پاکستان میں تعلیم کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ علم اور معلومات کو ایک فرد سے دوسرے فرد یا ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا جائے ۔ تعلیم کا اصل مقصد و مطلب تعمیرِ علم ہونا چاہئے یعنی بچوں اور نوجوانوں کو حصولِ علم کے طریقے اور رویے سے آشنا کیا جائے۔ تعمیرِ علم میں ماحول اور ماحولیات کا خاصا دخل ہے۔ ماحول سے مراد ہمارے گردو پیش کی چیزیں یا حالات اور ہمارے اردگرد ہونے والے تمام واقعات شامل ہوتے ہیں ۔ ان میں ہمارے معاشرتی، ثقافتی اور جغرافیائی حالات بھی شامل ہیں اور زندگی کی دشواریاں بھی۔
ماحول اور ماحولیات کے فرق کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیجیے کہ جب اردو میں کسی لفظ کے آخر میں یات لگا دیا جائے تو اس کا مطلب مطالعہ یا اسٹڈی ہو سکتا ہے ۔ مثلا سیاست سے سیاسیات یعنی سیاست کا مطالعہ، معاش سے معاشیات یعنی معاش کا مطالعہ اور عُمران سے عُمرانیات یعنی آبادی کا مطالعہ یا سماج سے سماجیات یعنی سماج کا مطالعہ۔ اب ان کا تعلق اگر تعلیم سے جوڑا جائے تو ہم دیگر الفاظ سے مدد لے سکتے ہیں۔
مثلا تعلیم کے شعبے میں ماحولِ کار (WORKING ENVIRONMENT) کیسا ہے ۔ کیا ہماری تعلیم، شعبہ تعلیم ، اس میں کام کرنے والے افراد اور اساتذہ ماحول دوست ہیں اور ہمارے بچے، نوجوان ماحول دوستی کی تعلیم و تربیت حاصل کرپا رہے ہیں یا نہیں ۔ ہم کس حد تک ماحول دشمن ہیں اور ماحولیاتی سمجھ ہمارے تعلیمی نصاب میں کس طرح دی جاتی ہے ،پھر ماحولیاتی تبدیلی سے ہم کس طرح آگاہ ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ۔ ہم فضا میں آلودگی اور حرارت میں اضافے سے خود کتنے آگاہ ہیں اور اپنے بچوں کو کس حد تک آگاہ کرتے ہیں۔ تعلیم میں معاشرتی ماحول اور قدرتی ماحول دونوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ پھر مجلسی ماحول یعنی اجتماعی زندگی کے بارے میں ہماری تعلیم ہمارے بچوں کو کیا سکھا رہی ہے۔
تعلیم میں ماحولیاتسے مراد نہ صرف ماحول کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا بل کہ ماحول سے منسوب اور آب و ہوا سے متعلق تمام باتوں کا سمجھنا یا کم از کم سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ تعلیم کے لیے سب سے پہلا ماحول بچے کو گھر کا ملتا ہے،ماحول ہی خوش گوار نہ ہو تو بچے پر بھی خوش گوار اثرات نہیں پڑتے۔ بچے کی ابتدائی نشوونما میں گھریلو ماحول دو طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ایک گھر کا ازدواجی ماحول دوسرا معاشی یا اقتصادی ماحول۔ ازدواجی ماحول سے مراد یہ ہے کہ بچہ جس گھر میں زندگی کی ابتدائی باتیں سیکھ رہا ہے یا بچی جو کچھ اپنے والدین سے حاصل کر رہی ہے، وہ کیا اور کیسا ہے۔ اگر والدین خود آپس میں اچھے تعلقات کے حامل نہیں ہیں تو بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ہی نقص ره جاتے ہیں۔
اس لیے والدین کا اپنے بچوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا، ایک دوسرے کو طعنے دینا یا برا بھلا کہنا اور ایک دوسرے کے گھر والوں یعنی سرالیوں کے لتّے لینا، یہ سب بچوں پر انتہائی منفی اثر ڈالتا ہے،یوں بچوں کی تعلیم و تربیت ابتداء سے ہی خرابی کا شکار ہوجاتی ہے۔ والدین کا ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ بچوں میں بھی باہمی عزت و احترام کا باعث بنتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ والدین کے باہمی تعلقات ہمیشہ اچھے رہیں ان میں ناچاقی ہوسکتی ہے لیکن اس کو بچوں کے سامنے دنگل بنا دینا ٹھیک نہیں ،جو بھی باہمی شکوے شکایات ہیں انہیں بچوں کی غیر موجودگی میں حل کرنا چاہئے۔ اس کے لیے ذرا احتیاط اور ضبط کی ضرورت ہے لیکن یہ اتنا نا ممکن بھی نہیں ہے۔
گھر کے ماحول کا دوسرا پہلو معاشی مسائل سے وابستہ ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور بچوں کی خواہشات یہ سب معاشی ماحول کو متاثر کرتے ہیں ۔ تنگ دستی کے شکار والدین کے لیے خاصا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کی تمام خواہشات کو پورا کرسکیں ان مسائل میں اضافہ اس وقت مزید پریشانی اور دباؤ کا باعث بنتا ہے جب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کراتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہاں سے بچے بہترین تعلیم حاصل کے نکلیں گے۔
