• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جس خطّے میں واقع ہے، یہ خطّہ آج جنوبی ایشیا کہلاتاہے اور یہ نام یا اصطلاح پوری دُنیا ہی میںمروّج ہے۔ تاہم، ماضی بعید میں یہ خطّہ ’’ہند‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ کہلاتا تھا اور کسی دَور میں مشرق میں نیپال اور مغرب میں ایران تک کا علاقہ ہندوستان میں شامل تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مُغلیہ عہد کے اختتام تک اس خطّے کو ’’ہندوستان‘‘ کہا جاتا تھا۔ 

بعد ازاں، برطانوی نو آبادیاتی دَور میں اسے’’برِ صغیر‘‘ کا نام دیا گیا اور آج بھی ایک عمومی رُجحان یا اپنی لا علمی اور کم علمی کی وجہ سے بیش تر افراد اس خطّے کو ’’برِصغیر‘‘ ہی سے موسوم کرتے ہیں۔ 1947ء میں تقسیمِ ہندوستان کے نتیجے میں اس خطّے میں دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے، جس کے بعد جنوبی ایشیا کو ’’ہندوپاکستان‘‘، ’’ہندو پاک‘‘ یا ’’پاک و ہند‘‘ بھی کہا جانے لگا، جب کہ بعض مؤرخین اور مصنّفین نے اسے ’’برِعظیم‘‘ بھی قرار دیا۔ 

مثال کے طور پر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنی معروف تصنیف، ’’برِعظیم پاک وہند کی ملّتِ اسلامیہ‘‘ میں اس خطّے کو ہر جگہ ’’ہندوستان‘‘ یا ’’برِصغیر‘‘ کی بہ جائے ’’برِ عظیم‘‘ لکھا ہے اور وہ ہمیشہ یہی اصطلاح استعمال کرتے رہے، جب کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی علمیت سے متاثر ہونے کے سبب راقم الحروف بھی اس خطّے کے لیے جنوبی ایشیا یا برصغیر کی بہ جائے ’’بر عظیم‘‘ ہی کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ برطانوی دَور کے اختتام سے کچھ عرصہ قبل افغانستان نے ایک مستحکم مملکت کی صُورت اختیار کر لی تھی اور پھر ’’ہندوستان‘‘ سے موسوم اس وسیع خطّے میں پہلے پاکستان اور پھر تقریباً ربع صدی کے بعد بنگلا دیش کا قیام عمل میں آیا۔ بعد ازاں، ان سمیت دیگر ریاستوں پر مشتمل علاقے کو ’’جنوبی ایشیا‘‘ کہا جانے لگا اور یہ نام آج بھی مروّج اور مقبولِ عام ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت، بنگلادیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ شامل ہیں۔ 

گرچہ ہمارے خطّے کے لیے مذکورہ بالا تمام جغرافیائی اصطلاحات ہی بہ کثرت استعمال ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان کا تعیّن یا انتخاب عادتاً یا پھر ایک دیرینہ روایت کے طور ہی پر کیا جاتا ہے۔ آج لوگوں کی اکثریت اس خطّے کے لیے ’’جنوبی ایشیا‘‘ یا ’’برِصغیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے، لیکن نظریاتی یا قومی و سیاسی تناظر میں اسے ’’برعظیم‘‘ کہنے کا رحجان معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ قومی، سیاسی یا ملّی تناظر کو اہمیت دینے والے افراد آج بھی اس خطّے کو ’’برِعظیم‘‘ قرار دینا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔

ہندوستان کے لیے ’’برعظیم ‘‘کی اصطلاح کے استعمال میں کمی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ آج پڑھنے لکھنے سے شغف رکھنے والے افراد حتیٰ کہ جامعات کے اعلیٰ مدارج کے اساتذہ کو بھی مذکورہ بالا اصطلاحات میں پائے جانے والے فرق کا ادراک نہیں، جسے ہم اپنے نظامِ تعلیم کی بد قسمتی قرار دے سکتے ہیں۔ آج ہمارے مصنّفین بالخصوص اساتذہ میں حصولِ علم کی حقیقی جستجو اور لگن بہ تدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور ایسا محسوس ہو تا ہے کہ سبھی اس زوال پر آمادہ ہیں۔ اور اگر ایسا ہی ہے، تو پھر یہ کسی قومی المیے سے کم نہیں ۔ 

ایسے میں صرف یہ دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے نظامِ تعلیم میں مثبت و مفید تبدیلیاں وضع کرے اور ایسے لائق و مخلص اربابِ اختیار و اساتذہ کو اس شعبے سے منسلک کرے ، جو نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی خرابیاں دُور کر کے اس کی بہتری کا سبب بنیں اور ’’برِصغیر‘‘، ’’برِعظیم‘‘ اور ’’جنوبی ایشیا‘‘ جیسی اصطلاحات کے غلط استعمال سے گریز کریں۔