نیب ریفرنسز میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حفاظتی ضمانت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے جس میں نیب پراسیکیوٹر کو کل دلائل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
حفاظتی ضمانت کی درخواستیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں دائر کی گئی ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے، کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو اسلام آباد لینڈ کریں گے، عدالت تک پہنچنے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے، سابق وزیرِ اعظم خصوصی پرواز سے اسلام آباد آرہے ہیں۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018ء کو غیرحاضری میں سزا سنائی، نواز شریف کی اہلیہ لندن میں زیرِ علاج اور وینٹی لیٹر پر تھیں، فیصلہ سنانے کے اعلان میں تاخیر کی استدعا کی جو منظور نہ ہوئی، سزا کا فیصلہ غیر حاضری میں سنایا گیا تو پاکستان واپس آ کر جیل کا سامنا کیا اور اپیلیں دائر کیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا کالعدم قرار دے کر بری کیا گیا، پٹیشنر کے پیش نہ ہونے کے باعث اپیل عدم پیروی پر خارج ہوئی، عدالت نے کہا کہ جب سرینڈر کریں یا پکڑے جائیں تو اپیل دوبارہ دائر کر سکتے ہیں، نواز شریف جان بوجھ کر نہیں، صحت کی خرابی کے باعث اپیلوں کی پیروی کے لیے حاضر نہیں ہو سکے، انہوں نے ضمانت کی رعایت کا غلط استعمال نہیں کیا، اگرچہ وہ ابھی بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں مگر انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔
حفاظتی ضمانت کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس لیے انہوں نے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا، غیر جمہوری قوتوں نے ماضی میں مجھے اور میرے خاندان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کلونیل طرز پر قانون ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوا، آمر کے دور اور سیاسی مخالفین کی حکومتوں کے دور میں مجھے اور میری فیملی کو نشانہ بنایا جاتا رہا، بطور وزیرِ اعظم میرے دور میں اربوں ڈالرز کے منصوبے مکمل ہوئے۔
نواز شریف کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ میرے خلاف جو کیس بنانے گئے وہ برقرار نہیں رہے، 2016ء میں میری وزارتِ عظمیٰ کے دوران ملک ترقی کر رہا تھا، مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے سازش تیار ہوئی، طاقتور جے آئی ٹی میرے خلاف کک بیکس، اختیارات کے غلط استعمال اور کمیشن کا کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکی، کرپشن پر کوئی ثبوت نہ ملا تو تنخواہ نہ لینے کے الزام میں نکالا گیا، ضمانت کا کبھی غلط استعمال نہیں کیا، طبی بنیاد پر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکا تھا، میڈیکل رپورٹس مستقل بنیادوں پر لاہور ہائی کورٹ جمع ہوتی رہی ہیں۔
پانامہ کی سپریم کورٹ میں سماعتوں اور جے آئی ٹی میں پیشیوں کی تفصیلات درخواست کا حصہ بنائی گئی ہیں۔
نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے نمبر لگا دیے۔
رجسٹرار آفس کی جانب سے درخواستوں پر کوئی اعتراض عائد نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں اشتہاری ہیں، ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی، ان کی سزا کے خلاف دونوں اپیلیں عدم پیروی پر مسترد ہو گئی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے اپیلیں خارج کی تھیں۔