قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو بچپن سے ہی سیاست میں بہت دلچسپی تھی، آپ دنیا کی بڑی شخصیات کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے اور اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائیاں اور سیاسی مباحثے بڑے شوق سے سُنتے تھے۔ آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہندوستان کی جماعت کانگریس میں شمولیت سے کیا، آپ نے 1906ء میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ابتداءمیں ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کی کوششوں میں جُت گئے اور انگریزوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا پرچار کرتے رہے۔
کانگریس کے ساتھ7سالہ طویل رفاقت میں قائد اعظم نے کانگریس کے ہندو رہنماؤں کے رویوں اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کا قریبی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندو، مسلمانوں پر قابض ہو جائیں گے اور مسلمان قوم انگریزوں کے بعد ہندو بنیے کی غلام بن جائے گی، کیونکہ کانگریس صرف ہندوؤں کے مفاد کے لیے کام کررہی تھی اوریہی وجہ آپ کی کانگریس سے علیحدگی اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کا باعث بنی۔
1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کے ساتھ ہی آپ نے اپنی تمام تر کوششیں مسلمانانِ ہندوستان کے حقوق کے تحفظ کےلیے وقف کر دیں، آپ کی شمولیت سے آل انڈیا مسلم لیگ، ہندوستان کی ایک مضبوط جماعت بن گئی۔
جلد ہی قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں میں نہایت مقبول ہو گئے اور 1916ء میں آپ کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا، جس سے تحریک آزادی میں ایک نئی روح پڑ گئی، آپ نے نو جوانوں کو متحرک کیا اور اسکولوں، کالجوں میں نظریۂ پاکستان کی ترویج کی۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔
اس عرصے میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے باوجود، آپ ہندو مسلم اتحاد کے داعی رہے۔ ناگپور اجلاس میں کانگریس رہنماؤں کی جانب سے قائد اعظم کو خطاب کرنے نہیں دیا گیا، بار بار بیٹھ جانے کو کہا گیا اور مسٹر گاندھی کہنے پر اعتراض کیا گیا۔ تحریک خلافت (خلافت موومنٹ) کے بعد ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان حالات سے قائداعظم دلبرداشتہ ہوگئے۔ انہوں نے1926ء میں کہا کہ، ’اس حقیقت سے راہِ فرار ممکن نہیں کہ فرقہ واریت اس ملک میں موجود ہے۔ محض جذبات اور امتداد زمانہ سے یہ رفع نہیں ہوسکتی‘۔
اس دوران نہرو رپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نہرو رپورٹ برطانوی راج کی جانب سے جاری کی گئی سائمن کمیشن کے جواب میں تیار کی گئی تھی۔ سائمن کمیشن کو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 8مارچ1928ء کو نہرو کو نیا آئین تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ مسلمانوں نے نہرو رپورٹ میں 3ترامیم تجویز کیں، تاہم ہندوؤں کی جانب سے تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا اور نہرو رپورٹ کو من و عن منظور کرلیا گیا۔
نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جہاں قائداعظم نے اپنے 14نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوئوں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائد اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔ یہ وہ موقع تھا، جب قائد اعظم ؒ کا دل ہندوئوں سے بیزار ہوگیا۔ انہوں نے کلکتہ سے روانہ ہوتے ہوئے، جمشید جی نوشیروان کا ہاتھ پکڑا اور کہا، ’اب جدائی کا آغاز ہے‘۔ قائد اعظم نے اپنے پیش کردہ 14نکات کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ان نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تصورِ پاکستان کی ابتدا اسی سے ہوئی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے 14نکات درج ذیل ہیں:
1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی نوعیت کا ہو گا۔
2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔
3- ملک کی تمام مجالس قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔
4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔
5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔
6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔
7- ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔
8- مجالس قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔
9- سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنا یا جائے۔
10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔
11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔
12-آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔
13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔
14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