• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرے شوہر انتہائی دیندار ہیں، نمازی، روزے دار اور قرآن شریف باقاعدگی سے پڑھتے ہیں ، ہماری شادی کو 30سال ہوگئے ہیں ، دوبیٹے ہیں، میرے شوہر ہر معاملے (خاص طور پر بیماری وعلاج) میں اپنی بہن کو ترجیح دیتے ہیں ، ہمیں بنیادی ضرورتوں کے لیے ترساتے ہیں اور اُن پر غیر ضروری صرف کرتے ہیں۔

بیٹوں کی پیدائش سے پہلے میں بہت بیمار رہی اور انتہائی نازک حالت سے گزری ، حمل کے چھٹے ماہ شدید تکلیف کے باوجود ہسپتال لے کر نہیں گئے اور میں بمشکل بچی، مگر بیٹا نہیں بچ سکا، شوہر کا یہ رویہ ،ظلم زیادتی کس زمرے میں آئے گا۔ گھر میں رکھی کھانے پینے کی اشیاء، خواہ وہ شوہر لائے ہوں یا کوئی مہمان لایا ہو، ان کی اجازت کے بغیر ہم نہیں کھاسکتے، اگر کھالیں تو گالیاں بھی کھانی پڑتی ہیں، کیا یہ رویہ درست ہے ،(ایک سائلہ، لاہور)

جواب: نمازاور روزے فرض ہیں، ان کی ادائیگی حقوق اللہ میں سے ہے ،قرآن کریم کی تلاوت سعادات وبرکات اور اجر کا باعث ہے۔ ان سب کے ساتھ بندے پر بندوں کے حقوق بھی لازم ہیں ، جن میں کوتاہی قابلِ معافی نہیں ہے ،رسول اللہ ﷺ نے اہلِ خانہ سے حسنِ سلوک کی تعلیم دی اوراسے کمالِ انسانیت کا معیار قرار دیا :ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ین ہوں، (سُنن ابن ماجہ:1977)‘‘۔

آپ کے شوہر اپنی بہن سے صلۂ رحمی کرتے ہیں ، یہ مستحسن ہے ، لیکن انھیں اپنی اہلیہ اور بچوں کے لیے بھی ہاتھ کشادہ رکھنا چاہیے ،نہ بخل کریں اورنہ بے جا اسراف ،ترجیح اور اولین استحقاق بیوی اور بچے ہیں ، جن کا نفقہ اس کے ذمے ہے ، بلوغت سے قبل کی مدت کا نفقہ واجب ہے اور اس کے بعد استحساناً ہے۔ ترجیح کا معیار حدیث پاک میں یوں بیان فرمایا: ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ کرو ، ایک شخص نے عرض کی :یا رسول اللہﷺ !میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:اسے اپنی ذات پر صرف کرو، اس آدمی نے کہا:میرے پاس ایک اور دینار ہے، آپﷺ نے فرمایا:اُسے اپنی بیوی پر صدقہ کردو، اب اس شخص نے کہا:میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے، آپﷺ نے فرمایا:اُسے اپنی اولاد پر صدقہ کردو، اس نے کہا:میرے پاس ایک اور دینار ہے، آپﷺ نے فرمایا:اُسے اپنے خادم پر صدقہ کردو، اس نے کہا:میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:(اس کا مصرف)تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو،(مسند احمد بن حنبل:7419)‘‘۔

اگر شوہر کنجوسی اور بُخل کرتا ہو، تو دستور اور عرف کے مطابق اپنے اور بچوں کے اخراجات کے لیے جتنی رقم کافی ہو ، خاتون شوہر کو بتائے بغیر بھی لے سکتی ہے ، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ہند بنت عتبہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ ! (میرے شوہر) ابوسفیان بخیل ہیں ،وہ مجھے اتنا نفقہ نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو ،ماسوا اس کے کہ میں ان کو بتائے بغیر کچھ لے لوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے مال سے تو اتنا لے سکتی ہے ، جو تجھے اورتیرے بچوں کو دستور کے مطابق خرچ کے لیے کافی ہو ،(صحیح بخاری:5364)‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ :بیوی کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ،چھوٹے اور ضرورت مند بچوں کا نفقہ باپ پر واجب ہے۔ جس شخص کا کسی دوسرے پر حق ہو اوروہ معروف طریقے سے اس شخص سے اپنا حق وصول کرنے سے عاجز ہو، تووہ اس شخص کے علم اوراس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے بقدرحق لے سکتا ہے۔

آپ نے سوال میں لکھا: ’’ گھر میں رکھی کھانے پینے کی اشیاء خواہ وہ شوہر لائے ہوں یا کوئی مہمان لایاہو، ان کی اجازت کے بغیر ہم نہیں کھاسکتے ، اگر کھالیں تو گالیاں بھی کھانی پڑتی ہیں‘‘،شوہر کا یہ رویہ حددرجہ قبیح اور قابلِ مذمت ہے، اُنھیں اپنے عیال کے نفقے کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے ، ان اشیاء میں اجازت کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے ، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’جب رسول اللہ ﷺ عورتوں سے (شریعت کے احکام پر عمل کرنے کے لیے) بیعت(عہد) لے رہے تھے، ان میں سے ایک بلند قامت عورت کھڑی ہوئی، جو قبیلۂ مُضر سے لگتی تھی، کہنے لگی : اے اللہ کے نبی ! ہماری ذمے داری ہمارے والدین ، اولاد اور ہمارے شوہر پر ہے، کیا اُن کا مال ہمارے لیے اُن کی اجازت کے بغیر حلال ہے؟، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو تازہ مال ہو،اُس میں سے کھاؤ اور بطور تحفہ(اقارب کو) بھیجو ، (سُنن ابوداؤد:1686) ‘‘ ۔ یعنی وہ اشیاء جو دیرپا نہ ہوں ، جلد خراب ہوجاتی ہیں، اس کے استعمال میں اجازت کی حاجت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اہلِ خانہ کے لیے دسترخوان وسیع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اُس پر اجر بیان فرمایا ، ساتھ ہی سال بھر رزق میں کشادگی کا سبب بھی قرار دیا۔ 

خلاصۂ کلام یہ کہ بیوی اور نابالغ بچوں کا نفقہ یعنی اشیائے ضرورت کی فراہمی ، شوہر کی ذمے داری ہے، اگر آپ کا بیان درست ہے ،تو شوہر کا رویہ قرآن وسنّت کی تعلیمات کے خلاف، غیرشرعی اور غیر اخلاقی ہے، انھیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ اپنا رویہ اوربرتاؤ درست رکھنا چاہیے۔ اپنے زیرِ کفالت افراد کے حقوق اداکرنے کے بعد اپنی بہن اورقریبی رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا بھی شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔ نیز آپ کو بھی اپنے شوہر کے ساتھ رویہ اچھا رکھنا چاہیے ،ان کی ہرجائز بات مانیں اوران کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں، بچوں کوبھی اپنے والد کے احترام کی ترغیب دیں۔