کانوں کے امراض آج کل انسانی صحت کا ایک روز افزوں بڑھتا ہوا مسئلہ بن گئے ہیں۔ یہ امراض اکثر عمر، ماحولیاتی عوامل اور جینیاتی تبدیلیوں کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ کان کےکچھ امراض معمولی تکلیف دہ ہوتے ہیں جب کہ کچھ انسانی زندگی کے لیے ممکنہ خطرات پیدا کر سکتے ہیں جو بہترین علاج کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے شعبہ کان، ناک و حلق پر دیگر فوری طبی امداد اور شدید توجہ طلب امراض مثلاً منہ اور گلے کے سرطان وغیرہ کے غیر معمولی دباؤ کے پیش نظر کان کے مریض عدم توجہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں کان کے بڑھتے ہوئے امراض کے مقابلے میں ان کی درست اور بروقت تشخیص اور مناسب علاج کی سہولیات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ نیز شعبہ کان، ناک اور حلق کے ماہرین کی پچھلی چند دہائیوں سے زیادہ تر توجہ منہ اور حلق کے بے پناہ بڑھتے ہوئے سرطان کی جانب مبذول ہونے کے باعث، اس شعبے میں نئے آنے والے ڈاکٹروں کی کان کے علاج اور جراحی کی عملی تربیت اور تعلیم بھی تشویش ناک حد تک تنزلی کا شکار ہے۔
چناں چہ ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کراچی میں خصوصی طور پر صرف کان سے متعلق امراض، ان کی تشخیص، علاج اور جراحی کی ماہرانہ تربیت اور ان کی اہمیت کی طرف توجہ مبذول کرانے کی غرض سے پہلی مرتبہ اوٹوکون 2023 کے نام سےمقامی ہوٹل میںتین روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی ، جس کے ساتھ چھ عملی دستی جراحی (Hands-on Surgical ) اور تشخیصی (Diagnostic) ورکشاپس بھی مختلف اسپتالوں میں منعقد کی گئیں۔
اس کانفرنس میں برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور ملایشیاء سے ماہرین شعبہ نے شر کت کی جن کے وسیع تجربے، تحقیق اور پر مغز گفتگو سے پاکستانی ماہرین اور طالبعلم مستفید ہوئے۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں انڈس اسپتال کے سی ای او ،ڈاکٹر عبدالباری خان اور اختتامی تقریب میں مہمان ِخصوصی ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کان کے بڑھتے ہوئے امراض پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔
اس موقعے پر ڈاکٹر سعد خالد کا کہناتھا کہ ’’بچے کی پیدائش کے فوری بعد جو اسکریننگ کی جاتی ہے ،اس پر پبلک سیکٹر میں کام کرنا چاہیے ،تاکہ ابتداء میں ہی مرض کی تشخیص ہوجائے۔ بیرون ِممالک میں پیدائش کے بعد بچّوں کے کانوں کا ایک ٹیسٹ ہوتا ہے ،جس سے یہ معلوم کیاجاتا ہے کہ بچے کی قوتِ سماعت میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ ہمیں بھی اس پرٹیس کو اپنانے کی ضرورت ہے ،تاکہ کان کے امراض پر قابو پایا جاسکے ۔‘‘
پاکستان سوسائٹی آف اوٹورائینولیرنگولوجی (PSORL) کے زیر اہتمام ہونے والی اس کانفرنس کو ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی اور دیگر نجی ہسپتالوں کا تعاون حاصل رہا ۔ڈاکٹر ز کا کہنا تھا کہ یہ گراں قدر سرگرمی’’کانوں کے جدید علاج معالجہ میں ترقی‘‘ کی جانب ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔
اس کانفرنس کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا گیا جہاں بین الاقوامی ماہرین، ڈاکٹرز اور تحقیق کاروں نے اپنے تجربات،جدید طریقوں اور تعلیمی تحقیقات سے آگاہ کیا۔ اور بتایا کہ کس طر ح بروقت تشخیص اور جدید طریقوں سےکان کے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ کانفرنس کے ذریعے کان کے امراض کے متعلق عام لوگوں کی معلومات، امراض کی شناخت اور آگہی میں اضافے کی بھی کوشش کی گئی۔ غرض کانوں کے امراض اور ان سے متعلق کانفرنس کے موضوع کی اہمیت، ان کی روشنی میں ان امراض کی تشخیص، علاج اور تحقیقات کو فروغ دینے میں ہے جو آج کل کی تیز رفتار علمی ترقی کے ساتھ منسلک ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کےرواں سال کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کی5 فی صد آبادی یعنی تقریباً چھیالیس کروڑ ساٹھ لاکھ افراد جن میں تین کروڑ چالیس لاکھ بچے بھی شامل ہیں، سننے کی فعال صلاحیت سے محروم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 2050 تک یہ تعداد نوے کروڑ تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یعنی ہر 10 افراد میں سے ایک فرد سننے کی قابل ذکر کمی سے متاثر ہوں گے۔ اعداد وشمار کے مطابق پینسٹھ سال سے زائد عمر کے افراد میں سے ایک تہائی کسی نہ کسی حد تک بہرے پن میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 15 ملین افراد بہرے پن سے متاثر ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد کو بروقت علاج کرکے اس محرومی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سماعت سے محرومی جو عام طور پر بہرہ پن کہلاتی ہے، کئی قسم کی ہو سکتی ہے، جس کی بنیادی اقسام ’’مستقل یا عارضی‘‘ ہیں۔ مستقل بہرہ پن عموما’’کان کے اندرونی حصے، رگ سماعت یا دماغ میں سننے کے مختص حصے کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے اور عموماً ادویات یا عام جراحی کے ذریعے اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا ‘‘جب کہ عارضی بہرہ پن کان کے بیرونی یا درمیانی حصے میں کسی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے اور زیادہ تر قابل علاج ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بچپن میں ہونے والابہرہ پن 60 فی صد قابل علاج ہوتا ہے۔ گو کان کے بیرونی حصے کے انفیکشن بھی کچھ کم نہیں ہیں لیکن کان کے وسطی یا درمیانی حصے کا انفیکشن بچوں میں سب سے عام بیماری ہیں، جس میں کان کے پردے کے پیچھے یعنی کان کے درمیانی حصے میں سیال مادّہ جمع ہوتا ہے جو جراثیم کی تیز رفتاری سے پرورش میں مددگار بنتا ہے اور آخرکار پیپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کیفیت ہی کو ’’کان کا انفیکشن ‘‘کہا جاتا ہے۔ کان کے انفیکشن کا شکار عموماً 6 ماہ سے دو سال کی عمر تک کے بچے ہوتے ہیں لیکن یہ انفیکشن عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے۔ کان کے درمیانی حصے کے انفیکشن کے لئے طبی اصطلاح ’’اوٹائٹس میڈیا‘‘ ہے، جس کا مطلب وسطی کان کی سوزش ہوتی ہے۔
سرعت سے واقع ہونے والے اوٹائٹس میڈیا کی شرح 10.85سالانہ ہے یعنی 709 ملین افراد ہر سال اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 80بچے کبھی نہ کبھی کان کے انفیکشن یعنی اوٹائٹس میڈیا کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے 51 فی صد کی عمر پانچ سال سے کم ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا علاج زیادہ تر ادویات کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے اور تقریباً 99 فی صدقابل علاج ہے لیکن علاج میں لا پرواہی یا نظر اندازی اس مرض کو دائمی بنا دیتی ہے جو نہ صرف یہ کہ اکثر پیچیدہ جراحی پر متنج ہوتی ہے بلکہ مریضوں کی ایک قابل ذکر تعداد جراحی کے بعد بھی پوری طرح اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتی۔
کان کے دائمی انفیکشن کبھی کبھی جان لیوا پیچیدگیاں بھی پیدا کر دیتے ہیں جن میں گردن توڑ بخار، دماغی سوزش، دماغی پھوڑا اور استسقائے سر شامل ہیں۔ کانوں کو عموماً صرف سماعت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت دونوں کان ہمہ وقت متحرک انسانی جسم کے توازن کو برقرار رکھنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ گویا ہر انسان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، جھکنا غرض انسانی جسم کےہر زاویے کی حرکت پر اس کا توازن قائم رکھنا کانوں کا ہی مرہون منت ہے۔ ان کے اندرونی نظام میں معمولی سی اونچ نیچ ،چکروں یعنی Vertigo میں مبتلا کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان نا صرف کسی حرکت کے قابل نہیں رہتا بلکہ شدید اضطراب، بے چینی اور خوف کا بھی شکار ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت اکثر و بیشتر چکروں کی شکایت ختم ہو جانے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔
چکروں کی تین بڑی وجوہات میں سب سے عامBenign paroxysmal positional vertigo) (BPPV یا ’’پوزیشنل چکراہٹ‘‘ ہے، جس کا تدارک آپ کے ماہر امراض کان یا فزیوتھراپسٹ کچھ خصوصی ورزشوں کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ دیگر بڑی وجوہات میں مینیرز ڈزیز (Meinier's Disease) اور Vestibular Neuronitis شامل ہیں جن کا علاج بالعموم ادویات کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں کانوں کے علاج کے جدید ترین طریقے روشناس کرائے جا رہے ہیں۔
کراچی میں منعقد ہونے والی پہلی بین الاقوامی کانفرنس ’’اوٹوکون ‘‘ سے یقیناً مقامی تربیت یافتہ ماہرین اور زیر تربیت طالبعلموں کے لیے کان کے جدید علاج سے روشناس کرنے کی جانب ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