• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی اردو یونی ورسٹی، ماڈل یونی ورسٹی ایکٹ کے تحت، کراچی کے دو قدیم کالجز کو یونی ورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے2002ء میں صدر پرویز مشرف کی جانب سے جاری ہونے والے آرڈینینس کے ذریعے وجود میں آئی۔یونی ورسٹی کا پرنسپل دفتر اسلام آباد قرار دیا گیا، جس کے لیے ایک عمارت کرائے پر حاصل کی گئی۔ ماڈل یونی ورسٹی ایکٹ میں نئے تجربات کیے گئے اور اردو یونی ورسٹی کو مُلک کی دیگر جامعات سے علیٰحدہ اور ممتاز تعلیمی ادارہ بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ 

اِن نئے تجربات میں یونی ورسٹی میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عُہدے کا اضافہ، فیصلہ ساز اداروں میں(اکیڈمک کاؤنسل، سینڈیکیٹ وغیرہ) اساتذہ کی نمائندگی کے لیے نام زَد کنندہ کمیٹی کا مرحلہ وار طریقۂ کار، مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے دیگر جامعات سے مختلف، خصوصی سات رُکنی کمیٹی اور انجمن ترقّیٔ اردوکے لیے یونی ورسٹی کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں خصوصی نشست شامل کی گئی۔ وفاقی وزیرِ تعلیم کو یونی ورسٹی میں پرو چانسلر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔چوں کہ ایکٹ میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عُہدے کے لیے اہلیت واضح نہیں کی گئی تھی، لہذا گزشتہ 20 سالوں میں چانسلر دفتر کی جانب سے کسی بھی’’مناسب‘‘ فرد کو اس عُہدے پر فائز کیا جاتا رہا۔ ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عُہدہ یونی ورسٹی میں صدرِ پاکستان کا نمائندہ تصوّر کیا جاتا ہے۔

اِس اعتبار سے اسے ایک خاص انتظامی مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ سات رُکنی نام زَد کنندہ کمیٹی میں دو اساتذہ براہِ راست انتخاب، جب کہ ایک استاد، منتخب اساتذہ کے انتخاب کے نتیجے میں شامل ہوتا ہے۔تین اراکینِ سینیٹ اور ایک خصوصی فرد، جس کا تقرّر سینیٹ کرتی ہے، کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ اِس طرح سات رُکنی نام زَد کنندہ کمیٹی میں بھی چانسلر نواز افراد کو عددی اکثریت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ کمیٹی یونی ورسٹی کے سینیٹ سمیت تمام اہم اداروں میں تقرّر کی سفارش کے لیے تین ناموں پر مشتمل پینل کی سفارش کرتی ہے، جب کہ چانسلر حتمی انتخاب کرتے ہیں۔

مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے قائم کی جانے والی خصوصی تلاش کمیٹی کی تشکیل بھی خاصا دِل چسپ مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کمیٹی میں تین اراکانِ سینیٹ، دو یونی ورسٹی کے اساتذہ، جب کہ دو افراد چانسلر کے منتخب کردہ ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کمیٹی کا کنوینر ہوتا ہے۔ انجمن ترقّیٔ اردو کے لیے سینیٹ اور سینڈیکیٹ میں مستقل نشست کا اہتمام کیا گیا۔ انجمن کی صدارت پر موجود شخصیات ہمیشہ سے صدرِ پاکستان کے قریب رہی ہیں۔ 

وفاقی وزیرِ تعلیم کو آئین میں پرو چانسلر کا عُہدہ دیا گیا، لیکن یونی ورسٹی کے آئین میں اُن کے لیے یہ درج کیا گیا ہے کہ وہ فقط طلب کرنے پر چانسلر کو مشورہ دے سکتے ہیں اور چانسلر کی غیر موجودگی میں کانووکیشن کی صدارت کرسکتے ہیں۔ یوں وفاقی اردو یونی ورسٹی کے انتظامی ڈھانچے میں صدرِ پاکستان اور اُن کے رفقاء ہمیشہ سے فیصلہ ساز حیثیت اور عددی اکثریت میں رہتے ہیں۔

