یونیورسٹیاں، اپنے ملک اور معاشرے کی پہچان ہوتی ہیں۔ اُن کی علمی اور تحقیقی سرگرمیاں جب دنیا کے سامنے آتی ہیں تو اس سے اُن کے ملک کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ، سوربون اور علی گڑھ یونیورسٹیوں کے نام لیں تو فوراً ذہن میں ان کے ملکوں کے نام بھی آجاتے ہیں۔
ایک دنیا اِن یونیورسٹیوں پر رشک کرتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات اور دانش گاہیں بحیثیت مجموعی علم اور تحقیق کے میدان میں کوئی ایسے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام نہیں دے سکیں جو دنیا کو ان کی طرف متوجہ کرسکتے، مزید بدقسمتی یہ کہ پچھلے چند برسوں سے ہمارے یہاں بجائے اِس کے کہ اعلیٰ تعلیم کے معیارکو بڑھانے اور یونیورسٹیوں کو حقیقی معنوں میں علم وتحقیق کے مراکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی، زیادہ تر توجہ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے پر مرکوز کردی گئی، چنانچہ گزشتہ دوڈھائی عشروں میں ہمارے یہاں یہ تضاد ابھر کر سامنے آیا ہے کہ، اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی شرح تو کہیں کم رہی جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافے کی شرح غیر معمولی طور پر بلند ہوتی چلی گئی۔
اس وقت بھی صرف اسلام آباد میں۲۵ یونیورسٹیاں ہیں اور وہاں مزید یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں۔ ملک میں ایسی ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن میں طالب علموں کی تعداد دو، تین ہزار سے زیادہ نہیں۔ بنّوں میں یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ستمبر ۲۰۰۵ء میں صرف دوسو طَلَبہ سے شروع کی گئی،اس وقت تین ہزار طلبہ تک کی گنجائش ہے۔مالاکنڈ کی یونیورسٹی میں ہزار سے کچھ کم طلبہ ہیں۔
ائیر یونیورسٹی میں چھ ہزار اور اباسین یونیورسٹی میں چار ہزار سے کچھ اوپر طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ نذیر یونیورسٹی کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق یہاں طلبہ کی تعداد پندرہ سو ہے۔ یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ان جامعات نے خود اپنی ویب سائٹس پر فراہم کیے ہیں۔ بہت کم طلبہ پر مشتمل جامعات کی یہ فہرست تین چار ناموں پر ختم نہیں ہوتی ،بلکہ یہ بھی خاصی بڑی ہوسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جامعات کے قیام کا معیار کیا ہےاورانہیں قائم کرتے وقت کون سے امور ہمارے پیشِ نظر ہوتے ہیں؟
ایک کے بعد دوسری یونیورسٹی بناتے چلے جانے کا رجحان اس وقت صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بھی اس رجحان کو دیکھا جاسکتا ہے۔ عالمی سطح پر تو اس رجحان کا پس منظر یہ بیان کیا جاسکتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے زیرِ اثر تعلیم بھی بہت تیزی کے ساتھ منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے، یہی نہیں بلکہ چند مضامین خاص طور سے نظمِ کاروبار، اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس، ایسے مضامین قرار پائے ہیں جن کی مارکیٹ کو ضرورت ہے اور یوں یہ مضامین بڑی تعداد میں طالب علموں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔
انہی کی تدریس کے لیے نت نئے ادارے بھی میدان میں آرہے ہیں۔اس بین الاقوامی رجحان کے علاوہ پاکستان کی حد تک چند دیگر عوامل بھی نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے رجحان کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں پہلا سبب تو یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی تعداد کو ملک کی ترقی کی علامت سمجھ لیا گیا ہے۔
ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ٹیکنو کریٹ حضرات پچھلے دوعشروں سے مسلسل اس ایک نکتہ پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ملک میں نئی نئی یونیورسٹیاں قائم ہوتی چلی جائیں، کبھی وہ یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا جواز ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی تعداد سے موازنہ کر کے دیتے ہیں اور کبھی ان کے خیال میں پی۔ایچ ۔ڈی ڈگریوں کی تعداد میں اضافہ ملک میں تحقیق کے فروغ کا مظہر ہوتا ہے۔
خود یونیورسٹیوں میں تدریس کا معیار کیا ہے اور ان میں تحقیق کی کتنی اہلیت پائی جاتی ہے، یہ امور خاطر خواہ توجہ کے مستحق نہیں سمجھے جاتے۔ خود حکومتوں کو بھی یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے کی صورت میں احساسِ تفاخر کے اظہار کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے دور میں اتنی یونیورسٹیاں قائم کر دی ہیں۔ اور ان دعووں کو اپنی کامیابی کی ضمانت تصور کیا۔
یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافے کی مہم میں ایچ ای سی سب سے آگے تھی،حالانکہ اس سے بہتر کس کومعلوم تھا کہ سوائے دوچار کے اکثر نئی درس گاہیں اندر سے کتنی کھوکھلی تھیں۔ بیشتر میں مناسب تعداد میں طلبہ تھے،نہ اساتذہ، لائبریریاں اور لیبارٹریز محض برائے نام تھیں ،بہت سی یونیورسٹیاں ادھر ادھر سے مستعار کی ہوئی عمارتوں میں قائم کردی گئی تھیں۔ جنرل مشرف کے جانے کے بعد جب عالمی بینک کا دستِ تعاون ماضی کی طرح دراز نہ رہا تو یونیورسٹیوں کے فروغ اور اُن کی تعداد میں اضافے کے راستے میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوگئیں،مگر جلد ہی ایچ ای سی ایک مرتبہ پھر جامعات کے قیام کے این اوسی دینے کے کام پر لگ گیا۔
یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے میں سیاسی جماعتیں بھی خوب دلچسپی لیتی ہیں۔ وہ بھی اِس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان کےبنانے سے لازماً اعلیٰ تعلیم کا معیار بھی بڑھ جائے گا اورعلم وتحقیق کے نئے سَوتے بھی پھوٹنا شروع ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے وہ بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یونیورسٹیاں محض کسی قطعۂ اراضی اور عمارتوں کا نام نہیں ہوتیں بلکہ اِن کی نشوونما کا زیادہ تر دارومدار اساتذہ اور طلباء وطالبات پر ہوتا ہے جن کی صلاحیتیں اس بات سے مشروط ہوتی ہیں کہ خود اُن کی ابتدائی اور کالج کی سطح کی تعلیم کس معیار کی ہوئی ہے،اور یونیورسٹی میں آنے کے بعد ان کے علم میں اضافے، ان کو ہنرمند بنانے کے لیے درکار وسائل یونیورسٹی میں موجود بھی ہیں یا نہیں۔
پاکستان کی بڑھتی یونیورسٹیاں اگر اب تک کوئی قابلِ قدر کار کردگی دکھانے سے قاصر رہی ہیں تو ہماری دانست میں منجملہ مختلف اسباب کے،اس کا سب سے بڑا سبب ہمارا غیر معیاری نظامِ تعلیم ہے۔ سرکاری اسکولوں کا تو ذکر ہی کیا، چند ایک استثنائی پرائیوٹ اسکولوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ پرائیوٹ اسکولوں سے پڑھ کر آنے والے بھی اس صلاحیت کے حامل نہیں ہوپاتے کہ یونیورسٹی کی سطح کے طالبِ علم بننے کا خود کو اہل ثابت کر سکیں۔
یہی طالبِ علم فارغ التحصیل ہونے کے بعد پھر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تدریس کا فرض سر انجام دیتے ہیں۔ اُن کی دیرینہ کمزوریاں لامحالہ طور پر اُن کی تدریس کے معیار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں ہمارے کالج، اسکولوں کی کوئی ترقی یافتہ شکل بن گئے ہیں جبکہ یونیورسٹیاں، کالجوں کی توسیع شدہ شکل اختیار کر گئی ہیں۔
یونیورسٹیوں کے قیام کے پیچھے اب نسلی اور علاقائی عوامل بھی کار فرما ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب سے کوئی دس سال قبل کا یہ منظرنامہ شاید لوگوں کو یاد ہوکہ صوبہ سندھ میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں نے خوب گرد اڑائی تھی۔
