• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومِ یہود میں نسلی امتیاز، مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کا تصور

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح کی سب سے زیادہ امید اس قوم سے کی جاسکتی تھی، جو حضرت نوح علیہ السّلام کے بعد ان کی اولاد میں سب سے پہلے وحی الٰہی کی امانت دار بنی، اسی لیے قرآن نے ان سے کہا: اور سب سے پہلے تم ہی پیغامِ الٰہی کے منکر نہ بنو، مگر یہ قوم سخت جان ہونے کے ساتھ ساتھ سخت دل بھی ثابت ہوئی۔(سورۃالبقرہ/۴۱) اس نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہیں تکلیفیں دیں، بلکہ قتل تک کر ڈالا، حضرت موسیٰؑ اور ان کے بعد کوئی پیغمبر ایسا نہ ہوگا، جس نے ان کی سنگ دلی کا ماتم نہ کیا ہو اور ان کی سرکشی پر ان کے حق میں بد دعا نہ کی ہو۔ ان کی سرکشی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے انبیاءؑ کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ قرآنِ کریم کا بیان ہے: اور وہ ناحق پیغمبروں کو قتل کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ نافرمان اور حد سے بڑھنے والے ہیں۔(سورۃالبقرہ/۶۱)

’’سورۂ آلِ عمران‘‘ میں اس سے بھی بڑھ کر ہر حق کے داعی اور خیر کے مبلّغ کے قتل کردینے کا الزام بھی ان پر بجا ہے: بے شک، وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے اور پیغمبروں کا ناحق قتل کرتے اور ہر اس شخص کی زندگی کے دشمن بن جاتے ہیں، جو انہیں انصاف اور نیکی کا حکم دیتے ہیں، تو انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے۔سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران میں یہودیوں کی سرکشی اور ان کے ایک ایک عیب کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔

قوم یہود جنہیں قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔یعنی یہودیوں کی مذہبی تاریخ جبر و تشدد، قتل و غارت گری اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے۔ متعدد انبیائے کرامؑ کو انہوں نے قتل کیا، حضرت عیسیٰؑ اور خود رسولِ اکرم ﷺ کے قتل کی کوششوں میں وہ پیہم مصروف عمل رہے۔ ان کی انتہا پسندی اور سرکشی اس درجے عروج پر تھی کہ وہ باہم ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ 

مختلف قبائل اور مختلف فرقوں کے افراد باہم دست و گریباں رہتے۔ بعثتِ نبویؐ کے وقت ان کی انتہا پسندی اس درجے عروج پر تھی کہ وہ ایک دوسرے کے وجود تک کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ آپس میں قتل و خوں ریزی کا بازار ان میں گرم تھا۔ ایک طاقت ور قبیلہ دوسرے کم زور قبیلے کو قتل اور بے گھر کردیتا تھا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے،Encyclopedia of Jews Religion, 1965)

قرآن نے ان کے متعلق اس طرح بیان کیا ہے:پھر تم ہی لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے اور ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو، ان کے برخلاف گناہ اور ظلم سے مدد کرتے ہو۔ (سورۃالبقرہ/۸۵)ان تمام باتوں کے باوجود انہیں اپنے اوپر اتنا زعم تھا اور مذہبی انتہا پسندی میں وہ اتنا آگے تھے کہ انبیاءؑ کی اولاد ہونے کے ناطے وہ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ:ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پسندیدہ ہیں۔(سورۃالمائدہ/۱۸) ساتھ ہی انہیں یہ دعویٰ بھی تھا کہ:اور انہوں نے کہا کہ ہمیں دوزخ کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی لیکن چند روز۔(سورۃالبقرہ/۸۰)

