سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کئے جانے سے عدل کی دیوی بے نقاب ہورہی ہے ،لب و رخسار سے مصنوعی غازہ اُتر جانے سے اس پیکر کمال کے مبینہ حسن و جمال کی حقیقت آشکار ہوتی جارہی ہے۔اب تو قاضی القضاۃ نے بھی بھری عدالت میں کہہ دیا کہ ’یہ بے ننگ و نام ہے‘۔دوران سماعت نہایت زور وشور سے دلائل دے رہے ایک وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا’جب مارشل لا لگتے ہیںتو تب سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں ۔یہاں اس کمرے میں کتنی تصویریں لگی ہوئی ہیں جواپنا حلف بھول گئے اور آپ بھی سب بھول جاتے ہیں ،تب سب ٹھیک ہوتا ہے۔لیکن جب پارلیمان کچھ کرے تواس میں مین میخ نکالنا شروع کردیتے ہیں۔وہاں بھی سراُٹھایا کریں ۔اس پر بھی پٹیشن لایا کریں ،کہا کریں ہم اس کو نہیں مانتےـ‘۔
مجھے نہیں معلوم آپ سب نے یہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کئے جانے پر کیانوٹ کیا۔بعض احباب کا خیال ہے کہ وکلا کی اہلیت پر سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔باریک بینی سے دیکھنے والے کچھ افراد کہتے ہیں کہ جج صاحبان کا طرز عمل قابل غور ہے ۔بالعموم فریقین کے وکلا کے درمیان بحث ہوا کرتی ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔مگر میرے نزدیک اس ساری کارروائی کے دوران دو پہلو توجہ کے متقاضی ہیں۔ایک پہلو تو یہ ہے کہ جب جج صاحبان عدالت میں تشریف لاتے ہیں اور مسند انصاف پر براجمان ہونے لگتے ہیں تو ان کی کرسی کے پیچھے موجود ایک باوردی دربان نشست کو پیچھے اور آگے کھینچنے کے لئے موجود رہتا ہے۔اسی طر ح جب عدالت برخاست ہونے لگتی ہے تو یہ دربان ایک مرتبہ پھر پوزیشن سنبھال لیتے ہیں تاکہ جج صاحبان کو جاتے وقت کسی قسم کی زحمت نہ اُٹھانا پڑے۔ایک ایسا ملک جسے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے ،جہاں عام آدمی کو بجلی ،گیس اور پیٹرول پر اس لئے اضافی ٹیکس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ ملکی وسائل میں اضافہ کیا جاسکے،کیا وہاں اعلیٰ عدلیہ کو اس قسم کا پروٹوکول زیب دیتا ہے؟یہ سوال بھی اپنی جگہ نہایت اہم ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ ان خوش پوشاک دربانوں اور جج صاحبان کے لباس کا ہے۔پیچھے کھڑے دربان شلوار قمیض،شیروانی اور جناح کیپ میں ملبوس ہوتے ہیں جبکہ بیشترجج صاحبان اور وکلا پینٹ کوٹ اور ٹائی میں دکھائی دیتے ہیں۔یہ تفریق نوآبادیاتی دور کا دیا ہوا تحفہ ہے۔چونکہ یہ اس خطے کا مقامی لباس ہے تو اسے خادموں اور دربانوں کیلئے مخصوص کردیا گیا ہے جبکہ پینٹ کوٹ بدیسی پوشاک ہے اس لئے اسے بالادست طبقے کی پہچان بنادیا گیا ہے۔اس حوالے سے کئی تاریخی روایات موجود ہیں مگر تنگی داماں کی شکایت کے پیش نظر تفصیل میں نہیں جایا جاسکتا۔میں خود سوٹ یعنی پینٹ کوٹ کا دلدادہ ہوں اور شلوار قمیض کبھی کسی خاص موقع پر ہی پہنتا ہوں ۔لیکن کیا قومی لباس کو یوں دربانوں کیلئے مختص کردینا خوئے غلامی کی نشانی نہیں؟
