنائی گئی سپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل نے اربوں ڈالرز کے منصوبوں کی سرمایہ کاری کی منظوری دے دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سی پیک سے زیادہ بڑی سرمایہ کاری کے لیے منصوبوں کی منظوری دی جاری ہے اور پاکستان میں 28ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
کونسل نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو اربوں ڈالرز کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کر دی ہے۔ عرب ممالک کو جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی ہے، ان میں دیا میر بھاشا ڈیم، ریکوڈک اور سعودی آئل ریفائنری سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک و زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات، پیٹرولیم اور بجلی کے منصوبے بھی شروع کیے جا رہے ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت ملک میں متعدد مویشی فارم قایم کیے جائیں گے۔
ایک ڈیری کمپنی قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے جس میں دودھ دینے والی 20 ہزار بہترین گائیں ہوں گی۔ ان ڈیری فارمز کو توسیع دے کر پانچ یا اس سے بھی زیادہ فارمز بنائے جائیں گے۔ کونسل نے 10ہزار جانوروں پر مشتمل کیمل (اونٹ) فارم کی بھی منظوری دے دی ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے کونسل نے چولستان میں دس ہزار ایکڑ اراضی پر کارپوریٹ فارمنگ کی منظوری بھی دی ہے۔ اس منصوبے کو 85 ہزار ایکڑ تک توسیع دی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق قطر اپنی فوڈ سیکورٹی کے لیے ان منصوبوں میں گہری دلچسپی لے رہا ہے۔کونسل نے متعدد ٹیکنالوجی زونز کے قیام کی بھی منظوری دے دی ہے۔
ان میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک، کلاوڈ انفرااسٹرکچر، سیمی کنڈکٹر ڈیزائنز، اسمارٹ ڈیوائسز کی تیاری، گلوبل اسکل ہب ا سکیم اور مختلف سینٹر آف ایکسی لینس کے قیام کے منصوبے شامل ہیں۔ کونسل نے چنیوٹ میں خام لوہے کے منصوبے، بیرائٹ، لیڈ ،زنک پروجیکٹ، ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کی تلاش کے ریکوڈک پروجیکٹ، ضلع خضدار میں لیڈ اور زنک کی تلاش کے پروجیکٹ، تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی بھی منظوری دے دی ہے۔
بجلی کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں میں دیامیر بھاشا ڈیم، تھر کول بلاک نمبر دو، لیہ اور جھنگ میں سولر پروجیکٹ، راج دھانی میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، غازی بروتھا سے فیصل آباد اور مٹیاری سے رحیم یار خان تک دو ٹرانسمیشن لائنز کے منصوبوں میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ کونسل نے چولستان میں سیلاب کے پانی کو محفوظ ذخیرہ کرنےاور بعدازاں اسے آب پاشی کےلیے استعمال کرنے کےلیے بھی فیزیبلٹی اسٹڈی کی تیاری اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر کے منصوبے کی بھی منظوری دی ہے۔
کونسل کے تحت ان تمام منصوبوں کو قانونی تحفظ دینے کےلیے متعلقہ قوانین میں ترامیم کی بھی منظوری دی جا چکی ہے۔ان حالات میں دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی یہ کارروائی اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن و امان قایم ہو اور ہماری معیشت مستحکم ہوسکے۔
داعش کی جانب سے ذمّے داری قبول کرنا
کالعدم دہشت گرد تنظیم ،داعش کی جانب سے اس دہشت گردی کی ذمّے داری قبول کرنے کو بعض حلقے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔ اس خطرے کو سمجھنے کے لیے ہمیں چند برس پیچھے جانا ہوگا۔