’’تالمود‘‘ یہودیوں کے نزدیک بڑی مقدس کتاب ہے، تورات سے بھی زیادہ اس کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر ان کے ’’حاخاموں‘‘ (علمائے یہود) کے ملفوظات کی کوئی بے حرمتی کرے تو وہ سزائے موت کا مستحق ہے، بلکہ ان کے ہاں یہ جائز نہیں کہ کوئی یہودی صرف تورات پر اکتفا کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تالمود کی روشنی ہی میں تورات کو سمجھے۔(بحوالہ: عبداللہ التل/ خطرالیہودیۃ العالمیۃ علیٰ الاسلام والمسیحیۃ، ترجمہ یہودی خباثتین، مجلس نشریات اسلام کراچی، ۲۰۰۶ء، ص ۹)’’تالمود‘‘ میں تحریر ہے کہ ’’یہودیوں کی روحیں تمام جانداروں کی روحوں سے ممتاز ہیں، وہ (نعوذ باللہ) اللہ کا جزو ہیں، جیسا کہ بیٹا باپ کا جزو ہوتا ہے، دیگر انسانوں کی روحیں شیطانی ہیں اور حیوانوں کی روحوں سے مشابہ ہیں۔‘‘ (ایضاً ص ۱۰)’’تالمود‘‘ میں یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ: ’’جنت صرف یہودیوں کا حق ہے، جب کہ جہنم عیسائیوں، مسلمانوں اور تمام منکروں کے لیے ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۰)یہ تعلیم بھی دی گئی کہ: ’’ہر یہودی کو اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کی دیگر قوموں کی حکومت باقی نہ رہے، تاکہ دنیا پر صرف یہودیوں کا غلبہ ہو۔‘‘ (حوالہ سابقہ ص ۱۰)’’تالمود‘‘ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’دنیا یہودیوں کی ملکیت ہے، انہیں ہر چیز پر تسلط کا حق حاصل ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۱)

یہودیوں کے نسلی تفاخر اور مذہبی برتری کے حوالے سے ’’تالمود‘‘ میں یہ تعلیم ملتی ہے کہ:’’اسرائیلی خدا کے نزدیک فرشتوں سے افضل ہیں، اگر کوئی غیر، اسرائیلی کو مارتا ہے، تو وہ وہ خدا کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ سزائے موت کا مستحق ہے،ان کا یہ بھی نظریہ ہے کہ اگر یہودی نہ ہوتے تو زمین میں برکت نہ ہوتی، یہودیوں اور دیگر لوگوں میں فرق ایسا ہی ہے جیسا کہ انسان اور حیوان میں… مزید کہا گیا کہ جو یہودی نہیں، وہ گدھا ہے، دنیا کی تمام اقوام جانوروں کے باڑوں کی طرح ہیں۔ (ایضاً ص ۱۱)’’تالمود‘‘ میں یہ بھی کہا گیا کہ: ’’ہم (یہودی) خدا کے منتخب کردہ ہیں، دنیا کی قومیں ہماری خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔‘‘ (حوالہ سابقہ ص ۱۱)

گریٹر اسرائیل کے عالمی صہیونی منصوبے کی خفیہ دستاویز ’’یہودی پروٹوکولز‘‘ پروٹوکول ۱۴ میں تحریر ہے:’’جب ہم (یہودی) اپنی سلطنت میں داخل ہوں گے تو اپنے مذہب کے علاوہ کسی مذہب کو برداشت نہیں کریں گے، خدا کی محبوب قوم کی حیثیت سے ہمارا مقدر خدائے واحد کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہے اور اسی کے واسطے سے ہماری تقدیر دنیا کی دوسری اقوام کی تقدیر سے وابستہ ہوئی ہے۔ ہمیں ایمان اور اعتقاد کی دوسرے تمام (دیگر مذاہب) کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہوگا۔‘‘ (بحوالہ: وکٹرای مارسڈن/ یہودی پروٹوکولز، مترجم: محمد یحییٰ خان، لاہور، نگارشات، ۲۰۰۷ء،ص ۱۸۳)

