تھیلے سیمیا کا مرض سب سے پہلے یونان،اٹلی ، سائپرس اور بحیرۂ روم سے منسلک علاقوں میں تشخیص ہوا۔1925ءمیں خون کی بیماری انیمیا پر تحقیق کرنے والے امریکی شہر مشی گن کے ایک ڈاکٹر ’’کولے‘‘(Cooley) اور ’’لی‘‘ (Lee) نے اس مرض کی تشخیص کی، ان کے نام کی نسبت سے ابتداء میں یہ Cooley's anaemia کہلاتی تھی، جب کہ 1946ءمیں اس مرض کی وجوہات کا پتا چلایا گیا۔
اس مرض کے باقاعدہ علاج کا سلسلہ 1960ءسے ہوا، جس میں پہلی مرتبہ انتقالِ خون (Blood Transfusion ) کے ذریعے تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج شروع کیا گیا، تب سے آج تک اسی طریقہ ٔ علاج کے ذریعے اس مرض میں مبتلا بچوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مرض دنیا کے بیشتر خطوں میں موجود ہے۔
اسباب و وجوہات
تھیلے سیمیا خون کی ایک جینیاتی خرابی(Genetic Disorder) کا نام ہے جو ہیمو گلو بن کو بنا تا ہے، اگر ماں اور باپ دونوں تھیلے سیمیا مائنر ہوں تو پیدا ہونے والا بچہ اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تھیلے سیمیاخون کی ایک موروثی بیماری ہے،جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے، اس بیماری میں خون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ نتیجتاً مریض کو ہر ماہ انتقالِ خون کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کی پوری زندگی کا انحصار بھی اسی پر ہوتا ہے۔ خاندان میں شادی کی وجہ سے اس مرض کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے۔
اقسام
جینیاتی اعتبار سے تھیلے سیمیا کی دو بڑی اقسام ہیں ۔جنہیں، ’’الفا تھیلے سیمیا ‘‘اور’’ بی ٹا تھیلے سیمیا ‘‘کہتے ہیں۔ پاکستان میں بی ٹا تھیلے سیمیا زیادہ پایا جاتا ہے، جب کہ فارایسٹ میں الفا تھیلے سیمیا کی شرح زیادہ ہے۔سب سے کم شدت والی قسم تھیلے سیمیا مائنر کہلاتی ہے۔شدید ترین قسم، تھیلے سیمیا میجر کہلاتی ہے اور درمیانی شدت والی قسم تھیلے سیمیا انٹرمیڈیا کہلاتی ہے۔
ایک طرح کا تھیلے سیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلے سیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ یعنی الفا تھیلے سیمیا کبھی بھی بی ٹا تھیلے سیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بی ٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلے سیمیا مائنر کبھی تھیلے سیمیا میجر بن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔
تھیلے سیمیا مائنر
تھیلے سیمیا مائنرکوئی بیماری نہیں نہ ہی اس کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف یا شکایت ہوتی ہے اور نہ اس کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایچ بی الیکٹروفرسس کے ذریعے تھیلے سیمیا مائنر کا پتا لگایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں، مگر یہ لوگ تھیلے سیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔
تھیلے سیمیا مائنر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی و ذہنی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسان جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔ تھیلے سیمیامائنرکوئی علامت ظاہر نہیں کرتا، مگر جب والدین تھیلے سیمیامائنرکا شکار ہوں تو پیدا ہونے والے بچوں میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ تھیلے سیمیامیجر کا شکار ہوسکتے ہیں۔
تھیلے سیمیامیجر
تھیلے سیمیامیجر میں خون بننے کا عمل رک جاتا ہے،نتیجتاًایسے بچوں کے جسم میں خون کی شدید کمی پیدا ہوجاتی ہے اور انہیں ساری زندگی انتقالِ خون (Blood Tranfusion)کی ضرورت پیش آتی ہے، تھیلے سیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔
