وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کردیے، سمری صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دی گئی، جس میں صدر سے عبوری حکومت تشکیل دینے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس ایوان صدر کو موصول ہوگئی ہے، تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایوان صدر میں موجود نہیں ہیں۔
ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر مملکت عارف علوی لاہور میں موجود ہیں، انہیں ایڈوائس موصول ہونے سے متعلق آگاہ کر دیا گیا، اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر صدر مملکت جلد فیصلہ کریں گے۔
صدر آئین کے آر ٹیکل 58 کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے۔
صدر مملکت آئین کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر 48 گھنٹے کے اندر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے، صدر مملکت اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو 48 گھنٹے پورے ہونے پر قومی اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی موجودہ حکومت ختم ہوجائے گی، اس کے بعد آئین کے مطابق انتخابات 90 دن کے اندر ہوں گے۔
اسمبلی ٹوٹتے ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو جائے گی، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نگراں وزیراعظم کی تعیناتی تک وزیراعظم رہیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض سے کل ملیں گے۔
پیپلز پارٹی نے نگراں وزیراعظم کے لیے سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کا نام تجویز کردیا، جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا نام نگراں وزیراعظم کیلئے تجویز کیا ہے۔
قومی اسمبلی تحلیل کے بعد آئین کےآرٹیکل224 اے کے تحت نگراں وزیراعظم کا تقرر ہوگا، نگراں وزیراعظم کا نام فائنل کرنے کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے پاس تین دن کا وقت ہوگا، تین دن میں نام فائنل نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنے اپنے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے، پارلیمانی کمیٹی تین دن کے اندر نگراں وزیراعظم کے نام کو فائنل کرے گی۔
پارلیمانی کمیٹی کے نگراں وزیراعظم کا نام فائنل نہ کرنے پر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا، الیکشن کمیشن دیے گئے ناموں میں سے دو دن کے اندر نگراں وزیراعظم کا اعلان کر دے گا۔
اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن آرٹیکل224 ون کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا، مدت پوری ہونے سے قبل اسمبلی توڑے جانے پر عام انتخابات 90 روز میں کروانا ہوں گے، عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آئین کے تحت 14دن میں نتائج کا اعلان کرے گا۔
9 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف کئی دنوں سے مختلف تقریبات میں بھی کرتے آرہے تھے۔
یہ اسمبلی پارلیمانی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس میں وقت کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی۔
13 اگست 2018ء کو شروع ہونے والی پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی نے ایک صدر، دو وزرائے اعظم، دو اسپیکرز اور دو ڈپٹی اسپیکرز منتخب کیے۔
آج قومی اسمبلی کا الوداعی اجلاس ہوا، جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے الوادعی تقاریر بھی کی گئیں اور باہمی ملاقاتیں بھی کی گئیں، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے اپنے سٹاف اور اراکین اسمبلی سے بھی فرداً فرداً ملاقاتیں کیں۔
وزیراعظم کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے الوداعی خطاب
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ انتہا تھی، ریاست، فوج اور فوج کے سپہ سالار عاصم منیر کے خلاف سازش تھی، پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانے کی دعائیں کرنے والوں کا مکروہ چہرہ بےنقاب ہوا۔
ہم نےچیئرمین پی ٹی آئی کی مخالفت کی، راجاریاض
اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کے عروج میں ان کی مخالفت کی، جب چیئرمین پی ٹی آئی ملک تباہ کرنے لگے تو ہم نے کردار ادا کیا ، اگر ہم نہ ہوتے تو ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔
فوجی کمان کی تبدیلی متنازع بنائی گئی، وزیردفاع
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نومبر میں کمان کی تبدیلی کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تاکہ استحکام نہ آئے، الیکشن ہوں گے اور نئی اسمبلی آئے گی تو مزید سیاسی استحکام آئے گا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ گزشتہ پندرہ ماہ بہت خلفشار رہا، نومبر کے بعد استحکام آیا، نو مئی کے واقعے نے تاریخ کو داغ دار کیا۔ اس دن ایسے شخص کا اصل چہرہ سامنے آیا جو اقتدار کے لیے فوج پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کل وہی شخص اپنے وکیل سے کہہ رہا تھا کہ مجھے جیل سے نکالو ، وہ شخص تحفے بیچنے کے شرم ناک کیس میں پکڑا گیا ہے۔