کسی بھی یونی ورسٹی میں وائس چانسلر کو اہم ترین شخص ہونا چاہیے کہ وہی ادارے میں علمی و تحقیقی ماحول پیدا کرنے، انتظامی معاملات کی روانی اور نظم و ضبط کے لیے اہم فیصلے کرتا ہے، لیکن وفاقی اردو یونی ورسٹی میں وائس چانسلر کے فیصلوں پر ڈپٹی چیئر سینیٹ اور انجمن ترقّیٔ اردو کی بھاری بھر کم سیاسی شخصیات کے غیر فطری اور غیر ضروری سائے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔

عملی طور پر ڈپٹی چیئر سینیٹ، صدر انجمن ترقّیٔ اردو اور وائس چانسلرز کے درمیان اختیارات کی سرد جنگ جاری رہتی ہے۔ لہٰذا، یونی ورسٹی کی 21سالہ تاریخ میں17 وائس چانسلرز آئے اور نکالے گئے، جب کہ اِس دَوران صرف4 ڈپٹی چیئر سینیٹ یونی ورسٹی میں موجود رہے۔ تمام ڈپٹی چیئرز نے نہ صرف اپنا دورانیہ مکمل کیا، بلکہ ان میں سے دو نے تو خصوصی توسیع بھی حاصل کی۔اس کے برعکس، صرف ایک وائس چانسلر ہی اپنی پانچ سالہ مدّت مکمل کر سکا۔

انجمن ترقّیٔ اردو کی پرانی عمارت، وفاقی اردو یونی ورسٹی کے عبدالحق کیمپس کے احاطے میں موجود ہے،جب کہ بابائے اردو، مولوی عبدالحق کا مزار بھی یہیں ہے۔ 2016ء میں انجمن ترقّیٔ اردو اور وفاقی اردو یونی ورسٹی کے درمیان’’ بابائے اردو چیئر‘‘ قائم کرنے کا معاہدہ طے پایا، لیکن اِس انجمن نے عبدالحق کیمپس میں موجود عمارت کو تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ اس کے برعکس، اُس کے چند ملازمین کو اردو یونی ورسٹی کے پے رول میں شامل کر دیا گیا۔ 

انجمن ترقّیٔ اردو کے موجودہ صدر نہ صرف وائس چانسلر سرچ کمیٹی میں شامل ہوئے، بلکہ اُنہیں مُلک میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت میں اثر و رسوخ کی وجہ سے سلیکشن بورڈ کی اسکروٹنی کمیٹی کا کنوینر بھی بنایا گیا، نتیجے میں اردو یونی ورسٹی کی تاریخ کا سب سے متنازع سلیکشن بورڈ منعقد ہوا، جس میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف صدرِ پاکستان کی ہدایت پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تفصیلی رپورٹ تیار کی۔کراچی کے علاقے، گلستانِ جوہر میں قائم انجمن ترقّیٔ اردو کا دفتر’’ ایوانِ بالا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں یونی ورسٹی سے متعلق اہم فیصلے ہوتے ہیں۔وائس چانسلرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس’’ ایوانِ بالا‘‘ سے بہتر تعلقات قائم رکھیں۔ دوسری صُورت میں وائس چانسلر کو سابق ہوتے دیر نہیں لگتی۔

یونی ورسٹی سینیٹ کے سابق رُکن، ڈاکٹر توصیف احمد خان نے مئی2019 ء میں منعقدہ سینیٹ اجلاس میں چانسلر اور صدرِ پاکستان، ڈاکٹر عارف علوی کے سامنے یونی ورسٹی کے آئین میں موجود مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ آئین میں مناسب تبدیلیوں کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے،جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے یونی ورسٹی سینیٹ کے رُکن، معروف محقّق، پروفیسر ڈاکٹر سیّد جعفر احمد کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی۔ اِس کمیٹی میں جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر توصیف احمد خان اور کراچی کی معروف کاروباری شخصیت، اے کیو خلیل شامل تھے۔ 

