• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے میاں محمد نواز شریف چار سالہ جلا وطنی کے بعد بالآخر وطن واپس پہنچ گئے ہیں تاکہ پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر اپنا کردار ادا کر سکیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کسی ’’ ڈیل ‘‘ کا نتیجہ ہے ۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کچھ معاملات طے اور یقین دہانیاں حاصل کرکے آئے ہیں ۔ کچھ لوگ تو کھلے الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ وہ ’’ این آر او ‘‘ کرکے آئے ہیں ۔ این آر او کا مطلب قومی مفاہمتی آرڈی ننس ہے ، جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے کیا گیا تھا ۔ یہ اور بات کہ اس این آراوکا فائدہ پیپلز پارٹی سے زیادہ ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو بھی ہوا تھا ۔ اس وقت سے این او آر کو صرف ایک فریق یعنی سیاسی جماعتوں کیلئے گالی بنا دیا گیا ہے ۔ میرے خیال میں یہ غلط ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف ڈیل کرکے وطن واپس آئے ہیں ، وہ عدالتوں سے ان کی ضمانت یا انہیں گرفتار نہ کرنے کے احکامات کو اپنی دلیل کی تائید میں استعمال کر رہے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اگرچہ کسی قسم کی ڈیل کے تاثر کی نفی کر رہی ہے لیکن ان کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاثر برقرار رہے تاکہ بااثر سیاسی لوگ یہ سمجھ کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کریں یا اس میں شمولیت اختیار کریں کہ آئندہ حکومت (ن) لیگ کی ہو سکتی ہے۔

یہ پاکستان کی سیاست کی ایک حقیقت ہے ۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں ’’ ڈیل ‘‘ کے بغیر نہ تو سیاست کی جا سکتی ہے اور نہ ہی حکومت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ہم یہ بات بھول جاتے ہیںکہ ڈیل میں لازمی طور پر دو فریق ہوتے ہیں ۔ صرف ایک فریق یعنی سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں ہے ۔ 2007 ء میں جب ایک غیر ملکی اخبار کے نمائندے نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جو این آر او کیا ہے ، اس پر لوگ آپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ یہ این آر او درست ہے اور اس پر آپ کو سیاسی طور پر نقصان نہیں ہو گا ؟ اس پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخی جواب دیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پرامن جمہوری جدوجہد کی ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جانوں کی قربانیاں بھی دیں لیکن ہمیں ملک کے اندر سیاست کرنے کی گنجائش نہیں دی گئی ۔ انتقام پر مبنی اور جھوٹے مقدمات کی وجہ سے ہم ملک میں سیاست نہیں کر سکتے ۔ این آر او کی وجہ سے ہم نے ملک میں واپس آکر سیاست کرنے کا راستہ بنایا ہے تاکہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بحالی کیلئے کوششیں کر سکیں ۔ این آر او سے ہماری سیاسی ساکھ خراب نہیں ہو گی بلکہ یہ ثابت ہو گاکہ ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر ہمیں سیاست سے باہر کرنے والے غلط تھے اور اب انہیں احساس ہوا ہے کہ ملک کو ہم ہی موجودہ بحرانوں سے نکال سکتے ہیں ۔ دنیا نے دیکھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1986 ء میں واپس آکر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کو منزل تک پہنچایا ۔ اسی طرح 2007 ء میں واپس آئیں اور اپنی جان قربان کر دی لیکن ان کی واپسی اور قربانی کی وجہ سے جمہوریت بحال ہوئی اور 2008 ء سے اب تک بظاہر آمرانہ حکومت قائم نہیں ہو سکی۔

جو بات محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہی تھی ، وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آج کھل کر کہہ رہی ہے کہ 2017 ء میں جس طرح ایک عدالتی فیصلے کے ذریعہ میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا اور پھر ان کے خلاف مقدمات کھول کر انہیں جلا وطنی پر مجبور کیا گیا ، وہ نہ صرف ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا بلکہ ویسا ہی غلط اقدام تھا ، جیسا کہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو یا دیگر سیاست دانوں کے ساتھ کیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیل یا این آر او کرنے والا دوسرا فریق غلط تھا اور ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ڈیل یا این آر او پاکستان کے بڑے سیاست دانوں کیلئے دوبارہ سیاست میں کردار ادا کرنے کا ایک راستہ ہے ، جو ان پر مقدمات یا عدالتی فیصلوں سے بند کرایا گیا تھا ۔ بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نہ صرف تجربہ کار ہوتی ہے بلکہ عالمی برادری میں ان کی اپنی حیثیت ہوتی ہے ، جس سے ملک کی بہتری کیلئے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ اب تو یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی ایک ڈیل کا حصہ تھا اور اس ڈیل میں میاں نواز شریف کی جلا وطنی بھی شامل تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قد آور سیاسی شخصیت تو پہلے ہی شہید ہو چکی تھیں ۔ عمران خان کیلئے میدان خالی کرایا گیا ۔ اب عمران خان کسی اور ڈیل سے شاید سیاست میں واپس آسکیں گے۔

میاں نواز شریف ایک تجربہ کار اور زیرک سیاست دان ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ انہوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کرکے اپنے اعلیٰ تدبر کا مظاہرہ کیا ۔ انہیں چاہئے کہ اب یہ سلسلہ ختم کرنے کی کوشش کریں کہ سیاست دانوں کو مقدمات اور دیگر دبائو سے سیاست سے باہر کیا جائے یا ڈیل کے ذریعہ انہیں واپس سیاست میں لایا جائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ سلیکشن کی سیاست نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ میاں نواز شریف کو چاہئے کہ ماضی میں جو ہو گیا ، سو ہو گیا ۔ وہ کوشش کریں کہ سلیکٹڈ نہ بنیں ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے اور سیاست کو مداخلت سے آزاد کرانے کیلئے کوئی حکمت عملی وضع کریں ۔ اب بقول بلاول بھٹو زرداری پرانی اور روایتی سیاست نہیں چلے گی ۔ سب سے پہلے آزادانہ اور شفاف انتخابات کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کریں ۔ اسی اجتماع میں آئندہ کے جمہوری سیٹ اپ کو مضبوط بنانے کا لائحہ عمل بھی طے کریں ۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاسی لیڈر ہیں ، جو چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں ۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے ۔ انہیں اپنے اس اعزاز ، سیاسی مرتبے اور تجربے سے ملک کو نئی سیاست دینی ہے ۔ جہاں عدلیہ اور احتساب کے ادارے آزاد ہوں ۔ جہاں میڈیا پر کسی قسم کا دبائو نہ ہو اور جہاں دیگر سیاسی جماعتیں ’’ ان فیئر گیم ‘‘ کا الزام نہ لگا سکیں۔

تازہ ترین