پہلے اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ کراچی یونیورسٹی میں اُن کے داخلے کی راہ میں ڈومیسائل کی رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے، پھر یہ بات سامنے آئی کہ کراچی یونیورسٹی اپنا ایک کیمپس نو شہروفیروز میں قائم کرے گی،اس سلسلے میں سندھ اسمبلی نے ایک قرار داد بھی منظور کی لیکن پھر یہ خبر آئی کہ کراچی میں ایک اور جامعہ ’شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی‘ کے نام سے قائم ہو رہی ہے۔
اُدھر حیدرآباد میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا موضوع ایک تنازعہ کا سبب بنا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سندھ کے اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی مبینہ طور پر مخالفت کی،اِس پر پورے صوبے میں احتجاج ہوا۔ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنمافاروق ستار نے حکومت کو چیلنج کیا کہ اگر اگلے روز سندھ اسمبلی میں حیدرآباد یونیورسٹی کا بل پیش نہیں کیا گیا تو یہ بل اُن کی جماعت کی جانب سے پیش کر دیا جائے گا۔
اگلے روز سندھ اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ڈپٹی اسپیکر نے کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ملتوی کر دیا اور پھر اس کے اگلے روز حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام کا ایک مشترکہ بل منظور کروا لیا گیا۔ اس کو پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کی مفاہمت کی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی میں ’شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء‘ کے قیام کا بل بھی منظور کر لیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے دائود کالج کو یونیورسٹی بنانے کا بل بھی منظور کرکے ایک اور یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی۔
نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی دوڑ میں ایک اور عنصر یہ شامل ہوگیا ہے کہ اب کالجوں کو یونیورسٹی بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، بظاہر اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں اگر واقعی کالج اپنی علمی خدمات اور تحقیقی استعداد کے حوالے سے اتنی ترقی کر چکا ہو کہ یونیورسٹی بن کر وہ اِن دونوں شعبوں میں مزید آگے بڑھ سکتا ہےتو اُس کو یقینا یونیورسٹی بنا دینا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں کالجوں کو یونیورسٹی بنانے کے پیچھے میرٹ سے ہـٹ کر بھی بہت سے اسباب کا رفرما رہے ہیں۔
بعض اوقات اِن کا مرتبہ بڑھانے میں سیاسی عوامل زیادہ اہم کردار ادا کرتے محسوس ہوتے ہیں،بعض اوقات کالج کے اساتذہ اس خیال کے اسیر ہوگئے کہ یونیورسٹی بننے کی صورت میں اُن کی سماجی حیثیت اور مراعات میں اضافہ ہوجائے گا،ان میں سے کئی صدر شعبہ اور کچھ رئیس کلیہ بن جائیں گے۔بظاہر اس قسم کی خواہشات کو بھی غیر فطری نہیں کہا جاسکتا مگر ایک یونیورسٹی کالجوں سے کن معنوں میں اور کن حوالوں سے ایک بلند تر ادارہ ہوتی ہے، اس معیارکا پاس بھی کالجوں کو یونیورسٹی بناتے وقت ضرور کیا جانا چاہیے۔ کالج بالعموم تدریس کے مراکز ہوتے ہیں جبکہ جامعات تدریس کے علاوہ تحقیق ، نئے علم کی پیدائش اور اس کی پرداخت کے منصب پر بھی فائز ہوتی ہیں۔
اگر کالج ان تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل نہیں تو ان کا درجہ بڑھانے سے صرف اساتذہ کو مادّی فوائد ہی حاصل ہوسکتے ہیں،نئے درجوں پر فائز یہ ادارے صحیح معنوں میں یونیورسٹی نہیں بن سکتے۔ دس بارہ سال پہلے کی بات ہے،راجہ پرویز اشرف اُس وقت وزیراعظم تھے،انہوں نے حیدرآباد میں گورنمنٹ کالج کالی موری کی ایک تقریب میں شرکت کی،وہ وہاں یہ وعدہ کر آئے کہ پہلے کالج کی عمارت وسیع کی جائے گی، پھر اس کو یونیورسٹی بنا دیا جائے گا۔