ڈاکٹر جعفر احمد نے یونی ورسٹی آرڈینینس میں مجوّزہ تبدیلیوں کے لیے شب و روز کام کیا۔ معروف علمی شخصیات سے رابطے کیے، دیگر جامعات کے قوانین کا تقابلی جائزہ لیا،اساتذہ اور یونی ورسٹی افسران کی تنظیموں سے سفارشات حاصل کیں۔ اردو یونی ورسٹی انجمن اساتذہ اور آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے اپنی سفارشات پیش کیں۔

ڈاکٹر صاحب اِس لیے بھی اِس رپورٹ کی جلد تکمیل چاہتے تھے کہ یونی ورسٹی سینیٹ میں اُن کی رُکنیت کی میعاد چند ماہ میں مکمل ہونے والی تھی۔تاہم، اُنھیں اُس وقت شدید صدمہ پہنچا، جب سابق ڈپٹی چیئر سینیٹ، اے کیو خلیل نے(جو کمیٹی کے رُکن بھی تھے) ان کی سفارشات کو سینیٹ اجلاس میں شامل ہونے سے روک دیا اور یوں اُن کی تیار کردہ جامع رپورٹ آج تک یونی ورسٹی سینیٹ میں پیش نہیں ہوسکی۔

ڈاکٹر جعفر نے اردو یونی ورسٹی کے سینیٹ سے ریٹائرمنٹ سے قبل26 اگست 2021ء کو ایک خط تحریر کیا، جس میں یونی ورسٹی ایکٹ میں مجوّزہ ترامیم ناکام بنانے والے کردار بے نقاب کیے اور اُن حالات کی نشان دہی کی، جن کی وجہ سے یونی ورسٹی کے آئین میں تبدیلی کے لیے شروع کی گئی کوششیں بظاہر ناکام بنادی گئی تھیں۔اُنھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ’’چوں کہ کمیٹی کی سفارشات میں یونی ورسٹی میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عُہدہ ختم کرنے کی سفارش بھی شامل تھی، اِس لیے بظاہر سابقہ ڈپٹی چیئر سینیٹ، اے کیو خلیل نے کمیٹی رپورٹ سینیٹ میں پیش نہیں ہونے دی۔‘‘

اب صُورتِ حال یہ ہے کہ اساتذہ، افسران اور معاون تدریسی ملازمین یونی ورسٹی کے غیر علمی اور شدید سیاست زَدہ ماحول میں کام پر مجبور ہیں۔ تعلیم و تحقیق کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ سالانہ کانووکیشن گزشہ12سال میں منعقد نہیں ہوسکا۔ یونی ورسٹی سینیٹ میں گزشتہ10سال میں کسی بھی وائس چانسلر نے سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی، حالاں کہ آئین کو رُو سے ہر سال یہ رپورٹ پیش ہونا ضروری ہے۔ بیش تر عمارتیں تعفّن زدہ اور کم زور ہیں۔ فرنیچر ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہے۔ 

انتظامی عُہدوں پر اہل افراد اور افسران کی بجائے جونیئر افراد اضافی چارج اور الاؤنسز کے ساتھ موجود ہیں۔ فنانس کمیٹی کا اجلاس گزشتہ2سال سے منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی سالانہ بجٹ فنانس کمیٹی اور سینیٹ سے منظور کروا کر متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا۔ نتیجے میں یونی ورسٹی کے غیر منظور شدہ اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس میں سیکڑوں بھرتیاں، الاؤنسز، اوورٹائم، یوٹیلٹی بلز اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔ اس کے برعکس، طلبہ کی تعداد ہر سال کم ہو رہی ہے۔ صرف ڈاکٹرعارف علوی کے 5سالہ دور میں 7وائس چانسلرز تبدیل کیے گئے۔ 