یہ اپریل 2021کی بات ہے۔ اس وقت امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہو جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ خطے کے ملکوں،خاص طور پر پاکستان کے لیے شدید تشویش کی بات ہے۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو کی فوجوں کے انخلاء پر بات کرتے ہوئے امریکی وزارتِ دفاع میں ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ ان تنظیموں کا افغانستان میں دوبارہ فعال ہو جانے کا امکان، وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
امریکہ کے مقتدر ترین جریدے نیو یارک ٹائمز نے اس بریفنگ کی خبر میں کہا تھا کہ امریکا کے مشرق وسطی میں اعلی ترین فوجی کمانڈر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکا کی فوج کے لیے افغانستان میں القاعدہ جیسے دہشت گردی کے خطروں پر نظر رکھنا اور ان کا تدارک کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
جنرل میکنزی نے کہاتھا کہ خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں استحکام ہو اور شدت پسند گروہوں، القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کو جگہ نہ دی جائے۔ ان کے خیال میں امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اگر دباؤ برقرار نہ رکھا گیا تو القاعدہ اور دولت اسلامیہ افغانستان میں دوبارہ منظم ہو سکتی ہیں۔ یہ دباؤ افغان حکومت کی طرف سے ڈالا جا سکتا ہے لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں افغان حکومت کے خد و خال کیا ہوں گے۔ سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے مزید کہاتھا کہ طالبان نے بھی یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
اس سے قبل مارچ 2017میں افغانستان میں نیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں شدت پسندوں کے درمیان اتحاد امریکا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ جنرل نکلسن نے یہ بات امریکی فوجی ادارے کومبیٹنگ ٹیرر ازم سینٹر میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ' دولتِ اسلامیہ، ازبکستان اسلامی موومنٹ اور تحریک طالبان پاکستان نے بھی ایک غیر رسمی اتحاد بنا لیا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان تنظیموں نے غیر رسمی اتحاد بنا لیا ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑی تشویش ہے۔ القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے مقاصد کسی ملک تک محدود نہیں ہیں۔ وہ امریکا اور امریکی اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے مقاصد رکھتے ہیں۔
دیگر تنظیموں پر بھی ہمیں تشویش ہے اور یہ تنظیمیں خطے تک محدود ہیں۔ القاعدہ برصغیر اپنی کارروائیاں خطے تک محدود رکھتی ہے۔ 'بہت سی تنظیمیں پاکستان میں موجود ہیں اور کچھ افغانستان میں کارروائیاں کرتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان اس لیے اہم ہیں کہ 'امریکاکی جانب سے 98 تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہےان میں سے 20 تنظیمیں اس خطے میں موجود ہیں۔ ایسا دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہے۔
یہ مارچ 2018کی بات ہے۔اس وقت یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ یا داعش کو عراق اور شام میں بڑی حد تک شکست دی جا چکی ہے اور اب اس کے بچے کھچے جنگ جو دور دراز کے علاقوں میں چھپ گئے ہیں۔حال ہی میں آنے والی خبروں سے لگتا ہے کہ وہ افغانستان میں پھر سے فعال ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس وقت پاکستان کے قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا) کے قومی رابطہ کار، احسان غنی نے کہا تھا کہ پاکستان کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ یا داعش کی طرف سے خطرہ ابھی تک لاحق ہے، تاہم فی الحال داعش افغانستان تک محدود ہے۔ اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ داعش کے جنگ جو افغانستان سے نکل کر پاکستان پر بھی حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس سے ایک روز قبل افغانستان کے لیے روس کے نمائندۂ خصوصی ضمیر کابلوف نے بھی یہی بات دہراتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں داعش کے کم از کم سات ہزار جنگ جو موجود ہیں۔
