عالمی عدالتِ انصاف کے شہر ہیگ سے لے کر بابری مسجد کے خلاف یُدھ کرنے والے سورمائوں کے نگر، ایودھیا تک... انصاف کی ساری مُورتیاں اور منصفوں کے سارے مجسمے آنکھوں کے بغیر یعنی اندھے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاسی سرمایہ کاروں کے مشیر، سرمائے کے اتالیق اور اپنی ذات و مفادات کے قیدی، انصاف کو اپنی جیب کی گھڑی اور منصف کو ہاتھ کا رومال سمجھ کر گھڑی اور رومال دونوں کو نظریہِ ضرورت کے تحت زیرِ تصرف لانے کی خواہش کے بانی اور مُوجد ہیں۔ قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہر خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ہرخواہش کو ضرورت نہیں بنانا چاہئے ورنہ ہر خواہش پر دَم نکلنے کو آ جاتا ہے...!
پاکٹ سائز گھڑی کے بہت سارے فائدے ہیں۔ اسے بوقتِ ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے اور کامیابی سے چھپایا بھی جا سکتا ہے۔ اگلی پاکٹ میں، پچھلی والی جیب میں یا پھر بغلی پاکٹ میں بھی۔ جیب میں پڑی ہوئی گھڑی 2013ء کے صاف صاف الیکشن میں ہونے والی شفاف دھاندلی کی طرح نظر ہی نہیں آتی۔ جب کہ رومال اور بھی زیادہ کام کی چیز ہے۔ انمٹ سیاہی ہو یا کبھی نہ مٹنے والی رُوسیاہی دونوں کو مٹانے کے لئے رومال اولین ہتھیار ہے لیکن افراد تو اندھے ہو سکتے ہیں سماج اور معاشرہ کبھی’’فرمائشی نابینا‘‘کا کردار ادا نہیں کرتا۔ اُردو فلموں اور اُردو ادب کی دُنیا میں اندھے کا کردار لافانی سمجھا جاتا ہے۔ اُردو زبان کے پوٹھوہاری طالب علم کی حیثیت سے میں نے آج کے وکالت نامے کا عنوان بھی ایسے ہی لافانی کرداروں کو خراج پیش کرنے کے لئے چُنا ہے۔ ہمارے وہ دوست جن کی اُردو مِیرا جی کی انگریزی جیسی ہے، اُن کی اطلاع کے لئے یہ وضاحت پیش کرنا ضروری ہے کہ لافانی وہ ہوتا ہے جس کے پاس آمریت کی سہولت، جمہوریت کا تاج اور ہر قسم کا عارضی و مستقل چارج سنبھال کر رکھنے کے لئے علیحدہ علیحدہ سائز اور رنگوں کے پاکٹ ہوں۔ ساتھ ہی اِن عہدوں کو جیب کی گھڑی یا ہاتھ کا رومال سمجھنے کی ’’جرأتِ رندانہ‘‘ دن+ رات موجود ہو۔
پاکستان کو کمرشل جمہوریہ بنانے والوں کا بہت شکریہ۔ اب بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کھل کر ہو گی جبکہ مسئلہ کشمیر، سرکریک کا قضیہ، سیاچن گلیشیئر کا خون آشام باب اور ڈیورنڈ لائن کی شرارتوں، بلوچستان میں لے پالک بدامنی یا دوستانہ دہشت گردی کی سرپرستی جیسے غیر ادبی مسائل کو چونڈہ پُل پر دفنانے کی تیاری تکمیل کے مراحل سے آگے جا چکی مگر اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے کہ پاکستان کے اکثر لوگ نان کمرشل قسم کے ہیں۔ اسی لئے نہ تو عوام کی بھاری اکثریت اور نہ ہی ہمارے قارئین کبھی بھی ( paid content) کے اشتہاروں اور نہ ہی اظہاریوں یا تبصروں اور پروگراموں پر توجہ دیتے ہیں۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بعض تبصراتی اشتہار پیش کرنے والے لافانی کردار ایسے ہیں جن کے بھاشن اور خطبے سننے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اُن کے دیدار کا شرف حاصل کرنے والے کو پروگرام کے آغاز میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ موصوف کا موضوعِ سخن کیا ہو گا...؟ اور اُن کا روئے سخن کس کی جانب ہو گا ...؟ اور اُن کے لفظوں کی گولہ باری اور باڈی لینگویج کی چاند ماری کا نشانہ کون بنے گا...؟ جس طرح قدرتی طور پر اے خدا میرے ابو سلامت رہیں کا ذکر آتے ہی شفقتِ پدری جوش میں آجاتی ہے، بالکل ویسے ہی کیمیائی طور پر اشتہار بازی اور کمرشل ازم ایک دوسرے کے اٹُوٹ انگ ہیں۔ اگر راے عامہ اشتہاروں پر چل رہی ہوتی تو پھر آج دُنیا بھر میں ایک ہی برانڈ کا صابن، ایک ہی کمپنی کا ٹوتھ پیسٹ اور ایک ہی رنگ کی لپ اسٹک استعمال ہوتی۔ ہمارے جیسے بنیاد پرست دیہاتی لوگ کیکر، پھلاہی اور بکائن کے اپنے ہاتھ سے کاٹے ہوئے تازہ مسواک کو صدیوں پہلے خیرباد کہہ چکے ہوتے۔ پورے کرہ ارض پر قبلہ بڑے حکیم صاحب کے خفیہ، خاندانی، صدری اور مردانہ نسخے فتوحات کے مردانہ وار مقابلے جیت رہے ہوتے۔ آسمانوں اور فضائوں میں لڑاکا جیٹ طیاروں اور مال بردار یا سواری والے ہوائی جہازوں کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ ہر طرف جوتشی اور بابے، ہیکل اینڈ جیکل یا شیکل نامی جنّات پر سوار فراٹے اور اٹھکیلیاں بھر رہے ہوتے۔ چکلالہ ایئرپورٹ کی جگہ مارگلہ کی چوٹی پر کوہ قاف اڈا بن جاتا جہاں سے جوتشی اور بابے اپنے اپنے مُریدوں اور کارندوں کو اُڑنے والی چٹائی پر کینیڈا، دبئی اور امریکہ پہنچا رہے ہوتے۔ موسمیات کا محکمہ بند کر کے اس کے ملازمین کے ساتھ لیسکو کے مزدوروں،پی آئی اے کے کارکنوں اور وزیرِ اعظم ہائوس کے ملازموں جیسا سلوک کیا جاتا۔ موسم کی پیشن گوئیاں سنانے کے لئے چڑیا اور کوّے کی خدمات حاصل کر لی جاتیں۔ مگر کوئی چاہے یا نہ چاہے تبدیلی اس کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے لافانی حقیقت ہے۔ سورہٗ رحمٰن کے مطابق ہر شے اور کُل کائنات فنا ہونے والی ہے سوائے ہمارے رَب کے، جو سارے جاہ و جلال کا مالک اور سارے عزت و اکرام کا اکیلا وارث ہے۔ ہر سٹے آرڈر خارج ہونے کیلئے جاری ہوتا ہے۔ اولین عدالت سے، اپیل کی عدالت سے یا آخری اور حتمی عدالت سے دُنیا کے ہر مقدمے کا فیصلہ ہو ہی جاتاہے۔ اقوامِ عالم کے دساتیر کے مطابق ہمارے دستُور میں بھی مملکت چلانے کے لئے اختیارات کی مثلث اور ریاستی کاموں کی ٹرائیکا تحریری طور پر شامل ہے۔ بلوچستان بدامنی کیس اور کراچی قتلِ عام کا مقدمہ سُننے والی عدلیہ کو دل کھول کر شاباش دینا ضروری ہے تو پھر پنجاب بدامنی پر لاہور ہائی کورٹ کے نوٹس لینے پر داد میں کنجوسی کی وجہ کیا ہے...؟ بلکہ وجہ کون سی ہے...؟ کیا اغوا برائے تاوان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ وارداتیں اس قابل بھی نہیں کہ صوبے کی آئینی عدالت اُس کا نوٹس لے...؟ جس صوبے میں بارش سے زیادہ ڈرون برس رہے ہوں۔ جہاں پر فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوں جبکہ دہشت کدے اور وحشت گری کھلے عام ہو۔ اُس صوبے کی عدلیہ کے آئینی سربراہ کو صرف کفن سپلائی کرنے، مُردے نہلانے، جنازہ گاہ کو محفوظ بنانے اور بے گناہ مرنے والوں کے لواحقین یا پسماندگان کے حق میں معاوضہ دینے کے فیصلے کے علاوہ ڈرون بند کرنے کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے...؟ اگر واقعی کوئی قانون ایسا ہے جو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اپنے صوبے میں ڈرون کے قتلِ عام کو بند کرانے کی ہدایت جاری کر سکیں تو پھر وفاق اپیل میں اس فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کرتا...؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کی اصلی کہانی لکھنے کا وقت آ رہا ہے وہ ضرور لکھوں گا۔ سوال یہ ہے کہ جو عدالت ایک وفاقی وزیر کی درخواست پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعلیٰ عہدے پُر کرنے کے لئے دی گئی ہدایات کے عین مطابق فیصلے کرے اُسے نشانے پر رکھنے کا جواز کیا ہے...؟ شاعر کہتا ہے عدل کو صاحبِ اولاد ہونا چاہئے۔ میں کہتا ہوں ہرگز نہیں۔ اولاد کی محبت انصاف نہیں کرنے دیتی۔ انصاف خدائی صفت ہے اور خدا کا نہ کوئی رشتہ دار ہے نہ اولاد۔
پسِ نوشت۔(آج کا وکالت نامہ محض ادبی ہے۔ اسے سیاسی عینک سے نہ پڑھا جائے)