گزشتہ دو دہائیوں میں ڈپٹی چیئر سینیٹ، وائس چانسلر اور انجمن ترقّیٔ اردو کے درمیان اختیارات کی جنگ اور وسائل پر قبضے کی رسّہ کشی نے یونی ورسٹی کو علمی و تحقیقی ماحول سے دُور رکھا ہے۔ اقتدار کی آخری لڑائی یونی ورسٹی کی اوّلین خاتون قائم مقام وائس چانسلر کی مدّت مکمل ہونے کے بعد شروع ہوئی۔ اس وقت کے ڈپٹی چیئر سینیٹ نے، انجمن ترقّیٔ اردو اور ایک معروف کاروباری شخصیت کی مدد سے خود کو’’ نگران دفتر وائس چانسلر‘‘ کے عُہدے پر فائز کر لیا۔ 

تاہم، یونی ورسٹی کے سینیٹ نے اِس اقدام کی توثیق نہیں کی اور خود ساختہ نگران وائس چانسلر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزارتِ تعلیم کے عُہدے داروں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم ہوگئی، لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ بھی یونی ورسٹی سینیٹ کے کسی اجلاس میں پیش نہیں کی جاسکی۔ مستقل وائس چانسلر کے تقرّر کی آخری کوشش اُس وقت ناکام ہوگئی، جب صدرِ پاکستان کے فرمان کا تقدّس قائم رکھنے کے لیے ڈاکٹر اطہر عطا کو خصوصی دعوت اور پیکیج پر کینیڈا سے مدعو کیا گیا، لیکن اُنہوں نے یونی ورسٹی میں بمشکل ایک ماہ گزارا اور پھر صدرِ پاکستان کے نام ایک مختصر درخواست تحریر کرکے کینیڈا واپس چلے گئے اور وہاں سے اپنا استعفا بھجوا دیا۔

درحقیقت، وہ اقتدار اور اختیارات کی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بعدازاں صدرِ پاکستان نے نئے مستقل وائس چانسلر کی تقرّری کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی قیادت میں سرچ کمیٹی قائم کی۔ ڈاکٹر مختار نے کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، لیکن یونی ورسٹی کے دو جونیئر اساتذہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ نتیجتاً ایک بار پھر کئی ماہ سے یونی ورسٹی میں مستقل وائس چانسلر دست یاب نہیں اور نظام بدستور ایڈہاک ازم پر چلایا جارہا ہے۔

بہتری کی اُمیدیں اُس وقت دَم توڑ گئیں، جب نام زد کنندہ کمیٹی کے دسمبر2022ء کے اجلاس میں یونی ورسٹی سینیٹ میں ایک بار پھر اُن ہی ناموں کی سفارش کردی گئی، جو بحران کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے یہ نام مسترد کرتے ہوئے یونی ورسٹی کو واپس بھیج دئیے اور غیر متنازع اور قانون کے مطابق متعلقہ اہلیت رکھنے والے افراد کے ناموں کا انتخاب کرنے کی ہدایت کی، جسے یونی ورسٹی نے سنجیدگی سے نہیں لیا، لہٰذا اب تک ان نشستوں پر سینیٹ میں نام زَدگی نہیں کی جاسکی۔

راقم الحروف بہ حیثیت رُکنِ سینیٹ، انجمن اساتذہ کے جنرل سیکریٹری پروفیسر روشن علی سومرو اور آفیسر ویلفیئرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری خرم مشتاق نے کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیرِ تعلیم رانا تنویر اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر احمد مختار سے اسلام آباد میں ملاقات کی اور اُنہیں یونی ورسٹی کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ علمی ماحول کے قیام اور تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے یونی ورسٹی کے آئین میں فوری بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور’’ماڈل یونی ورسٹی ایکٹ‘‘ ختم کیا جائے۔

اِس وقت یونی ورسٹی کے ملازمین کو تن خواہیں اقساط میں ادا کی جارہی ہیں، جب کہ29اساتذہ اور بے شمار عمال کی ریٹائرمنٹ اور پینشن کے بقایا جات ادا نہیں ہوسکے۔ ان میں سے3اساتذہ کا انتقال ہو چُکا ہے اور اُن کے اہلِ خانہ یونی ورسٹی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میڈیکل کی سہولت چند منظورِ نظر افراد تک محدود ہو چُکی ہے۔اِن حالات میں سابق وفاقی وزیرِ تعلیم، رانا تنویر نے یونی ورسٹی ماڈل ایکٹ میں تبدیلی کے لیے قومی اسمبلی میں نئے قانون کا مسوّدہ پیش کیا، جس کی ایوان سے منظوری31جولائی کو حاصل کی گئی۔