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی کارروائی براہ راست نشر ہونے پر دوسری قابل ذکر بات یہ رہی کمرہ عدالت میں موجود جج صاحبان ہوں یا پھر وکلا ،سب اردو زبان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں ،نہ صرف سمجھنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنا مافی الضمیر اردو میں بات کرتے ہوئے زیادہ احسن انداز میں بیان کرسکتے ہیں مگر پھر بھی انگریزی میں دلائل دیئے جاتے ہیں، انگریزی میں سوالات پوچھے جاتے ہیں ،انگریزی میں بحث ہوتی ہے اور پھر انگریزی میں ہی فیصلے تحریر کئے جاتے ہیں۔جج صاحبان کو مائی لارڈ! یا یور آنر! کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے کیونکہ نوآبادیاتی دور میں عدالتی کارروائی اسی انداز میں آگے بڑھا کرتی تھی۔فرفر انگریزی بولنے کو قابلیت و اہلیت کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔اگر کوئی وکیل اردو میں دلائل دے گا تو نہ جج صاحبان مرعوب ہوں گے اور نہ ہی اس کا موکل مطمئن ہوگا۔اسی طرح اسی جج کو پڑھا لکھا اور قابل خیال کیا جائے گا جو انگریزی زبان پر عبور سے اپنی دھاک بٹھا دے گا۔یہاں ایک بار پھر واضح کردوں کہ مجھے انگریزی زبان سے کوئی پرخاش نہیں۔انگریزی پڑھنے، سیکھنے اور بولنے پر کوئی اعتراض نہیں۔سرتسلیم خم کہ انگریزی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا زینہ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے مگر یہ کیسا احساس کمتری ہے کہ جہاں سب اردو بولنے والے موجود ہوں، وہاں بھی محض اپنی برتری ظاہر کرنے کیلئےانگریزی پر اکتفا کیا جائے؟
آپ کو یاد ہوگا،سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل ایک تاریخی فیصلہ سنایاتھا۔جسٹس جوا د ایس خواجہ نے 12سال پرانی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ اردو کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔عدالت نے قرار دیا کہ آئین کا آرٹیکل251جس میں Shallکا لفظ لکھا گیا ہے اس سے راہ فرار کی گنجائش نہیں ۔حکومت تمام قوانین کا اردو میں ترجمہ کرے مقابلے کے امتحانات اردو میں لئے جائیں اور اہم عدالتی فیصلوں کابھی اردو میں ترجمہ کیا جائے ۔عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ تین ماہ میں اس فیصلے پر عملدرآمد کی رپورٹ دی جائے۔ آئین کا آرٹیکل 251جس میں کہا گیا تھا کہ15سال میں ضروری بندوبست کرکے اردو کو انگریزی کی جگہ دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے گا ،یہ مہلت 1988ء میں ختم ہو گئی مگر حکومتیں نہ صرف آئین پر عملدرآمد نہ کرنے کا ارتکاب کرتی رہی ہیں بلکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دیئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرکے توہین عدالت کی مرتکب بھی ہو رہی ہیں۔ حکومتوں کا طرزعمل اپنی جگہ ،سپریم کورٹ کو تو اپنے فیصلوں کی پاسداری کرنی چاہئے۔اگر معزز جج صاحبان سپریم کورٹ کی عمارت میں اس فیصلے کا اطلاق نہیں کر سکتے، اگر کمرہ عدالت میں اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا تو پھر پورے ملک میں اسے کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کی پاسداری اور عملدرآمد کی طرف سب سے پہلا قدم یہی ہو سکتا ہے کہ عدالتوں میں اردو کو قانونی زبان کے طور پر رائج کیا جائے، بحث اردو میں ہو، دلائل اردو میں دیئے جائیں اور فیصلے بھی اردو میں تحریر کئے جائیں۔