تھیلے سیمیامیجر ایک موروثی جینیاتی(Genetic)بیماری ہے، جو کہ ماں اور باپ دونوں سے یکساں طور پر بچوں میں منتقل ہوتی ہے اگر والدین تھیلے سیمیامائنر کا شکار ہوں تو ہر حمل میں25 فی صد امکان آنے والے بچے میں تھیلے سیمیامیجر کا ہوتا ہے۔ تھیلے سیمیامیجرکی بیماری میں جسم میں لال خون کے ذرّات نہیں بنتے، جس کی وجہ سے بچے میں خو ن کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے ،عام طور پر اس مرض کی علامات بچے میں چار ماہ کی عمر سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ متاثرہ بچے کو ہر پندرہ دن بعد انتقالِ خون اور جسم سے زائد فولاد کے اخراج کے لیے ادویات کی ضرورت تاحیات رہتی ہے۔
علامات
تھیلے سیمیا میجر کی علامات پیدائش کے کچھ دن بعد ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کی نمایاں علامات مندرجہ ذیل ہیں:
٭ جلد کا زرد ہونا ٭کمزوری٭سانس لینے میں دشواری ٭پیٹ کا پھولنا٭کمزوری کی وجہ سے باربار کھانسی یا ڈائریا ہونا۔
اعداد وشمار
ملک میں تھیلے سیمیاکا مرض شدت اختیار کر رہا ہے، سرکاری سطح پر اس سلسلے میں اب تک کوئی سروے نہیں کیا جا سکا اور نیشنل ڈیٹا بیس موجود نہ ہونے کی وجہ سے تھیلے سیمیا سے متاثرہ افراد کی صحیح تعداد کا کوئی علم نہیں، تاہم غیر سرکاری سطح پر کیے جانے والے کئی سرویز کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق تھیلے سیمیامیجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد پاکستان میں80 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے،جب کہ ہر سال 6ہزار بچے تھیلے سیمیامیجر کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تھیلے سیمیا مائنر کی اسکریننگ کسی بھی اسپتال، بنیادی صحت مرکز، دیہی صحت مرکز اورڈسپنسری میں بغیر کسی جدید مشنری کے باآسانی کی جاسکتی ہے۔ تھیلے سیمیا کے مریضوں کی سالانہ تعداد 1200سے 1400کے درمیان ہے ،جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔
علاج
تھیلے سیمیاجیسے موروثی مرض سے متعلق عدم آگہی کی وجہ سے ہی اس مرض کے پھیلنے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زندگی بھر ساتھ رہنے والے اس مہلک مرض سے بچائو کا واحد حل شادی سے قبل تھیلے سیمیاجین کی موجودگی کا پتا چلانے کے لیے خون کا آسان اور سادہ ٹیسٹ کرانا ہے، تاکہ آنے والی نسلوں میں اس بیماری کوروکا جاسکے۔
اب وقت آگیا ہے کہ معاشرے کا ہر با شعور فرد تھیلے سیمیاکے مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس کے تدارک کی بھر پور کوشش کرے ، کیوں کہ ایک صحت مند معاشرہ ہی مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے اور صحت مند معاشرے کا شعور بیدار کیے بغیر خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ
بون میرو ہی تھیلے سیمیا کے مرض کا مکمل علاج ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 20 سال سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کام ہورہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تھیلے سیمیاکے مریضوں کی تعداد جاننے کے لیے National Data Registration Authority قائم کی جائے، تھیلے سیمیامیجر سے متاثرہ بچوں کے لیے محفوظ خون جو کہ Hepatitis B,C HiV Aids,Syphilis,Malaria سے پاک ہو۔
پورے ملک میں یکساں فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کو تھیلے سیمیا سے محفوظ بنانے کے لیے شادی سے قبل تھیلے سیمیا کی اسکریننگ ٹیسٹ کے لیے جو بل منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