بعدازاں، سینیٹ آف پاکستان نے اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو شامل کرتے ہوئے یونی ورسٹی کے لیے نئے قانون کی منظوری دی اور قومی اسمبلی نے اسے ایک بار پھر منظور کرکے صدرِ پاکستان کے پاس بھجوا دیا، لیکن یونی ورسٹی کے چانسلر(صدرِ پاکستان) نے بغیر کوئی وجہ بتائے پارلیمان کی اجتماعی دانش پر’’ نامنظور‘‘ کی مُہر ثبت کر دی۔ اِس قانون میں وفاقی اردو یونی ورسٹی میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عُہدہ ختم کرنے، انجمن ترقّیٔ اردو کی خصوصی نشست کی تحلیل، نام زَد کنندہ کمیٹی کے طریقۂ کار کی جگہ براہِ راست انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے، متنازع ایمرجینسی کمیٹی کے خاتمے، قائم مقام وائس چانسلر کی مدّت120 دن تک محدود کرنے اور مستقل وائس چانسلر کی تلاش کے لیے دیگر وفاقی یونی ورسٹیز کی طرز پر سرچ کمیٹی قائم کرنے کی شِقیں شامل کی تھیں۔

یونی ورسٹی کے سینیٹ کی سربراہی بدستور صدرِ پاکستان کو حاصل تھی، جب کہ دیگر اراکان میں پروچانسلر (وفاقی وزیرِ تعلیم)، وائس چانسلر، وزارتِ تعلیم کے سیکریٹری، چانسلر کی جانب سے مقرّر کردہ پانچ معروف شخصیات، ایک معروف علمی شخصیت اور یونی ورسٹی کے تین کیمپسز میں سے تین اساتذہ نمائندے شامل کیے گیے تھے۔ اِسی طرح یونی ورسٹی کی سینڈیکیٹ کی نئی ترتیب کے مطابق اس میں پروچانسلر(وفاقی وزیرِ تعلیم)، قومی اسمبلی سے ایک رُکن، سپریم کورٹ کے جج یا اُن کے برابرکے ایک رُکن، وزارتِ تعلیم کے جوائنٹ سیکریٹری، الحاقی کالجز کے پرنسپلز، رجسٹرار، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نمائندہ، یونی ورسٹی کے تین اساتذہ نمائندے بذریعہ براہِ راست انتخاب اور کنڑولز امتحانات شامل کیے گیے تھے۔

اردو یونی ورسٹی کے اساتذہ، افسران اور عمال کی نئے قانون سے اچھی توقّعات وابستہ تھیں۔اگر علمی آزادی کا فلسفہ سامنے رکھتے ہوئے پارلیمان کی اجتماعی دانش کا احترام کیا جاتا اور تعلیمی نظم وضبط قائم کرنے کا یہ موقع ضائع نہ کیا جاتا، تو اردو یونی ورسٹی بہت جلد پاکستان کی معیاری یونی ورسٹیز کی فہرست میں شامل ہوسکتی تھی، مگر صدرِ پاکستان اور یونی ورسٹی کے چانسلر نے بغیر کوئی وجہ بتائے پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کو نامنظور کرکے یونی ورسٹی میں تعلیمی انحطاط اور انتظامی بحران میں اضافہ کردیا ہے۔ یوں اُنھوں نے ایک قومی تعلیمی ادارے کو بہتر بنانے کا موقع ضائع کردیا۔ (مضمون نگار، سابق رکن سینیٹ اور انجمن اساتذہ، وفاقی اردو یونی ورسٹی (عبدالحق کیمپس)کے جنرل سیکریٹری ہیں)