اس سلسلے میں والدین کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں اور کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے معاشی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو ۔ خود راقم ایک ماہر تعلیم ہے جس نے ابتدائی تعلیم ملیر کراچی کے ایک پسماندہ علاقے کے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ اس لیے کوشش کی کہ اپنے بچوں کو بھی گھر کے قریب اسکولوں میں داخل کرایا جائے، نہ کہ دور دراز کے مہنگے اسکولوں میں ۔ اصل چیز پڑھنے کا شوق پیدا کرنا ہے نہ کہ بڑے اسکولوں میں داخلہ کرانا ۔ دیکھا گیا ہے کہ مہنگے اسکول اکثر اس طرف دھیان دیتے ہیں کہ بڑی شان دار عمارت بناکر والدین اور بچوں کو مرعوب کیا جائے۔
ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کی اچھی سہولتیں سرکاری اسکولوں میں تمام بچوں کو مفت فراہم کرے لیکن ریاست کی اس ناکامی کے باعث والدین نجی اسکولوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ بڑے اور مہنگے اسکول تنگ دست والدین کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ،جہاں تعلیم میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا، کیوں کہ اکثر نجی اسکول تو تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیوں یا فریش گریجویٹس کو واجبی سی تن خواہ پر استاد بھرتی کر لیتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ مہنگے اسکول بھی زیادہ پیسہ دکھاوے پر خرچ کرتے ہیں یعنی اچھے کمرے اور فرنیچر لیکن اساتذہ کو معاوضہ بہت کم دیتے ہیں تو آپ حیرت کریں گے۔
ان اسکولوں کی پہلی ترجیح یہ نہیں ہوتی کہ جو منافع کمایا جا رہا ہے اسے اساتذہ کی تربیت یا بہتر تن خواہوں پر خرچ کیا جائے ۔ ان کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ منافع کو مزید شاخیں کھولنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ پچھلے تیس چالیس سال میں ایک اسکول سے ابتداء کر کے درجنوں اسکولوں بل کہ سینکڑوں شاخوں کا جال بچھا دیا گیا۔ یہ زیادہ تر اسکول پیسہ کمانے کی مشین بن چکے ہیں۔ جو اسکول فیس کم لیتے ہیں اور اساتذہ کو اچھی تن خواہ دیتے ہیں وہ مزید شاخیں کھولنے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتے ۔ اس طرح والدین اپنے معاشی ماحول کو دیکھتے ہوئے اگر بچوں کو قریب ترین اسکول میں داخل کرائیں تو بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔
ہاں کوشش ضرور کی جانی چاہیے کہ بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا ہو جوبرقرار رہے ۔ گھریلو ماحول کے ساتھ محلے اور علاقے کا ماحول آتا ہے ۔ اس میں صفائی ستھرائی کے علاوه بچوں کے تحفظ کے مسائل شامل ہیں ۔ یہ ہماری مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ علاقوں کو صاف ستھرا رکھا جائے اور عوام پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کوڑا کرکٹ ہر جگہ نہ پھینکیں لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ نہ تو ہماری مقامی حکومتیں اپنے فرائق بخوبی انجام دیتی ہیں اور نہ ہی والدین ماحول کو صاف رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ملک بھر میں اسے بے شمار تعلیمی ادارے موجود ہیں جن کے ارد گرد گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، نالے اور نالیاں بہہ رہی ہوتی ہیں۔ کوڑا کرکٹ اڑاڑ کر ہر جگہ پھیلتا ہے ۔ یہ ماحول بچوں کی تعلیم کے لیے بہت مضر ہے۔
دنیا کے بہت سے ملکوں میں بچوں کو صفائی ستھرائی کے فوائد صرف کتابوں میں نہیں پڑھائے جاتے ،بل کہ ان سے خود صفائی کرائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ بہت سے ایسے ترقی پزیر ممالک بھی ہیں جہاں بچوں سے اسکول اور اس کے آس پاس صفائی کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔ یعنی اسکولوں میں چند گھنٹے مکمل طور پر صفائی کرنے اور کرانے پر مرکوز کیے جاتے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو خود والدین شور مچاتے ہیں۔
یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اگر اسکول بچوں کو صفائی ستھرائی کی عملی تربیت دیں تو اس پر شور مچانے کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ محکمہ تعلیم اور عدلیہ کو بھی ایسے فیصلے اور احکام جاری کرنے چاہئیں کہ اساتذہ اور بچے صفائی کے عملی کام کو کم تر نہ سمجھیں۔ یہ تمام مہذب قوموں کا طریقہ ہے کہ وہ خود کو، اپنے ماحولِ کار کو اور ماحولِ تعلیم کو خوش گوار بنانے کے لیے بچوں اور اساتذہ کو ہفتے میں کم از کم ایک بار صفائی کے عملی کام میں شامل کرتے ہیں۔ ہمارے والدین اپنے بچوں کی جسمانی صفائی کا خیال تو رکھتے ہیں لیکن گلی محلے اور اسکول کے ماحول کو صاف رکھنے میں معاون نہیں ہوتے۔
جیسا کہ ماحول میں ہمارے ارد گرد ہونے والی تمام چیزیں شامل ہیں تو ان میں خود والدین کا رویہ نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بل کہ اپنے بچوں کے ساتھ، ان کے اساتذہ کے ساتھ، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اور سڑک پر دیگر چلنے والوں کے ساتھ بہت اہم ہے ۔ پاکستان میں دیکھا جاتا ہے کہ والدین کا رویہ اساتذہ کے ساتھ اور خود اساتذہ کا رویہ اپنے شاگردوں اور اُن کے والدین کے ساتھ درست نہیں ہوتا۔ اگر والدین کو کوئی شکایت ہو تو وہ اسکول آکر بچوں کے سامنے اساتذہ سے بدزبانی کرنے لگتے ہیں اور جواب میں خود اساتذہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بچہ یا بچی اسکول چھوڑ جائے گا تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ والدین کے لیے اسکول بدلنا آسان نہیں ہوتا، کیوں کہ سرکاری اسکولوں کے نخرے بہت ہوتے اور نجی اسکولوں کے مطابے بہت ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اس طرح گلی محلے میں والدین کے رویے اور برتاو سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ ہم لوگ دوسروں سے خفا ہونے اور لڑنے بھڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، یہی رویے بچوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ اسی طرح جو والدین اپنے بچوں کو گاڑیوں میں بھیجتے ہیں یا خود گاڑی میں چھوڑنے جاتے ہیں وہ ٹریفک قوانین کا خیال نہیں رکھتے ،جس سے بچے غلط طریقے دیکھتے ہیں۔
صبح کے وقت اسکول کی وین کے ڈرائیور ہوں یا خود والدین جو گاڑی چلا رہے ہوں، اپنے بچوں کو گاڑی میں بیٹھا کر غلط طریقے سے گاڑی چلاتے ہیں، رانگ سائٹ سے آنے جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کیوں کہ " سب ایسا کرتے ہیں" تو ہم کیوں نہ کریں۔ ہم نے اپنے بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوئے بے شمار والدین کو دیکھا ہے جو سگنل توڑتے ہیں۔
گاڑیوں کی صحیح قطار توڑ کر یا دوسری لائن میں آکر ٹریفک کو منجمد کر دیتے ہیں اور یہ سب مہنگے اسکولوں سے درمیانے اسکولوں تک ہر اسکول کے اردگرد دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ سب ہمارے سماجی ماحول کا حصّہ ہے، جو ہماری اجتماعی زندگی کی بے تربیتی اور بے ڈھنگے پن کو واضح کرتا ہے۔ اس طرح ہم آنے والی نسل کو بھی اپنی بدتہذیبی اور لاقانونیت کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے سماجی ماحول کی بہتری بنیادی طور پر والدین کا کام ہے۔
آب و ہوا اور فضا کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔ درختوں کا کاٹا جانا اور نئے درختوں کا نہ لگانا، گاڑیوں کے انجن درست حالت میں نہ رکھنا، جس سے مضر صحت دھوئیں کا اخراج، ائرکنڈیشن کا بے جا استعمال، تمباکو نوشی، پان اور گٹکے کا استعمال، نشے کی لت میں اضافہ ،یہ سب ماحولیاتی مسائل ہیں ،جن کے لیے ہمارے تعلیمی نصاب میں جگہ بنانی چاہیے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد چوں کہ تعلیم پچھلے تیرہ سال سے صوبوں کی تحویل میں ہے اور انہیں اپنے نصاب تشکیل دینے کا پورا آئینی حق حاصل ہے اس لیے نصاب میں ماحول کے مختلف پہلو شامل کرنے چاہئیں۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسی مصیبت ہے جس کا مقابلہ والدین، اساتذہ اور بچوں کو مل کر کرنا ہے اس لیے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