• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف محاورۃً پاکستانی سیاست کے لزارس (Lazarus) ہیں، یعنی اُنھیں کئی سیاسی زندگیاں نصیب ہوئی ہیں۔ وہ ہر مہلک گھائو سے بچ نکلے:1993 کے شب خون، 1999 کی فوجی بغاوت، 2017 کی نااہلی، دو طویل جلا وطنیوں، کئی ماہ پر محیط دھرنے، ایک عشرے تک میڈیا پر کردار کشی، طویل حراست اور جیل۔ بایں ہمہ، بہت سے لوگ جسے قصہ ٔ پارینہ سمجھتے تھے، وہ اب پاکستانی سیاست کا مستقبل بن چکا ہے۔ آج نواز شریف تمام الزامات سے بری ہو کر واپس آ چکے۔

موجودہ صدی میں پاکستان میں ہونے والے چار عام انتخابات میں سے تین میں نواز شریف کو حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات، جن میں انھوں نے حصہ لیا، وہ وزیر اعظم بن گئے، وہ پاکستانی تاریخ کی سب سے کامیاب حکومت ثابت ہوئی۔ نواز شریف کی قیادت میں 2013-2017 کے دوران پاکستان کو چار بڑے چیلنجز کا سامنا تھا جن پرماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، دہشت گردی، مہنگائی، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور لوڈ شیڈنگ۔ اس دوران 2013-16میں پاکستان کی تاریخ میں مکمل ہونے والے واحد آئی ایم ایف پروگرام، سی پیک، یورپی یونین سے جی ایس پی پلس تجارتی سہولت، تھری جی اور فور جی موبائل انٹرنیٹ، روس کے ساتھ ہونے والے پہلے دفاعی معاہدے اور پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت جیسی اہم کامیابیاں اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ 1985 سے لے کر 2023 تک، یعنی ان اڑتیس برسوں کے دوران نواز شریف نو سال سے زیادہ مدت کیلئے وزیر اعظم نہ رہ سکے۔ اُنھوں نے اپنی پہلی مدت (1990-93) میں پاکستانی معیشت اور مواصلات کو آزاد کیا، دوسری مدت (1997-1999) کے دوران پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنایا اور اپنے تینوں ادوار میں ملک کے سویلین اور دفاعی ڈھانچے کے مرکزی معمار ثابت ہوئے۔ نواز شریف نے اپنا سیاسی کیریئر پاکستان کے بحران زدہ جمہوری، آئینی، معاشی اور گورننس کے خستہ حال ڈھانچے کو درست کرنے میں گزارا۔ چاہے یہ 1989ء میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے مضمرات ہوں، 1998 ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے ہوں یا 1999ء کی کارگل جنگ اور 2007 ء سے لے کر 2014 ء تک دہشت گردی کی ہولناک لہر ہو۔

نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی کمان نماجہت بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد موضوع ہے۔ اُنھوں نے اس کی نرسری میں پروان چڑھنے والے سیاست دان سے لے کر جمہوریت نواز ہیرو تک کا ایک طویل، مشکل اور صبر آزما سفر طے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی موقع پر وہ ناکام رہے ہوں لیکن ان کے سفر کی سمت میں کمال یکسوئی رہی۔ اُنھوں نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا اس پاک سر زمین پر کوئی خواب تک نہیں دیکھ سکتا تھا :ایک سابق آمر کو 2013 ء میں عدالت میں لے گئے ، اور پھر اس کی قیمت 2014 ء کے دھرنے، ڈان لیکس اور تین سال بعد نااہلی کی صورت ادا کی۔ اب نواز شریف کی واپسی طاقتور حلقوں کے عشروں پر محیط بدعنوانی کے بیانیے اور سیاسی انجینئرنگ کے منصوبے، جس کے نتیجے میں عمران خان کو پاکستان پر مسلط کیا گیا، کی تباہ کن ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2011-12کے عمران خان منصوبے نے ریاستی اداروں کی ذاتی پسند پر مبنی اور آمرانہ مزاج کی حامل بنیاد کو بے نقاب کر دیا۔ اب یہاں سے آگے کا راستہ کیا ہے؟ مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ ایک علامت ہے، اصل مرض نہیں۔ آج جب نواز شریف آئے ہیں تو ان کے سامنے بے دم سیاسی نظام، چوٹ کھائی ہوئی عدلیہ، چُور چُور بیوروکریسی، گھائل نظام اور دقیانوس معیشت ہے۔ خود سر اورسچائی سے لاتعلق میڈیا، چاہے الیکٹرانک ہو یا سوشل، ان میں ہر ایک بحران کا لازمی حصہ رہا ہے۔ نواز شریف کی واپسی اس بات کی مضبوط ضمانت ہے کہ انتخابات ہوں گے۔ سیاسی میدان میں پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان کی موجودگی دیگر سیاسی جماعتوں کو جمہوری میدان میں پائوں رکھنے کی ضمانت دیتی ہے۔ 22-2017 کی آزمائش کے دوران مسلم لیگ (ن) کی بقا چاروں صوبوں میں اس کی تعمیرکیلئے ایک بنیاد فراہم کرتی ہے۔

مندرجہ بالا تباہ کن ناکامیوں نے بہر حال ہمیں یہ دکھادیا ہے کہ آگے کہاں جانا ہے: آزاد معیشت، زراعت کی جدید کاری، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے مروجہ اصولوں کی طرف بڑھنا ہے جنھیں ہم اب تک اپنا نہیں پائے ۔ اس لیے نوا زشریف کے کندھوں پر بہت بھاری فرائض عائد ہوتے ہیں۔

تازہ ترین