اس وقت بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا تھاکہ داعش پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کے دو صوبوں ننگرہار اور کنٹر میں مرکوز ہے، اور وہاں سے نکل کر اس نے پاکستانی علاقوں پر حملے کیے ہیں۔ ان صوبوں میں دو پاکستانی تنظیمیں بھی سرگرمِ عمل ہیں، جماعت الاحرار اور دوسری لشکرِ اسلامی، اور یہ تنظیمیں داعش کو قدم جمانے میں مدد دے رہی ہیں۔ ان کے خیال میں اس زمانے میں مہمند ایجنسی اور وادیِ تیراہ میں ہونے والے حملوں کے پیچھے ممکنہ طور پر داعش اور اس کی حامی تنظیموں کا ہاتھ تھا۔اس کے علاوہ یہ تنظیم پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بھی حملوں میں ملوث رہی ہے اور پاکستان نے اس بارے میں افغانستان سے انٹیلی جنس کا تبادلہ بھی کیا تھا۔
اس وقت دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق 'شروع میں عراق اور شام سے کچھ عرب افغانستان آئے تھے جنہوں نے مقامی جنگ جوؤں کی تربیت کی تھی، اور انہوں نے افغانستان اور پاکستان کو اپنی خلافت کا خراسان صوبہ قرار دیا تھا، لیکن اب افغان داعش کا اصل تنظیم سے تعلق نہیں ہے اور یہ خود مختاری سے کام کر رہی ہے اور اس میں افغانوں کے علاوہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔
تاہم دوسری جانب افغانستان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کی خبریں مبالغہ آمیز ہیں۔ افغانستان کی وزارتِ دفاع کےاس وقت کے عوامی امور کے قایم مقام سربراہ جنرل محمد رادمنش کا کہنا تھا کہ 'داعش کے لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں کارروائیاں کرتے ہیں، اور صرف تین صوبوں، ننگرہار، کنڑ اور جزوان تک محدود ہیں۔ بعد میں طالبان نے بھی داعش کو بڑا خطرہ ماننے سے انکار کردیا تھا، لیکن اس تنظیم نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعدسے افغانستان میں وقتا فوقتا کئی بڑی کارروائیاں کی ہیں۔
برین واشنگ
خود کش حملہ کرنے والوں کے لیے زندگی نہیں بلکہ موت کا مقصد ہوتا ہے۔ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے نفسیات، طب، سماجیات وغیرہ کے ماہرین اور سیاسی عمل کوبھی استعمال کرنا ہوگا۔ مذکورہ شعبوں کےماہرین کے بہ قول ضروری ہے کہ زندگی کو موت پر ترجیح دینے والے جس کیفیت میں گرفتار ہیں اسے سمجھا جائے اور اس سے متعلق مسائل حل کیے جائیں۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ خود کش حملوں کے لیےدہشت گرد تنظیمیں جن افراد کو استعمال کرتی ہیں ان کی زبردست طریقے سے برین واشنگ کی جاتی ہے۔یعنی ان کے ذہنوں کو خو دکش حملےکےلیے پوری طرح تیار کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کے لیے ذہن سازی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی نوجوانوں کو خودکُش حملہ آور بنانےوالے برین واشنگ کی تیکنیک بہ خوبی استعمال کررہے ہیں ۔ لہذا ہمیں ان اسباب پر توجّہ دینا ہوگی جن کی وجہ سے نوجوان ان دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آخر ان دہشت گردوں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے اور ان کے انسداد کے لیے کام کرنے والے اہل کاروں کی صلاحیت، استعداد اور تیکنیک کیا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے سوالات سر ابھارتے ہیں۔ جن کے جواب جاننا ضروری ہیں، تاہم اس بارے میں بعض تحفظات خود ہمارے ذہن میں بھی تھے اور سیکورٹی اور دھماکا خیز مواد کے ماہرین سے جب بیک گراؤنڈ انٹرویوز کیے گئے تو انہوں نے بھی ابتداء میں ان تحفظات کا ذکر کیا، لیکن جب یہ سوالات انٹرنیٹ کے حوالے کیے گئے تو وہاں سے جو کچھ برآمد ہوا، اس نے یہ تمام تحفظات دور کردیے، کیوں کہ وہاں تو دھماکا خیز مواد کے اجزاء، ان کی کیمیائی ترکیب، ان کے کام کرنے کا طریقۂ ، اشکال، اقسام، رنگوں، حتیٰ کہ تیار مواد اور آلات کی تصاویر اور ان کے نرخ تک موجود ہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت دنیا کے متخلف مقامات پر دہشت گردوں کے خلاف جو انسدادی کارروائیاں ہوئیں، ان کے نتیجے میں بم بنانے اور دہشت گردی میں مدد دینے کے لیے مختلف مینولز، کتابیں، سی ڈیز، نقشے، انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے شواہد وغیرہ حکام کے ہاتھ لگے۔اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دہشت گرد تمام جدید ذرایع اور معلومات اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ہائی اور لو ایکسپلوسیو
دھماکا خیز مواد اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین سے بیک گرائونڈ انٹرویوز کے نتیجے میں صورت حال کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ تاہم ان ماہرین نے مختلف وجوہ کی بناء پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا وعدہ لیا۔ ان کے مطابق پاکستان میں اسلام آباد کے قریب سمنگلی کے مقام پر پولیس کا واحد ٹریننگ سینٹر تھا، جہاں دھماکا خیز مواد کے بارے میں اہل کاروں کو ضروری تعلیم اور تربیت دی جاتی تھی، لیکن اب تربیت کی صورت حال بہت خراب ہوچکی ہے۔ بارود دراصل چند کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں، جن میں سے کئی روزمرہ استعمال کے ہوتے ہیں، مثلاً شکر، یوریا، صابن، پیٹرول، گندھک، پوٹاشیم، گلیسرین، کوئلہ، پوٹاشیم پرمینگنیٹ وغیرہ۔ ان میں سے بعض اجزاء پٹاخوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
لو ایکسپلوسیو جب پھٹتا ہے تو وہ سلسلہ وار ترتیب سے جلتا ہے اور ڈیٹونیٹ نہیں ہوتا۔ جہاں دھماکے کے بعد دھواں اور کالا پن زیادہ ہو، وہاں سمجھ جائیں کہ لو ایکسپلوسیو استعمال ہوا ہے۔ ہائی ایکسپلوسیو تیزی سے آگ نہیں پکڑتا۔ اس میں طاقت زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ڈیٹونیٹر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کی لہروں کی شدت 3 تا 7 ہزار میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے۔ یہ لہر ایک جیسے دباؤ اور شدّت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔
جتنی رفتار سے گیسز اوپر اٹھتی ہیں، اتنی ہی رفتار سے جائے وقوعہ پر خلاء پیدا ہوتا ہے۔ پھر جب وہاں ہوا واپس آتی ہے، تو خلاء ختم ہوتا ہے اور زوردار آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں جائے وقوعہ پر اور ارد گرد موجود اشیاء تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ ہائی ایکسپلوسیو جہاں پھٹتا ہے، وہاں درجۂ حرارت 2000 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے، اس کی رفتار گیسز کی رفتار جتنی ہی ہوتی ہے۔
ڈیٹونیٹر دراصل ایک پٹاخہ ہوتا ہے، جو پینسل کی طرح کا اور دو تا تین انچ لمبا ہوتا ہے۔ اوپر المونیم کی دھات ہوتی ہے اور اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں پہلے لو اور پھر ہائی ایکسپلوسیو رکھا جاتا ہے۔ یہ الیکٹریکل اور نان الیکٹریکل اقسام کے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد الیکٹریکل ڈیٹونیٹر زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس پر پائوں بھی پڑ جائے، تو یہ پھٹ جاتا ہے۔ لہٰذا دھماکا کرنا آج بہت آسان کام ہوگیا ہے۔ الیکٹریکل ڈیٹونیٹر کو چلانے کے لیے صرف ایک سوئچ یا بٹن دبانا پڑتا ہے۔