یہ کیسی دلچسپ بات ہے کہ ،ایک یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کرنے میں ایک منٹ سے زیادہ کا وقت بھی نہیں لگا۔ یہ ایک ایک منٹ میں کیے گئے فیصلے ہی ہیں جنہوں نے ہمارے یہاں ایسے اداروں کی کھیپ کی کھیپ کھڑی کر دی،جہاں عمارتیں ہیں، فرنیچر ہے، گاڑیوں کی قطاریں ہیں، گریڈوں کی بھرمار ہے، بظاہر طلباو طالبات اور اساتذہ بھی ہیں لیکن نہ تو علم کی وہ فراوانی نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ تحقیقی کلچر پروان چڑھتا محسوس ہوتا ہے، جس سے یونیورسٹیاں، یونیورسٹیاں بنتی ہیں۔
ملک میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے حوالے سے صحیح سوچ اور فکر کیا ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا کوئی ایسا مشکل نہیں۔ ہمارا اپنا تجربہ اور دنیا بھر کے تجربات اس سلسلے میں ہماری بہت اچھی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اصولاً ہمیں نہ تو کسی نئی یونیورسٹی کے قیام پر اعتراض کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی کالج کے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے پر معترض ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یونیورسٹیوں کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟اور اپنے قیام کے بعد وہ اس مقصد کے حصول کے لیے کن چیزوں کی متقاضی ہوتی ہیں؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو تین نکات غیر معمولی اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں۔
اولاً یہ کہ معاشرے کی اقتصادی اور سماجی ضروریات کیا ہیں؟ ان میں سے کون سی ضروریات ایسی ہیں جن کی تکمیل کے لئے یونیورسٹیاں ناگزیر ہوتی ہیں؟ ہمیں پاکستان کے تناظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آج کے پاکستان کی معاشی وسماجی صورت حال کیا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم ملک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے طویل المدت اور قلیل المدت اہداف کا تعین نہیں کرتے، ہمارے لیے اُن فرائض کا تعین کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا جن کی تکمیل کی ذمہ داری یونیورسٹیوں کے سپرد کی جاسکے۔ دوسری اہم بات جو یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ کرتے وقت پیشِ نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جامعات کا ہمارے مجموعی تعلیمی نظام میں کیا مقام ہونا چاہیے۔
یہ دیکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے مختلف مدراج یعنی پرائمری، سیکنڈری، ہائیر سیکنڈری، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے درمیان ایک تناسب کا ہونا بہت ضروری ہے۔اگر نچلی سطح کی تعلیم محدود اور غیر مؤثر ہوتو اُس کی بنیاد پر اوپر کا ڈھانچہ اوّل تو تعمیر کرنا مشکل ہوگا اور اگر تعمیر کر بھی دیا جائے تو یہ بہت کمزور اور مضمحل ثابت ہوگا۔ تیسرا نکتہ ،ان کا انفراسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہماری بیشتر جامعات ناکافی عمارتوں اور محدود سہولتوں کے ساتھ قائم ہو رہی ہیں۔
اس طرح کی یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے سے کہیں بہتر یہ ہوتا کہ اچھی کارکردگی اور بہتر استعداد کے حامل ایسے کالجوں کو جن کی عمارتوں اور سہولتوں میں توسیع کی گنجائش تھی، اُن کو پوسٹ گریجویٹ سطح کی تدریس کا کام سونپنا شروع کر دیا جاتا اور آٹھ، دس سال بعد جب وہ اس کام میں طاق ہو جاتے تو اُس مرحلے پر اُن کو یونیورسٹی کے درجے پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا جاتا۔
یونیورسٹیاں علوم وفنون کی تخلیق گاہیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا قیام تب ہی بامعنی ثابت ہوسکتا ہے جب ان کو قائم کرتے وقت حقیقت پسندانہ انداز میں ان کی ضرورت کا تعین کیا جائے، باقاعدہ تحقیق کے ذریعے اُس کے مقاصد، ضرورت اور اس کے قابل عمل ہونے کا تعین بھی کیا جائے۔