یہودی اس نظریے کے حامل ہیں کہ طاقت اور فریب کاری سیاسی میدان میں خصوصی طور پر کارآمد چیزیں ہیں، ان کے ذریعے دوسروں کو ہمنوا بنانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ یہ ’’یہودی پروٹوکولز‘‘ کا بنیادی تصور ہے، چناں چہ گریٹر اسرائیل کے عالمی صہیونی منصوبے کے پروٹوکول نمبر (۱) میں یہ تحریر ہے:’’سیاسی امور میں طاقت ایک کارگر حربہ ہے، بشرطیکہ اسے ہوشیاری اور دبیز پردوں میں ملفوف کرکے استعمال کیا جائے، دہشت و بربریت کے ذریعے اپنے مخالفوں کو راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے، دوسروں کو دغا دینے اور بے وقوف بنانے میں بھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اگر رشوت، دغا و فریب نیز غداری و بے وفائی کے حربوں سے کامیابی حاصل ہوسکے تو ان کے استعمال سے قطعاً گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی کی جائیداد چھین کر اسے اطاعت و فرماں برداری پر مجبور کیا جاسکتا ہو اور اقتدار پر قبضہ کرنا ممکن ہو تو کسی پس و پیش کے بغیر ایسا کر گزرنا چاہیے۔‘‘ (بحوالہ: یہودی پروٹوکولز، ص ۱۲۹)

اسرائیل ،یہودیوں میں نسلی برتری، قومی و مذہبی تفاخر، اقتدار اور غلبے کی یہ روایات تب سے چلی آرہی ہیں، جب دنیا میں اسرائیل ایک چھوٹا سا قبیلہ تھا، انہوں نے اپنی مذہبی روایات اور تعلیمات کو اپنے ذہنوں میں اس طرح ڈھال لیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہودی پروردگار عالم کی منتخب قوم ہیں۔ انہیں دنیا پر حکومت کرنے کا فرض ودیعت کیا گیا ہے۔ 

یہ روایت بائبل میں اس طرح درج ہے:’’اور بادشاہ تم میں سے ہوں گے اور رُوئے زمین پر جہاں بھی اولاد آدم کے قدم پہنچیں گے، تم وہاں حکمراں ہو گے، میں تمہارے نطفے کو آسمانوں تلے ساری دھرتی بخش دوں گا اور وہ تمام اقوام پر اس طرح حکومت کریں گے، جیسے وہ چاہیں گے اور بالآخر تمام دھرتی پر ان کا قبضہ ہوجائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے ان کی وراثت بن جائے گی۔

چناں چہ یہودیوں نے اپنی نسلی، مذہبی، قومی برتری کے تصور اور روایات کو عملی شکل دینے کے لیے اس کا آغاز فلسطین کے باسی فلسطینیوں سے کیا، کیوں کہ وہ برسوں سے ہر روز بیدار ہوکر پہلی خواہش دعا کی صورت یہی کرتے تھے کہ ’’اگلا برس یروشلم میں گزرے۔‘‘اور جب تمام تر سازشوں، مکرو فریب پر مبنی تدبیروں اور مکاریوں کو بروئے کار لاکر ۱۹۴۸ء میں وہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا خنجر گاڑنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے فلسطین کے حقیقی وارثوں اور اصل باسیوں، فلسطینیوں پر ان کی ہی زمین تنگ کرنا شروع کردی، اس پر یہودیوں کی توجیہ یہ تھی کہ یہ زمین خدا نے انہیں بخشی تھی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے اپنے ابتدائی ورود کے دوران یہاں پہنچے تو اس کے اصل باسی اہلِ فلسطین یہاں عرصۂ دراز سے موجود تھے۔

چناں چہ معروف برطانوی مورخ ٹائن بی ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کو مضحکہ خیز اور احمقانہ قرار دیتے ہوئے لکھتاہے:’’اٹھارہ سو برس کے بعد یہ بات ہرگز نہیں کہی جاسکتی کہ فلسطین یہود کا وطن ہے، ورنہ ریاست ہائے متحدہ امریکا ریڈ انڈینوں کا ملک ہے، اگر ایسی بات ہوتی تو برطانیہ اور دوسرے کئی ممالک کی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ میرے خیال میں فلسطین پر یہودیوں کا بجزو اس کے کوئی حق نہیں کہ وہ وہاں جائیدادیں خرید سکتے ہیں، انہیں وہاں ریاست قائم کرنے کا کوئی حق نہیں، یہ بے حد بد نصیبی کی بات ہے کہ وہاں مذہب کی بنیاد پر ایک (یہودی) ریاست قائم کردی گئی ہے۔‘‘(بحوالہ: وکٹرای مارسڈن/یہودی پروٹوکولز، ص ۱۱۰) (جاری ہے)