بون میروانسانی جسم کی ہڈیوں کے درمیان پایا جانے والا ایک اسپنج دار مادّہ ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں جسم کے زیادہ تر خون کے خلیات تیار اور محفوظ ہوتے ہیں،یہ خون کے سرخ و سفید خلیات اور پلیٹلیٹس بناتاہے۔یہ مادّہ ہڈیوں میں اسٹیم سیل اور دیگر مادّے تیار کرتا ہے،جس کے نتیجے میں انسانی جسم میں خون کے خلیے بننے کا عمل شروع ہوتا ہے،واضح رہے کہ خون بنیادی طور پر تین خلیات (cells ) سفید خلیات ،سر خ خلیات اور پلیٹلیٹس خلیات سے مل کر بنیا ہے ۔
ہرقسم کے خون کے خلیے کا ایک اہم کام ہوتا ہے۔
•٭خون کے سرخ خلیے جسم کےتمام بافتوں(Tissues) تک آکسیجن لے جاتے ہیں۔
•٭پلیٹلیٹس خون کے جمنے میں مدد کرکے خون بہنا بند کرتے ہیں۔
•٭سفید خون کے خلیے انفیکشن سے لڑتے ہیں۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہے؟
بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک طبی طریقۂ علاج ہے جو کسی کے غیر صحت مند بون میرو کو صحت مند خلیوں سے بدل دیتا ہے۔متبادل خلیات ڈونر کے جسم سےلیے جاسکتے ہیں۔ یہ جسم میں خون کے سرخ خلیات،سفید خون کے خلیات اور پلیٹلیٹس بنانے کی صلاحیت کو بحال کرتا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ کو اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بھی کہا جاتا ہے۔یہ لیو کیمیا،اے پلاسٹک انیمیا،تھیلے سیمیا، سکل سیل انیمیا،مائیلوما،لیمفوما ،خون اور مدافعتی نظام کی دیگر بیماریاں جو بون میرو کو متاثر کرتی ہیں کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کو 1968 سے لیو کیمیا،اے پلاسٹک انیمیا،سکل سیل انیمیا،مائیلوما، لیمفوما ، مدافعتی نظام کی خرابی، اور کچھ ٹھوس ٹیومر کینسر جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔بون میرو ٹرانسپلانٹ، بون میرو کی جگہ لے لیتا ہے جو بیماری سے خراب ہوچکا ہے، جیسے لیوکیمیا یا لیمفوما۔ صحت مند خون کے خلیے، کسی عطیہ دہندہ سے، ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ نئے خون کے خلیے تیار کریں اور نئے صحت مند میرو کی افزائش کریں۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
لیو کیمیا،اے پلاسٹک اینیمیا تھیلے سیمیا اور خون کی دیگر بیماریوں میں جب خون بننے کا عمل متاثر یا بند ہو جاتا ہے تو مریض کے سگے بھائی بہن یا والدین سے ٹشو میچ کرنے کے بعد ڈونرسےہڈیوں کا تھوڑا سا گودا مریض کو منتقل کیا جاتا ہے،یہ بون میرو دینے والے کے لیےایک بے ضرر عمل ہوتا ہے، جس سے بون میرو دینے والے ڈونر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
بون میروکی تاریخ
ٹرانسپلانٹیشن کی تاریخ انتہائی پرانی ہے،غیر صحت مند اعضا کی پیوندکاری اور اس کی جگہ صحت مند اعضا لگانے کا خیال طب کی تاریخ میں کوئی نیا نہیں،محققین نے اس پر عرق ریزی سے تحقیق کی، تاہم 1940 کی دہانی تک بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک عام خیال نہیں بن سکا، دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد، لوگوں کوجلد کی پیوند کاری اور خون کی منتقلی وغیرہ کی ضرورت تھی۔
اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے محققین نے مطالعہ کیا کہ جنگ کے دوران تابکاری کے اثرات کی وجہ سے بون میروناکام ہوا یا موت کاسبب بنا۔تحقیق سے اس امر کا تعین ہوا کہ جسم کا کسی دوسرے شخص کے اعضاء یا خون کو مسترد کرنا مدافعتی نظام کی وجہ سے تھا۔ 1950 کی دہائی میں، محققین نے تابکاری کے سامنے آنے والے جانوروں میں بون میرو گرافٹس کے ساتھ تجربہ کیا۔ ان مطالعات میں مریضوں کے ساتھ بھی تجربات کیے گئے،تاہم ڈونر کے میرو کوجسم کے مسترد کرنے کی وجہ سے یہ طریقہ کار ناکام ہو گئے تھے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ بون میرو ڈونر کا جینیاتی میچ ہونا ضروری ہے۔
1956 میں، پہلا کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر E. Donnall Thomas نے Coopers town ,New Yorkمیں کیا۔ لیوکیمیا کے شکار ایک بچے کو اس کے ایک جیسے جڑواں بچوں سے بون میرو کے ساتھ ٹرانسپلانٹ ہوا۔ دو سال بعد، فرانسیسی امیونولوجسٹ ڈاکٹر جین ڈاؤسیٹ نے human leukocyte antigens (HLA) دریافت کیا۔
پروٹین کا یہ گروپ مدافعتی نظام کو منظم کرتا ہے اور یہ پہچانتا ہے کہ جسم میں کیا ہے اور کیا نہیں۔ وصول کنندہ اور عطیہ دہندہ کے درمیان HLA کی مطابقت کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے ضروری ہے۔1968 میں،میچ کیے جانے والے متعلقہ ڈونر کے ساتھ پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں ہوا۔ایک بچہ جس کا مدافعتی نظام شدید متاثر تھا اسے 9 سالہ بچی کے عطیہ کردہ میروٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ میچ کا تعین وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں ڈاکٹر فرٹز باخ کے تیار کردہ خون کے ٹیسٹ سے کیا گیا۔
تاریخ میں اس طریقہ کار نے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی راہ ہموار کی۔ 1973 میں غیر متعلقہ (Un Related patients)مریضوں کے ساتھ پہلا کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا۔ 1980 کی دہائی میں، نیشنل میرو ڈونر پروگرام اور بون میرو ڈونرز ورلڈ وائیڈ پروگرام کا قیام عمل میں آیا، آخر کار یہ ممکن ہوا کہ مریضوں کو غیر متعلقہ عطیہ دہندگان سے ملایا جائے۔ 1990 کی دہائی میں، نال کے خون میں ا سٹیم سیلز کے ساتھ ٹرانسپلانٹ بھی استعمال ہونے لگے۔ ہڈی کا خون مماثل ٹرانسپلانٹس کی اجازت دیتا ہے۔
حالیہ برسوں میں علاج کی پیش رفت نے آدھے مماثل ٹرانسپلانٹس کی بھی اجازت دی ہے، جیسے کہ والدین یا بچے سےبون میرو ڈونر تلاش کرنا، جو کچھ دہائیوں پہلے بہت محدود تھا،لیکن آج ایک قابلِ عمل طریقۂ علاج مانا جاتا ہے ۔امریکا میں، 22 ملین سے زیادہ ممکنہ بون میرو عطیہ دہندگان رجسٹرڈ ہیں۔ 300,000 سے زیادہ کورڈ بلڈ یونٹ بھی رجسٹرڈ ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ملین سے زیادہ بون میرو ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ کب ہوا؟
پاکستان میں پہلا بون میرو 13اکتوبر 1995کو ایک نجی ہسپتال میں ہوا،پاکستان میں ہر سال دس ہزار سے زیادہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس وقت صرف 200 کے قریب ٹرانسپلانٹ کیے جارہے ہیں،پاکستان میں بون میرو کے 9مراکز ہیں جب کہ پورے پاکستان میں تقریباً بیس سے پچاس مراکز کی ضرورت ہے۔
صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں ابھی تک بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کوئی سینٹر موجود نہیں،80اور 90کی ابتدائی دہائیوں میں جب ٹرانسپلانٹ ہوتے تھے،اس میں بون میرو کی کامیابی کی شرح 60 فی صد تھی، مگر اب ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کی شرح 80 سے85 فی صد ہے۔یہ سب ڈاکٹرز کی کاوشوں سے ممکن ہوا۔
پاکستان میں اس وقت ٹرانسپلانٹ کی کیا انڈیکشنز ہیں؟
پاکستان میں اس وقت اگر آپ اندازہ کریں تو25سے 30 ٹرانسپلانٹ ایک مہینے میں کرنے کی صلاحیت موجود ہے ،جب کہ صرف تھیلے سیمیا کے مریضوں کی تعداد پاکستان میں ایک لاکھ ہے جن میں سے اگر 25فی صد ٹرانسپلانٹ کے قابل ہیں ،حکومت اگر ان 25 فی صد بچوں کے ٹرانسپلانٹ کی ذمہ داری لے توٹرانسپلانٹ کرانے والوں کی پانچ یا دس سال کی لسٹ بن جائے گی۔اس وقت جو تحقیق ہو رہی ہے اور جو کامیابیاں ہوئی ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سگے بھائی، بہنوں سے ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔
یہاں’’بون میرو ڈونر رجسٹری ‘‘موجود نہیں’’بون میرو ڈونر زبینک ‘‘موجود نہیں،اگر سگے بھائی بہنوں سے بون میرو میچ ہوتا ہے تو ٹرانسپلانٹ ہو تا ہے ۔ بصورت ِ دیگر نہیں ہوتا ۔اگر بون میرو ٹرانسپلانٹ کی افادیت دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ تھیلے سیمیا کے وہ بچے جن کے علاج معالجے پر 40سے 50 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں اور دس سال کی عمر تک یہ اخراجات50 سے60 لاکھ روپے ہوجاتے ہیں، اس اعتبار سے پیدا ہوتے ساتھ ہی اگر 40 یا50 لاکھ میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا جائے تو ایسے بچے مکمل طور پر صحت مند اور نارمل زندگی بھی گزار سکتے ہیں اور زندگی بھرکی پریشانیوں اور اذیتوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کس کا ہے؟ مس میچ ٹرانسپلانٹ کا ہےیا 50فی صد میچ ہونے پرماں باپ کے ساتھ یا بھائی بہن کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کردیں، umbilical cord ٹرانسپلانٹ پر ریسرچ ہو چکی ہے،جو بہت تو نہیں کسی حد تک کامیاب ہے۔بلڈ کینسر کے ٹرانسپلانٹ میں پاکستان اپنی ڈویلپمنٹ میں ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سطح پررابطوں کو بڑھایا جائے،سسٹر ہسپتال قائم کیے جائیں ،ٹریننگ سینٹرز بنائے جائیں، سب سے اہم بات جو میرے علم میں ہے وہ یہ کہ کم از کم تین سے پانچ ایسے بون میرو یونٹس ہیں، سرکاری سطح پر جن کو بناتو دیا گیا ہے، مگر ہیومن ریسورس تیار نہیں کیا گیا، غیر سرکاری انجمنوں اور سرکار کے تحت بہت قیمتی اور بہت مہنگے ایکیوپمنٹس لگ گئے، گویا ہم نے ایف 16 تو لے لیا لیکن اسے اڑانے والا کوئی نہیں،ہم نے بون میرو یونٹس تو بنادیئے ،مگر ٹرانسپلانٹ فزیشنز تیار نہیں کیے،اس کی شدید ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان میں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کی سہولیات چند نجی ہسپتالوں میں فراہم کی جا رہی ہیں۔