• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ بھی کامیاب انٹرپرنیور بن سکتے ہیں، مگر کیسے؟

دنیا بھر کے پالیسی ساز، مرکزی بینکوں کے سربراہان اور ماہرین دنیا میں مہنگائی کی بلند ہوتی شرح اور اس کے مقابلے میں لوگوں کی آمدنیوں میں مسابقتی اضافہ نہ ہونے کے باعث پریشان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کی اکثریتی آبادی حقیقی قوتِ خرید کھورہی ہے۔

دوسری جانب، ہر آئے دن نت نئی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف ہورہی ہوتی ہیں، جن کے خریدار بہرحال محدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری لیڈرز، انٹرپرنیوئرز اور بزنس اونرز اپنی مصنوعات، خدمات اور برانڈز کو فروغ دینے کے نت نئے اور منفرد طریقے ڈھونڈنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ زندگی، کیریئر اور کاروبار میں ترقی کے لیے جدوجہد ناگزیر ہے، تاہم اس سلسلے میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم ان کامیاب کاروباری افراد کی زندگیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں، جنھیں ایک دنیا مانتی ہے۔ 

ایپل کارپوریشن کے بانی سی ای او اسٹیو جابز (مرحوم) کا شمار حالیہ دور کے ذہین ترین اور اختراعی دماغ رکھنے والے انٹرپونیوئرز میں ہوتا ہے۔ اسٹیو جابز کی شاندار کامیابی پر نظر رکھنے والے ماہرین نے، ان کی بے مثال کامیابیوں کو سات سنہرے اصولوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ بھی اپنی پراڈکٹ، سروس یا برانڈ کو نئی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں۔

آپ کو کیا پسند ہے

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے اسٹیو جابز نے کہا تھا، ’زندگی میں ہمیشہ وہ کریں جو آپ کرنا پسند کرتے ہیں‘۔ بِل گیٹس کے ساتھ ایک کاروباری تقریب میں اسٹیو جابز نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ کچھ کردِکھانے کے جذبے اور صرف اپنی پسند کا کام کرنے کے اصول نے ان کی کامیابی میں کس طرح کردار ادا کیا۔ ’زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ کو ایک ایسے کام میں محنت کرنے کا کہا جائے جو آپ کو پسند نہیں ہے تو آپ تھوڑی دیر بعد تھک جائیں گے اور ہار مان لیں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا کام ہے، جو آپ کو بہت پسند ہے تو پھر تھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگالیکن شرط یہ ہے کہ مُسرتوں کی تقسیم منصفانہ ہو‘۔

ہدف پیسے نہیں مقصد کو بنائیں

یہ 1980ء کے اوائل یعنی 1983کی بات ہے جب اسٹیو جابز، پیپس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جان اسکلی کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ جان اسکلی یہ پیشکش قبول کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ جابز ایک دن آخری کوشش کے طور پر جان اسکلی کے پاس گئے اور اسے کہا، ’تم اپنی باقی پوری زندگی ’’شکر کا پانی‘‘بیچتے رہنا چاہتے ہو یا تم میرے ساتھ آکر دُنیا بدلنے کے لیے کام کرنا چاہوگے‘؟ اس کے بعد جان اسکلی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اسٹیو جابز کی پیشکش قبول نہ کرتے۔ اسٹیو جابز کے لیے کمپیوٹرز کو عام آدمی کی دسترس میں لانا صرف کاروبار نہیں تھا، بلکہ یہ اس کے اندر کی آواز تھی۔ ’صرف کاروبار کا نہ سوچیں، اس میں مقصدیت بھی تلاش کریں‘۔

سادگی میں نفاست ہے

اسٹیو جابز نے ایک بار کہا تھا، ’سادگی میں نفاست ہے‘۔ ان کی یہ بات ہر بزنس لیڈر کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسٹیو جابز اپنی پراڈکٹس کے ڈیزائن سے لے کر بزنس اسٹریٹجی تک، ہر عمل کو سادہ، پروقار اور نفیس رکھنا پسند کرتے تھے۔ ان کی سوچ تھی کہ، ’انسان جو چیز سادگی، وضاحت اور نفاست کے ذریعے سمجھ سکتا ہے، اس کا نعم البدل کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی‘۔ 

اسٹیو جابز کی اپنی ہی کمپنی سے نکالے جانے کے 12سال بعد جب دوبارہ واپسی ہوئی تو ان کا پہلا فیصلہ کمپنی کی 70فیصد پراڈکٹس بند کرنے کا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایپل کے انجنیئرز باقی 30فیصد پراڈکٹس پر جم کر کام کریں۔ وہ کہتے تھے، ’انسان کے پاس وقت اور توانائی، دونوں محدود ہوتی ہیں، انھیں ان چیزوں پر خرچ کریں، جو واقعی اہم ہیں‘، اور ’ہیروں کی دکان میں ہیروں کے ساتھ لوہا بیچنا کہاں کی عقل مندی ہے‘؟

خود کو اختراعیت کے قریب رکھیں

اسٹیو جابز نے ایک بار کہا تھا کہ، ’تخلیقی بننے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ خود کو ان بہترین چیزوں سے متعارف کرائیں جو انسانوں نے تخلیق کی ہیں اور پھر انھیں اس کام میں شامل کرلیں جو آپ کررہے ہیں‘۔اختراعی دماغ رکھنے والے دنیا کے بڑے انٹرپرنیوئرز، نئے تصورات کے لیے اپنے شعبہ سے باہر دیکھتے ہیں۔ ایپل IIکمپیوٹر، جو استعمال کے لحاظ سے دنیا کا پہلا صارف دوست کمپیوٹر تھا، اس کا تصور اسٹیو جابز نے کچن اپلائنسز سے لیا تھا۔ اسٹیو جابز ایپل IIڈیزائن کرنے سے پہلے اس تحقیق میں لگے ہوئے تھے کہ لوگ اپنے گھروں میں کس طرح کا کمپیوٹر رکھنا چاہیں گے۔

مزید برآں، پہلا ایپل اسٹور کھولنے سے پہلے جابز نےایک بین الاقوامی ہوٹل کا بغور مشاہدہ کیا۔ اسی لیے ایپل اسٹور میں کسٹمر سروس کے ملازم کو Concierge (دربان) کہتے ہیں۔ ایپل اسٹورز میں ’جینئس بار‘کا تصور بھی ہوٹل بار سے لیا گیا ہے۔

نئے تصورات کے لیے صرف اسٹیو جابز ہی اپنے شعبہ سے باہر نہیں دیکھتے تھے، ٹیسلا کے بانی ایلون مسک بھی ایسا ہی کچھ کرتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں ٹیسلا شوروم کے افتتاح کے موقع پر کسی نے ٹیسلا کے اس وقت کے ہیڈ آف سیلز جارج بلیکن شپ سے پوچھا، ’جارج، یہ شو روم ایپل کی یاد تازہ کردیتا ہے ‘۔ جارج نے اسے جواب دیا، ’یہ درحقیقت ایپل ہی کا اسٹور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کمپیوٹرز کی جگہ ہم کاریں بیچتے ہیں‘۔