• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹس اور ہیومینٹیز کے مضامین کا مستقبل روشن ہے

ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ2022 میں آرٹس اور ہیومینٹیز کے مضامین کے لحاظ سے سرِفہرست قرار پانے والی دونوں یونیورسٹیز کا تعلق امریکا سے ہے۔ یہ دونوں جامعات تاریخ، فلسفہ، فنونِ لطیفہ، زبان، ادب، دینیات اور فن تعمیر سمیت آرٹس اور ہیومینٹیز کے مضامین کے ایک گروپ کے لیے دنیا کے بہترین انسٹی ٹیوٹس کے طور پر ایک مقام رکھتی ہیں۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی، جسے امریکا کی سیلیکون ویلی کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جس کے طلباء نے گوگل، سیسکو، ہیولٹ پیکارڈ، یاہو اور نیٹ فلکس کو جنم دیا ہے، اس فہرست میں اول پوزیشن لینے میں کامیاب رہی۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) بالکل قریب رہی اور اس رینکنگ میں دوسرے نمبر پر رہی۔ 

عالمی سطح پر جانے مانے دیگر اعلیٰ ٹیک اسکولوں نے بھی اپنی آرٹس اور ہیومینٹیز کی درجہ بندی کو بہتر بنایا ہے: نیدرلینڈ میں ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی پچھلے سال 65 ویں سے 42 ویں نمبر پر آگئی، سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ای ٹی ایچ زیورخ کے نام سے مشہور) 53 سے بڑھ کر 49 ویں درجہ، جب کہ جارجیا ٹیک (جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) 151-175 درجہ سے دنیا کے ٹاپ 150 میں شامل ہوا۔

باہمی بصیرت اور تحقیق

ٹائمز ہائر ایجوکیشن کے لیے تحریر کردہ ایک مضمون میں، ایم آئی ٹی کے دو آرٹس اسکول ڈینز، آگسٹن رَیو (ہیومینٹیز، آرٹس اینڈ سوشل سائنسز) اور ہاشم سرکیس (آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ) ایک بات پر واضح تھے: آرٹس اور ہیومینٹیز کے شعبے - علم اور انسانی حالت کو سمجھنے کے طاقتور ذرائع کے طور پر - MIT کی تعلیم، تحقیق اور اختراع کا بنیادی حصہ ہیں۔

’’سائنس اور انجینئرنگ کی بصیرتیں، یقیناً، دنیا کے بہت سے فوری مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔لیکن سائنس اور انجینئرنگ انسانی معاشروں کے اندر کام کرتی ہے اور انسانی وجود کی ثقافتی، سیاسی، مقامی اور اقتصادی پیچیدگیوں اور زمین پر رہنے کے طریقوں سے آگاہ ہونے پر دنیا کی بہترین خدمت کرتی ہے۔ سائنس/ٹیکنالوجی، آرٹس، ڈیزائن، اور ہیومنسٹ دائرہ کار بھی انسانی علم کے باہمی طور پر مطلع کرنے والے ذریعے ہیں، اور آج کے بہت سے اثر پذیر مسائل کو صرف باہمی بصیرت اور تحقیق سے ہی حل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

میٹاوَرس کا چیلنج

جیسے جیسے ہم چوتھے صنعتی انقلاب میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، ذہین ٹیکنالوجیز کا نیا دور نا صرف معیشتوں اور معاشروں میں ہمارے ماضی کے صنعتی انقلابات - بھاپ، اسٹیل، بجلی، پیٹرو کیمیکلز کے مقابلے میں زیادہ گہری تبدیلی لائے گا - یہ معاشرے کے تصور کو ہی بدل دے گا۔

یہ قابل ذکر ہے کہ جب فیس بک، جسے اب میٹا کہا جاتا ہے، نے "میٹاورس" تیار کرنے کے اپنے اگلے مرحلے - ایک "توسیع شدہ حقیقت" کا اعلان کیا، جس میں ورچوئل اور آرگمنٹڈ ریالٹی شامل ہے، اسے "ذمہ داری کے ساتھ" ایسا کرنے کی ضرورت کی وضاحت دیتے ہوئے بہت محنت کرنا پڑی۔ "ہمیں انسانی حقوق اور شہری حقوق کی کمیونٹیز کو شروع سے ہی شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان ٹیکنالوجیز کو اس طرح بنایا جائے جو جامع اور بااختیار ہو‘‘، ایسا کہنا تھا میٹا کے عالمی امور کے نائب صدر نک کلیگ کا۔ یونیورسٹیوں کے ساتھ پہلی تعلیمی تحقیقی شراکت داری جس کی میٹا نے تصدیق کی ہے، وہ اخلاقیات، رازداری، قانون، تنوع اور اجتماعی شمولیت سے متعلق منصوبوں پر ہے۔

جعلی خبروں اور سازشی نظریات کے اس دور میں، سب سے زیادہ تشویشناک طور پر کووِڈ۔19 ویکسینیشن اور موسمیاتی تبدیلی کے ارد گرد، ہمیں تنقیدی سوچ رکھنے والوں اور ابلاغ کرنے والوں کی ایک نئی نسل کی ضرورت ہے۔ وَبائی مرض کی وجہ سے بڑھی ہوئی گہری سماجی تقسیم کے ساتھ، قوم پرستی اور تحفظ پسندی کے عروج ، اور بڑھتے عالمی درجہ حرارت کے وجودی خطرے کے ساتھ، ہمیں اپنی مشترکہ زندگیوں کی یاد دِلانے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، اور ہمیں ایک نئی نسل کی ضرورت ہے، جو طاقت ور کے سامنے سچ بولنے کی ہمت رکھتی ہو۔

گزشتہ سال ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے شناخت کی گئی، آنے والے کل کی ٹاپ -10 مہارتوں میں آرٹس اور ہیومینٹیز کے شعبوں میں بہترین مہارتوں کا غلبہ تھا: تنقیدی سوچ اور تجزیہ؛ تخلیقی صلاحیت، اختراع اور پہل؛ قیادت اور سماجی اثر و رسوخ؛ استدلال اور مسئلہ حل کرنا۔

مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کا چیلنج

نئی ٹیکنالوجی خاص طور پر مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت اس بارے میں بنیادی سوالات اُٹھا رہی ہے کہ انسان ہونا کیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اخلاقیات (ایتھکس) اور قانونی (لیگل) فلسفہ کے پروفیسر اور انسٹی ٹیوٹ فار ایتھکس اِن AI کے ڈائریکٹر جان تسیولس کہتے ہیں کہ دنیا کے لیے آرٹس اور ہیومینٹیز کی شاید سب سے بنیادی خدمت "اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ AI کی ترقی تقدیر کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارا انتخاب ہے، جس کے یکے بعد دیگرے کئی لہروں میں پراثر نتائج برآمد ہوں گے‘‘۔

آنجہانی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے مشہور طور پر کہا تھا کہ AI ’’انسانیت کے ساتھ پیش آنے والی اب تک کی سب سے بہترین یا بدترین چیز ہونے کا امکان ہے‘‘، اس خطرے کے ساتھ کہ انسانوں کو ذہین مشینوں کے ذریعے تیزی سے ناکارہ کیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ اسے محکوم بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ہماری اعلیٰ تعلیم کی جاماعات کے لیے ضروری ہے کہ وہ آرٹس اور ہیومینٹیز کے مضامین کو پھلنے پھولنے دیں، جس سے انسانیت یقیناً اس گہری تبدیلی والے انقلاب سے بہترین فائدہ اُٹھاسکے گی۔