دھماکا خیز مواد کی تیّاری
ان ماہرین کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ یہ لوگ عام اجزاء بزنس کے مختلف طریقوں سے درآمد کرکے یا حاصل کرکے انہیں آپس میں ملاتے ہیں۔ عام بارود کی ایک اینٹ، جو ایک تقریباً آدھا کلو کی ہوتی ہے، آج کل چند سو روپوں میں مل جاتی ہے۔ باقی اجزاء کے نرخ ان کی کوالٹی کے اعتبار سے بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ اجزا ء پائوڈر، محلول اور ٹھوس اشکال میں اور مختلف رنگوں میں آتے ہیں۔ یہ دہشت گرد بہت محتاط اور اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں۔
ان کے پاس ناکامی کی گنجایش نہیں ہوتی۔ یہ لوگ دھماکے کے لیے 1.5 وولٹ کی عام بیٹری، ایک دو روپے والا عام فیوز، گھڑی یا واشنگ مشین کے ٹائمر کو بہ طور ڈیلے ڈیوائس استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ٹرک میں ڈیٹونیٹر کا سوئچ دہشت گرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ گاڑی کا انتخاب ٹارگٹ کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں۔ اس کے لیے علاقے میں سیکورٹی کی صورت حال، اس کی حساسیت، اپروچ ایریا، ٹریفک کی نقل و حرکت، ناکے وغیرہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
دھماکا خیز مادہ رسی اور شیٹ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ ڈیٹونیٹر کو کمپیوٹر یا ٹی وی کے پرزے ظاہر کرکے اور رسی یا شیٹ کو موم وغیرہ کہہ کر پولیس والوں کو چیکنگ کے دوران دھوکا دیا جاسکتا ہے، کیوں کہ ہمارے پولیس والوں کو ایسی تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ دہشت گرد کو پکڑنے کے لیے شک کرنا ضروری ہے۔ شک ہونے کے بعد چیکنگ کا مرحلہ آتا ہے۔ شک کرنے کے بھی اصول ہوتے ہیں، جو پڑھائے جاتے ہیں۔
ڈیٹونیٹر خاکی اور سلور رنگ کے زیادہ آتے ہیں اور 400 تا 500 کلو گرام مواد کے لیے 5 تا 10 کافی ہوتے ہیں۔ ٹرائی نائٹرو ٹولین (ٹی این ٹی) عام طور سے دست یاب نہیں ہوتا اور اس کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا اس کا استعمال کم کم ہی ہوا ہے۔ دھماکا خیز مواد تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر میں کتوں سے زیادہ کوئی شئے کام یاب نہیں مانی جاتی۔ دہشت گردوں کو خاص وقت تک خاص ماحول میں رکھ کر ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
دھماکے سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے Fragmantation کا استعمال کیا جاتاہے۔ یعنی لوہے کی کیلیں، اسکریوز، چھرّے وغیرہ۔ لیکن پشاور کے حالیہ دھماکے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق نشتر پارک میں ہونے والے دھماکے میں بال بیرنگز نے لوہے کے پائپس تک میں سوراخ کردیے تھے، جو گولی بھی نہیں کرسکتی تھی، لیکن یہ چیزیں خودکش حملہ آور کی جیکٹس میں استعمال کی جاتی ہیں، ٹرک بم کے دھماکے میں نہیں۔ دھماکا خیز مواد کی مقدار اور اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے زمین پر پڑنے والے گڑھے، بیلسٹک ویوزکے دائرے، درجۂ حرارت، ارتعاش اور فریگ مینٹیشن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی پر مامور ہمارے اکثر اہل کار اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ آلات نہیں تربیت زیادہ ضروری ہے۔ ایسی تربیت دینے والے ماہرین ملک میں موجود ہیں۔ اگر ان اہل کاروں کے پاس تربیت یافتہ دماغ ہو، تو دہشت گرد یا ان کی گاڑیاں پولیس کے ایک عام ناکے پر پکڑی جاسکتی ہیں۔