• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجید امجد کی قبر پر عمران ظفر اور انعام عباس کے ساتھ کچھ دیرمصروفِ دعا رہا ۔میں جب وہاں جانے لگا تو میرے ذہن میں مجید امجد کا یہ شعر بار بار لہرا رہا تھا۔

کٹی ہے عمربہاروں کے سوگ میں امجد

مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

وہاں گلاب کے پھول تو نہیں تھے مگر قبر بڑے شاندار انداز میں بنائی گئی تھی ۔اس کی بڑی آرٹسٹک سی چھوٹی سی چھت تھی ،خیرجب پلٹنے لگا تو مجید امجد بھی یہ کہتے ہوئے ساتھ چل پڑے

پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے

نشیب ِ زینہ ِ ایام پر عصا رکھتا

جب ہم شہر میں داخل ہوئے تومجید امجد نے اپنے شہر کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ پوچھنے پر کہنے لگے ۔’’ابھی چندماہ پہلے میں نے شہر کا چکر لگایا تھا مگر اب تو یہ بالکل بدلا بدلا دکھائی دے رہا ہے۔انعام عباس نے کہا کہ ہمارے نئے ڈپٹی کمشنر عبداللہ خرم نیازی کا کرشمہ ہے۔انہوں نے آتے ہی شہر کو خوبصورت اور صاف ستھرا بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے ۔مجید امجد کہنے لگے ۔کسی زمانے میں قدرت اللہ شہاب بھی ڈپٹی کمشنر ہوتے تھے ۔اللہ کرے کہ یہ نوجوان بھی ویسا ہی ثابت ہو۔ وہاں سے نکل کر گورنمنٹ ڈگری کالج پہنچے جہاں اردو شعبہ کے سربراہ عمران ظفر نے شعری نشست رکھی ہوئی تھی ۔وہاں مجھے شیر افضل جعفری بھی دکھائی دئیے ۔جعفر طاہر ، رام ریاض ، رفعت سلطان بھی نظر آئے ۔ صفدر سلیم سیال بھی موجود تھے ۔ وہ دیواروں پر سجے ہوئے تھے کہ اسی کالج کے طالب علم ہوا کرتے تھے ۔شیر افضل جعفری کی صورت میری آنکھوں میں گھومنے لگی ۔انہوں نے مطلع سنایا۔

پھول پھول ز ندگی رنگ رنگ زندگی

ہیر ہیر زندگی ، جھنگ جھنگ زندگی

محمود شام بھی ایک دیوار سے لگے ہوئے دکھائی دئیے ۔میر تقی میر کی طرح

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

کالج کے پرنسپل مہدی حیات خان سے بھی ملاقات ہوئی ۔ڈاکٹر مختار حر نے بھی شعر سنائے ۔اشفاق رضا کی غزل بہت خوبصورت تھی ۔ فورتھ ائیر اسٹوڈنٹ عاطف علی کی نظم بہت ہی شاندار تھی۔شام کو ایک اور مشاعرہ تھا جس کے مہمان خصوصی ندیم بھابھہ تھے ۔ کرسی صدارت پر مجھے بٹھا دیا گیا ۔ میں نے انہیں بہت کہا تھا کہ اتنے بڑے بڑے شاعر جس شہر میں موجود ہوں وہاں میری کیا حیثیت ہے مگر مجید امجد نے میرے کان میں سر گوشی کی۔ خاموشی سے بیٹھ جائو کہ یہ تمہارا زمانہ ہے۔ عمیر نجمی، راکب مختار، دانش نقوی، شاگر خان بلچ، عمر دراز حاشر، صابر چوہدری، انعام عباس، مشہود چوہدری، عمر عزیز، عبداللہ نشاط، جہانزیب ساحر نے اپنا اپنا کلام سنایا۔ آل محمد کی سریلی آواز بھولنے والی نہیں تھی۔ محمد عباس نقوی کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ندیم بھابھہ کی شاعری کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی کی موجودگی میں کئی شاعروں نے ندیم تخلص رکھا مگر کسی کا چراغ نہ جل سکا۔ ندیم بھابھہ، وہ پہلے ندیم تخلص رکھنے والے شاعر ہیں جو ادب میں اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ مقبولیت میں تہذیب حافی اور عمیر نجمی بھی کم نہیں بلکہ تہذیب حافی تو ہمارے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعر ہیں۔ ایک دن انہوں نے مجھے الحمرا میں اپنے ساتھ ہونے والی ایک تقریب کی صدارت کیلئے کہا۔ جب وہاں پہنچا تو الحمرا کے سب سے بڑے ہال میں اتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے کہ سیڑھیوں پر بھی پائوں دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جھنگ والوں نے مجھ سے تہذیب حافی کو باقاعدہ سفارشی فون کرایا کہ وہ ستمبر میں ہونے والے مشاعرہ میں شریک ہو۔

میں جھنگ میں پہلی بار میں مائی ہیر کے مزار پر آیا تھا یہ دیکھنے کیلئے کہ اس کی چھت نہیں ہے مگر بارش کا پانی مزار کے اندر نہیں آتا اور پھر سلطان باہو سے ایک تعلق قائم ہوا تو میں بار بار جھنگ گیا۔ پلٹ پلٹ کر گیا۔ میں نے ان کی چار کتابوں کے فارسی سے اردو تراجم کیے۔ دیوان باہو کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے بعد ان کی 35 نثری کتابوں میں جو ان کی شاعری شامل تھی اسے جمع کیا اور الہامات ِباہو کے نام سے اس کا ترجمہ کیا۔ ان کی دو نثری کتابیں کلید توحید خورد اور کلید توحید کلاں کا اردو ترجمہ کیا۔ سلطان باہو کے جھنگ کے رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہیں۔ یہ صرف وہی جان سکتا ہے جس نے ان کی کتاب ’’عین الفقر‘‘ پڑھ لی ہو۔جھنگ ایک بھرپور ادبی روایت رکھنے والا شہر ہے اس میں ادیبوں شاعروں کیلئے کسی ادبی بیٹھک کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا بھی تعلق اسی شہر سے ہے۔ انہیں یہاں ادیبوں شاعروں کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔

جھنگ کے جس شخص سے میرا سب سے پہلا واسطہ پڑا تھا وہ ڈاکٹر طاہر القادری تھے۔ وہ میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی کے دوست تھے۔ جب نوجوان تھے تو میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے کالج لیکچرار لگے۔ میانوالی میں ہمارے گھر میں قیام کرتے تھے۔ صبح بس پر بیٹھ کر عیسیٰ خیل جاتے تھے اور شام کو واپس آ جاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جھنگ میں بہت بڑی بڑی شخصیات نے جنم لیا۔ یہ بہت مردم خیز خطہ ہے۔ معروف سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جنہیں نوبل پرائز ملا تھا ان کا تعلق بھی جھنگ سے تھا۔

تازہ ترین